جس کا مجھے ڈر تھا وہی ہوا! : تحریر انصار عباسی


پاکستان کے موجودہ حالات انتہائی پریشان کن ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ الیکشن کروائیں ملک میں سیاسی استحکام آ جائے گا۔ میں اُس وقت بھی کہتا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور میں اپنے خوف کا اظہار بار بار کرتا رہا۔ یکم جنوری کو جنگ میں شائع ہونے والے اپنے کالم ’’انتخابات کے بعد رولا ہی رولا‘‘ میں، میں نے لکھا:

ـ’’8 فروری کے انتخابات سے امید تو یہ تھی کہ سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف ایک اہم قدم ہو گا لیکن معاملہ تو کچھ اور ہی نظر آ رہا ہے۔ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آ رہا ہے یہ خوف بڑھتا جا رہا ہے کہ پاکستان کا کیا بنے گا؟ یہ رائے عام سننےکو مل رہی ہے کہ جن حالات میں اورجس انداز میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں اس کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بڑھے گا اور اگر سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہے تو اُس سے معاشی عدم استحکام بھی بڑھے گا۔ اس وقت دو صورتیں نظر آ رہی ہیں۔ اگر انتخابات صاف اور شفاف انداز میں کروائے جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر 9 مئی والے اقتدار میں آ جائیں گے اور اگر انتخابات موجودہ انداز میں ’آزادانہ‘ کروائے جاتے ہیں تو شاید پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ انجینئرڈ انتخابات ہوں گے، جس میں اکثریت کو اقلیت اور اقلیت کو اکثریت میں بدل دیا جائے گا۔ 9 مئی والے کون ہیں؟ اُنہوں نے کس پر حملہ کیاتھا؟ وہ کیسا اور کس کے خلاف انقلاب لانا چاہتے تھے؟ وہ کس ادارے کو اپریل 2022 سے، جب عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اپنے نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب سب کو معلوم ہیں۔‘‘

اسی کالم میں ،میں نے آگے چل کر لکھا:

’’9 مئی میں ملوث افراد اور باقی تحریک انصاف کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچی جانی چاہیے تھی، معافی تلافی کے راستے نکالنے چاہئیں تھے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اور اب جن حالات کا ہمیں سامنا ہے وہ بھی ایسے ہیں کہ انتخابات کے بعد کیا ہو گا ؟یہ سوچ کر پاکستان کے بارےمیں فکر ہوتی ہے۔ جس ’آزاد‘ انداز میں اس وقت انتخابات کروائے جا رہے ہیں اور اُس پر پہلے ہی سوال اُٹھنا شروع ہو گئے ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شاید ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے انجینئرڈ الیکشن ہوں گے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتخابات کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے، قوم کے پچاس ارب ضائع کرنے کی بھی کیا ضرورت ہے، سیدھا سیدھا جسے وزیراعظم بنانا چاہتے ہیں اُس کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیں۔ تحریک انصاف کا بلے کا نشان رہے گا یا نہیں اس پر بھی ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ 8 فروری تک تحریک انصاف کو الیکشن میں اور کون کون سی مشکلات کا سامنا ہو گا اس بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہا جا رہا ہے جو بھی ہو، تحریک انصاف کے نتیجے میں ن لیگ اور دوسری جماعتیں ممکنہ طور پر حکومت بنائیں گی لیکن ایسی حکومت جو اتنے متنازع انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئے گی، کیا وہ ملک میں سیاسی استحکام کا موجب بن سکے گی؟ آگے تو رولا ہی رولا نظر آ رہا ہے۔‘‘

جیسا کہ میں نےڈیڑھ ماہ پہلے لکھا ویسا ہی ہو رہا ہے۔ الیکشن الیکشن کرنے والوں کا شوق بھی پورا ہو گیا۔ اب جن حالات کا پاکستان کو سامنا ہے وہ فکرمندی والے ہیں۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کے رہنما ملک کر بیٹھیں اور اپنے اپنے سیاسی مفادات اور اقتدار کی بندر بانٹ کی بجائے پاکستان کا سوچیں۔ حالات کو مزید خراب نہ ہونے دیں۔ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کریں۔نفرت ، دشمنی، انتقام اور بدلہ کی سیاست کو ختم کریں ۔ عدلیہ کو چاہیے کہ الیکشن سےمتعلق مقدمات کو جلدی سنے اور اُن کا انصاف سے فیصلہ کرے۔ اسٹیبلشمنٹ 9 مئی کے حوالے سے شریک ملزمان کے مقدمات کو ضرور چلائے لیکن پوری کی پوری تحریک انصاف کو کچھ لوگوں کے غلط اقدام کی سزا نہ دی جائے۔ جس نے جو جرم کیا اُس کی سزا بھگتے لیکن اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کو اپنے درمیان موجود رنجشوں کو ختم کرنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ