حمزہ کی بجائے مریم کیوں؟ … تحریر : سہیل وڑائچ


نون لیگ کی طرف سے حمزہ شہباز کی بجائے مریم نواز شریف کی پنجاب کی وزارت ِاعلی کیلئے نامزدگی پر مجھے بالکل حیرت نہیں ہوئی۔ میں نے ان کالموں میں بہت پہلے ہی اس فیصلے کے بارے میں انکشاف کردیا تھا اب جبکہ فیصلہ ہوگیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا پس منظر جانا جائے۔ 2013 کے الیکشن سے پہلے میں نے اور حامد میر نے جاتی عمرا میں نواز شریف کا جیوٹی وی کیلئے ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا ،اس انٹرویو میں اور باتوں کے علاوہ یہ سوال بھی تھا کہ آپ کا سیاسی جانشین کون ہوگا؟ اس وقت نواز شریف نے بلاتامل جواب دیا تھا، حمزہ شہباز شریف۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس ڈرائنگ روم میں یہ انٹرویو ہو رہا تھا اسی کی ایک سائیڈ پر حسین نواز بھی تشریف فرما تھے۔ ان کے سامنے ہی یہ انٹرویو ریکارڈ ہوا۔اس زمانے میں مریم کے سیاسی خیالات تو سب کے علم میں تھے مگر وہ سیاست میں متحرک نہیں تھیں۔تاہم وہ 2018 تک یعنی نواز شریف کے تیسرے اقتدار تک والد کے دل میں اتنی جگہ بنا چکی تھیں کہ والد کاسیاسی چہرہ اور جانشین بننے کی امیدوار بن گئیں۔

2013 سے لے کر 2018 کے پانچ سال میں کیا ہوا کہ مریم نواز شریف حمزہ شہباز شریف سے آگے نکل گئیں۔ نونی ذرائع بتاتے ہیں کہ جدہ میں قیام کے دوران نواز شریف کا معمول بن گیا تھا کہ وہ رات کے کھانے کے بعد رات گئے تک بیگم کلثوم نواز اور مریم کے ساتھ چار پانچ گھنٹے سیاسی اور غیر سیاسی گفتگو کیا کرتے تھے۔ شریف خاندان میں بالعموم اور مریم نواز شریف کی بالخصوص یہ رائے ہے کہ بیگم کلثوم بہت ہی عقل مند تھیں ،مختلف شخصیات اور واقعات کے بارے میں ان کا تجزیہ ہمیشہ صحیح ثابت ہوتا تھا۔ چودھری نثار علی ہوں یا وفاداریاں تبدیل کرنے والے دوسرے لوگ ،ان کے بارے میں بیگم کلثوم کی رائے پہلے سے ہی اچھی نہیں تھی۔اتفاق فیملی کے کئی لوگ بیگم کلثوم کو زیادہ پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ بیگم کلثوم نے اپنے کسی بچے کی شادی اتفاق فیملی میں نہیں ہونے دی۔ اس رائے سے قطع نظر سب اہل خاندان بیگم کلثوم کی دانشمندی کو تسلیم کرتے تھے ،یہی وہ دانش مندی تھی جس کی وجہ سے شریف خاندان کے سربراہ میاں شریف نے بیگم کلثوم کوسیاسی میدان میں اتاراا ور وہ میاں شریف کی توقع کے عین مطابق نواز شریف سمیت سارے خاندان کو جیلوں سے نکال کر جدہ لے جانے میں کامیاب ہوگئیں۔ اتفاق فیملی کے لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ زندگی کے آخری برسوں میں بیگم کلثوم کا اپنے بابو جی یعنی میاں نواز شریف پر اثر بہت بڑھ گیا تھا۔ پانامہ مقدمہ کے زمانے میں نواز شریف کے زیادہ تر مشورے بیگم کلثوم اور مریم نواز سے ہوتے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب حمزہ سے دوری اور مریم سے سیاسی قربت شروع ہوئی۔ مقتدرہ سے لڑائی شروع ہوئی تو مریم نواز والد کیساتھ ڈٹ کر کھڑی ہوگئیں جبکہ حمزہ کا نقطہ نظر اپنے والد شہبازشریف کے زیادہ قریب تھا اور وہ یہ تھا کہ مقتدرہ سے لڑائی سے ہمیں نقصان ہوگا، اس زمانے میں نوازشریف اور شہباز کی رائے میں اختلاف تھا۔نواز خاندان کو یہ بھی احساس تھا کہ پانامہ مقدمے کا انہوں نے یک و تنہا مقابلہ کیا شہباز شریف اور حمزہ کو جتنا متحرک ہو کر نواز کے خلاف حملوں کا جواب دینا چاہیے تھا وہ انہوں نے نہیں دیا۔ شہباز شریف نے اپنی کامل وفاداری اوربھائی کیلئے مسلسل جد وجہد سے اس خلا کوپر کرلیا جو دونوں کے درمیان پیدا ہوا تھا، حمزہ ایسا نہ کرسکے، اسی لئے نواز شریف کی ترجیح مریم بن گئیں۔

حمزہ شہباز شریف کے انداز و اطوار اپنے تایا نواز شریف سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ دونوں رومانیت پسند ہیں، دونوں کی موسیقی میں گہری دلچسپی ہے، دونوں گانے کا شغف بھی رکھتے ہیں۔ شہباز شریف خاندانی محفل میں گانے سناتے ہیں، حمزہ میں بھی نواز شریف کی طرح سیاسی سمجھ بوجھ ہے، نواز شریف کے بعد لاہور اور پنجاب کی نونی سیاست کو حمزہ نے ہی سنبھالا ہوا تھا،نواز شریف تو کئی سال سے بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں، یہ حمزہ ہی تھا جو لاہور اور پنجاب کی سیاست کو دیکھتا تھا ہر ضمنی انتخاب کا انچارج بھی حمزہ ہو تا تھا۔ 2018کے لاہور کے ٹکٹ بھی حمزہ کی مرضی کے مطابق بانٹے گئے تھے، اس بار اکثر ٹکٹ بانٹنے میں حمزہ کی مرضی نہیں لی گئی اور حمزہ کے قریبی حلقے کے ماجد ظہور، عمران گورائیہ،توصیف شاہ اور کبیر تاج میں سے کسی کو ٹکٹ نہیں ملا۔ حمزہ وزیر اعلی بنا تو چند دن ہی حکومت چلی، اس کو بھی اوپر سے ہدایات زیادہ ملتی تھیں اور اس کو خود آزادی سے کام کرنے کا موقع کم ہی ملتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بطوروزیر اعلی حمزہ کوئی بہت گہرا تاثر نہ چھوڑسکا اور طرہ یہ ہوا کہ اسی زمانے میں نون لیگ کے 15 امیدوار ضمنی انتخابات میں ہار گئے۔ وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن اس شکست نے بھی حمزہ کے کیرئیر پر اثر ڈالا۔

دوسری طرف مریم نواز شریف عملیت پسند ہیں، AMBITIOUS ہیں، والد سے سیکھتی ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر والد سے مشورہ کرتی ہیں، ہر روز چار سے پانچ گھنٹے والد کے ساتھ گزارتی ہیں، اپنے والد کے کھانے کا منیو بھی وہی بناتی ہیں۔ اپنی والد ہ کی طرح انہیں بھی علم ہے کہ نواز شریف سے کس طرح بات کرنی ہے اور ان سے بات کیسے منوانی ہے۔ وہ ان کی برابر والی کرسی پر بھی بیٹھیں تو والد سے آنکھوں ہی آنکھوں میں پہلے اجازت طلب کرتی ہیں۔ مریم نواز صاحبہ نے کئی ماہ پہلے ایک ملاقات میں اپنے وزیر اعلی بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، میں نے جوابا کہا آپ کا گورننس کا تجربہ نہیں ہے جس پر انہوں نے ترت جواب دیا کہ نواز شریف کی وزارتِ عظمی کے آخری دور میں وہ ہر فیصلے میں شریک تھیں اس سے بڑی گورننس کیا ہوسکتی ہے۔

وزارت اعلی پنجاب مریم نواز کیلئے پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کاہار ثابت ہو سکتا ہے ۔ ایک طرف تو انہیں اپنے والد اور چچا کے ترقیاتی ماڈل کا مقابلہ کرناہو گا دوسری طرف نگران وزیر اعلی محسن نقوی نے سپیڈ کے جو ریکارڈ قائم کئے ہیں، ان سے تقابل کرنا ہوگا اور ان کا تیسرا چیلنج پنجاب کی مڈل اور اربن کلاس کو ، جو روایتی طور پر نون کی ووٹر تھی لیکن اب پی ٹی آئی کی حامی ہو چکی ہے، واپس نون کی طرف لانا ہوگا۔ نواز شریف نے سوچ سمجھ کر مریم کو وزیراعلی بنانے کا فیصلہ کیا ہے، انہیں علم ہے کہ ان کی پارٹی کی مضبوط بنیاد پنجاب میں ہے وہ مریم کے پیچھے بیٹھ کر پنجاب کو دوبارہ سیاسی طور پر فتح کرنا چاہتے ہیں۔ مریم نواز پہلی خاتون ہیں جوپنجاب کی وزیر اعلی بنی ہیں۔ شریف خاندان کنزرویٹو روایات کا حامل ہے اب بھی مغرب کے بعد گھرسے باہر رہنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اگر کوئی شام کے بعد گھرسے باہر ہو تو نواز شریف خود بار بار فون کرکے اسے کہتے ہیں جلدی گھر آؤ۔ ایسے ماحول میں پلی بڑھی مریم کو مردوں کے معاشرے میں کام کرنے میں کئی دشواریوں کا سامنا کرنا ہوگا، وہ بڑی ذہین اور جلدی سیکھنے والی ہیں لیکن پھربھی انہیں کامیابیاں حاصل کرنے کیلئے مسلسل جدوجہد کرنا ہوگی۔ ان کے چچا صبح چھ بجے کام شروع کردیتے تھے، کیا مریم صبح آٹھ بجے چیف منسٹر آفس پہنچا کریں گی۔ وزارت ِاعلی اعزاز تو ہے مگر اتنا ہی سخت امتحان بھی۔ مریم اس امتحان سے گزر کر ہی قومی لیڈر بن سکتی ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ