تاریخ کا جبر اور معیشت کی منطق… تحریر : وجاہت مسعود


برادرم یاسر پیرزادہ نے فکاہیہ کالم سے قلمی سفر شروع کیا تھا۔ علم ان کے شجرے میں ہے۔ بے پناہ ذہانت کو ناقابل یقین محنت سے صیقل کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ چھتنار برگد کے سائے میں سر اٹھانے والے اس پودے نے اپنا ایک رنگ پیدا کیا۔ پھر یوں ہوا کہ وطن عزیز پر دہشت گردی کی آفت اتری۔ سارتر نے کہا تھا کہ بدترین حالات میں فرد کے شخصی انتخاب کی آزادی بلند ترین سطح پر ہوتی ہے۔ یاسر پیرزادہ کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ ان کے کالم سنجیدہ رنگ اختیار کرتے گئے۔ ہماری تاریخ کی وہ آزمائش ہر باشعور شہری سے احساس ذمہ داری ہی نہیں، بہادری کا بھی تقاضا کرتی تھی۔ یاسر اس امتحان پر پورے اترے۔ آج کل ان کے رنگ تحریر میں فکر اور دلیل کے ٹھوس ستونوں پر لطیف پیرایہ بیان کی خوش رنگ بیل چڑھی ہے۔ آج یہ بھی بتا دیا جائے کہ درویش کا یاسر سے پہلا تعارف کب اور کیسے ہوا۔ سنہ 80 یا شاید 81 میں قبلہ عطا الحق قاسمی نے ایک مزے کا کالم لکھا۔ ریل گاڑی میں تیسرے درجے اور اول درجے کی فضا کا استعاراتی منظر کھینچتے ہوئے طبقاتی تقسیم کا سوال اٹھایا تھا۔ مزے کی تحریر تھی۔ اس کالم میں سا ت آٹھ برس کے یاسر نامی بچے کا ذکر تھا جس نے ننھے ننھے ہاتھ اٹھا کر کچھ دعا مانگی تھی۔ درویش جواں عمری کی منزل میں تھا۔ ادبی اظہار کی دریافت کے دن تھے۔ یہ کالم ٹھیک اسی طرح ذہن میں محفوظ رہ گیا جیسے منو بھائی، نذیر ناجی اور مجیب الرحمن شامی کے ان گنت کالم یادوں کے سرمائے میں نگینوں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ تب کسے اندازہ ہو سکتا تھا کہ ننھے ننھے ہاتھوں والے اس بچے کی (جو لاہور کے کسی اعلی اسکول میں تعلیم پا رہا تھا) پنجاب کے کسی بنجر قصبے میں غربت کی آزمائش سے گزرتے نوجوان سے دوستی ہو جائے گی۔ رائے اور رجحان طبع کا اختلاف مٹ جائے گا۔ دونوں اپنے اپنے طبقے کے غدار قرار پائیں گے۔ لاہور کا خوش لباس، خوش خوراک اور اچھا خاصا روایت پسند یاسر پیرزادہ اپنے روایتی حلقہ انتخاب میں معتوب ٹھہرے گا۔ دوسری طرف محرومی کی آنچ میں کھولتا ہوا باغی اپنے انقلاب پسند احباب میں موقع پرستی اور مقتدرہ سے سمجھوتے کے الزام میں مطعون ٹھہرے گا۔ زندگی کے دریا میں کون سی لہر کس موج سے ہمکنار ہو گی، اس کا اندازہ نیاز و ناز سے ہوتا نہیں۔ یاسر پیرزادہ کا ذکر آج یوں چلا آیا کہ وہ اکثر اپنے کالموں میں بقلم خود اپنی بے پناہ مقبولیت کا ڈھول پیٹنے والوں کی فاختہ اڑایا کرتے ہیں۔ یاسر اکثر لکھتے ہیں کہ ان کے کالموں پر کبھی اتنا ردعمل نہیں آتا جس سے ان کا ای میل باکس مونہا منہ بھر جائے۔ نیز یہ کہ انہیں پڑھنے والوں کے خطوط کی بوریاں موصول نہیں ہوتیں۔ یوں اپنے منہ میاں مٹھو لکھاریوں کا پول تو کھولتے ہی ہیں، باریک نقش کاری میں اپنا انکسار بھی بیان کرتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ آج کی اردو صحافت میں یاسر پیرزادہ اور وسعت اللہ خان دو ایسے لکھنے والے ہیں جن کی تحریر اخباری کالم کی صنف کا ہر تقاضا پورا کرتی ہے اور انہیں قبول عام کا درجہ حاصل ہے۔ آپ کے نیازمند کا معاملہ مختلف ہے۔ جعلی انکسار برطرف، حقیقت یہی ہے کہ بندہ بے مایہ گزرے ہوئے زمانے کی بازگشت ہے۔ میرے موضوعات اور زبان و بیان مدت ہوئی ازکار رفتہ ہو چکے۔ مجھے واقعتا چند لوگ ہی پڑھتے ہیں اور ان مہربانوں کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر برس کے درمیان ہے۔ ناچیز اس محدود پذیرائی کو بھی زندگی کا احسان سمجھتا ہے، تشکر نے دل میں ایسا میلہ سجا رکھا ہے کہ کسی سے حسد کا خیمہ کھڑا کرنے کی جا باقی نہیں۔ اس گمنامی کا ایک ذیلی فائدہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر گالی دشنام کی بوچھاڑ سے محفوظ رہتا ہوں۔ خوش قسمتی ہے کہ مجھ سے اختلاف رائے رکھنے والے بھی گالی دشنام کے لوگ نہیں ہیں۔ شائستگی سے تنقید کرتے ہیں۔ میرے مہربانوں کی تعداد کم ہے لیکن ان کی شفقت اور تنقید دونوں میں دل آسائی کی آسودگی پائی جاتی ہے۔ اگلے روز برادر بزرگ انورسن رائے نے اس خوش اسلوبی سے ایک دو سطریں ارزاں کیں کہ میں نے تنویر جہاں سے پوچھا۔ انورسن بھائی تعریف کر رہے ہیں یا تنقید؟ تنویر نے ایک نظر ڈالی اور مطلع کیا کہ انورسن بھائی نے طنز کے رنگ میں تنقید کی ہے۔ میں مسکرا دیا۔ خدا ایسا مہذب اختلاف کرنے والے مہربان ہر لکھنے والے کو نصیب کرے۔ ایک محترم خاتون برسوں سے اپنی رائے عنایت کرتی چلی آ رہی ہیں اور اس طور کہ ذاتی رابطہ نہ ہونے کے باوجود ان کی رہنمائی کو قیمتی اثاثہ سمجھتا ہوں۔ 8 فروری کو عین انتخاب کے دن میری کج مج بیانی پر ذیل کا ردعمل دیا۔ آج کچھ مثبت کی توقع تھی آپ سے۔ آج اس امید کی ضرورت تھی۔ جو اپنی ہر تحریر میں آپ قاری کو دیتے ہیں۔ آج کیا ہوا؟ بطور آپ کے قاری آج میرا دل تھا کہ آپ بہت سے خوش نماجھوٹ لکھتے۔ جتنی آج میں پرامید ہوں۔ آپ بھی اتنا دلآویز بہترین مستقبل کا نقشہ کھینچتے۔ پاکستان کا خوبصورت نقشہ۔ جس کے خواب میرے بزرگوں نے جناح صاحب کے دکھانے پہ دیکھے اور ترک وطن کیا۔ جس کے خواب میں اب بھی دیکھتی ہوں۔ اور اپنے بچوں کی آنکھوں میں منتقل کر دیتی ہوں۔ کرنے والے تو جو چاہیں، کریں گے، ہم تو خواب دیکھ سکتے ہیں۔ اس مہربان تبصرے کا ایک جواب تو غالب نے لکھ رکھا ہے۔ کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ بزم میں / ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں۔ غالب کے بیان کو وطن عزیز کے موجودہ حالات پر منطبق کروں تو میرا خواب تو وہی ہے جو محترمہ عثمانی صاحبہ نے بیان کیا لیکن لمحہ موجود کی متحجر حقیقتوں سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ جناح کے خواب میں جینے والے ہم ایسے عاشقان وطن کے لیے یہ تسلی ہی کافی ہے کہ تاریخ کے جبر اور معیشت کی منطق سے کسی کو مفر نہیں۔ محرومی، پسماندگی اور ناانصافی اہل پاکستان کا مقدر نہیں۔ ہم جناح کے خواب تک ضرور پہنچیں گے لیکن اس منزل کے سفر میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ