چین اک پل نہیں والا مصرعہ ذہن میں رات سے گونجے چلاجارہا ہے۔ بنیادی وجہ اس کی مولانا فضل الرحمن کی پریس کانفرنس تھی۔ عرصہ ہوا ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کے مزاج سے تھوڑی آشنائی کا مگردعوے دار ہوں۔ موصوف بہت تولنے کے بعد ایک ایک لفظ ادا کرتے ہیں۔ بدھ کی سہ پہر ہوئی پریس کانفرنس سے قبل انہوں نے اپنی جماعت کے سرکردہ رہ نماؤں کے ساتھ ایک نہیں پورے دو دنوں تک طویل صلاح ومشاورت سے اپنی رائے بنانے کی کوشش کی۔طویل مشاورت کے بعد وہ بھی (بھی کے لفظ کو خطِ کشیدہ کے ساتھ پڑھنا ہوگا) یہ کہہ رہے ہیں کہ 8فروری کے انتخابات کے دوران وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ بھی کے لفظ پر میں زور دے رہا ہوں کیونکہ مولانا کی پریس کانفرنس سے قبل فقط عمران خان کی بنائی تحریک انصاف ہی یہ دہائی مچارہی تھی کہ ریاست پاکستان کے تقریبا تمام اداروں نے ہر جائز وناجائز حربہ اختیار کرتے ہوئے اس کے حمایت کردہ امیدواروں کو واضح اکثریت کے ساتھ کامیاب ہونے نہیں دیا۔ نتائج توقعات کے برعکس نمودار ہونا شروع ہوگئے تو مبینہ طورپر جھرلو استعمال کرنے کا منصوبہ بنا۔ نام نہاد فارم-45 پر بے پناہ حلقوں سے آئے نتائج کو یکسرنظرانداز کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حمایت سے جیتے شخص کے بجائے دوسرے یا تیسرے نمبر پر آئے امیدوار کی فتح کا اعلان کردیا گیا۔
یاد رہے کہ دھاندلی کا واویلا مچانے کے باوجود تحریک انصاف اس امر کی نفی نہیں کرتی کہ خیبرپختونخواہ میں اس کی حمایت اتنی تگڑی اور گہری تھی کہ ریاستی قوت کو اس کے آگے سرنگوں ہونا پڑا۔ اس صوبے میں آئے نتائج کو آخری لمحات میں تبدیل کرنے کی کوشش نہیں ہوئی۔ اسی باعث تحریک انصاف خیبرپختونخواہ میں صوبائی حکومت تشکیل دینے کو آما دہ نظر آئی۔ علی امین گنڈاپور کو عمران خان نے وزارت اعلی کے عہدے کیلئے نامزد بھی کردیا ہے۔
وفاق میں اس کے برعکس 90کے قریب امیدواروں کی فتح کے باوجود تحریک انصاف وزارت عظمی کے حصول میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آرہی۔ حکومت سازی کے برعکس فی ا لوقت اس کی ترجیح عدا لتوں کے ذریعے اپنی چھینی ہوئی نشستوں کو واگزار کروانا ہے۔ تحریک انصاف کے فیصلہ سازوں کا خیال ہے کہ شورشرابے کے ساتھ عدالتوں میں فریادوں کی بدولت وہ اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی تعداد میں کم از کم مزید 20افراد کا اضافہ کرسکتے ہیں۔سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جب تک مطلوبہ ہدف حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک تحریک انصاف کیا حکمت عملی اپنائے گی۔
نظر بظاہر وفاق میں حکومت سازی پر توجہ دینے کے بجائے تحریک انصاف دھاندلی کا بیانیہ پھیلانے پر توجہ مرکز رکھنا چاہتی ہے۔دریں اثنا اس خواہش کو عملی صورت دینے کی کوشش بھی ہوگی کہ مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ کوئی ایسا بندوبست تشکیل پائے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملے اجتماعی ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں خواتین اور اقلیتوں کے لئے مختص زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کی جاسکیں۔ ایسا نہ ہوا تو قومی اسمبلی کا اجلاس جس روز طلب ہو اس دن تحریک انصاف کے منتخب اراکین ایوان میں جاکر حلف اٹھانے کے بجائے ریڈزون پہنچ کر دھاندلی کے خلاف دھرنا نما فضا بناسکتے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے منتخب اراکین ایک بڑے ہجوم کے ہمراہ ریڈ زون آئیں۔ان کے اراکین قومی اسمبلی کی عمارت میں حلف لینے داخل ہوجائیں۔ قومی اسمبلی کے گرد مگر ان کے حامی دھاندلی کے خلاف احتجاج برپا کریں اور یوں نئی قومی اسمبلی کی حلف برداری کے دن سے ایک بار پھر دھرنوں کا سلسلہ چل پڑے۔
وفاق میں جو ہونا ہے اسے فی الوقت بھلادیتے ہیں۔آج کے کالم میں توجہ اس سوال پر مبذول رکھنا ہوگی کہ مولانا فضل الرحمن بھی (اور میں ایک بار پھربھی پر زور دوں گا) اگر دھاندلی کا واویلا مچارہے ہیں تو اس کا حتمی نقصان کس جماعت کو ہوگا۔ میری عاجزانہ رائے میں اگر مولانا فضل الرحمن نہایت شدت سے چند ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ اپنے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ 8فروری کے انتخابات میں سنگین بدعنوانیاں ہوئیں تو اس کا سب سے زیا دہ نقصان تحریک انصاف کو ہوگا۔ وجہ اس کی یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کے بدترین مخالف بھی یہ تسلیم کئے بیٹھے ہیں کہ تحریک انصاف کو خیبرپختونخواہ کے عوام نے ا یک بار پھر بھاری اکثریت سے نوازا ہے۔ مذکورہ صوبے میں تحریک انصاف کی اصل حریف مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی تھی۔ وہ اگر دھاندلی کے الزامات ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی تو درحقیقت تحریک انصا ف کو خیبرپختونخواہ میں ملا مینڈیٹ بھی متنازع ہوجائے گا۔
اس پہلو پر میرے صحافی دوستوں نے توجہ نہیں دی ہے۔ یہ فرض کرلیا کہ مولانا پھٹ پڑے اور ان کی جانب سے لگائے دھاندلی کے الزامات درحقیقت مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں شامل ان کے دیرینہ دوستوں کی جانب سے حکومت سازی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کردیں گے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کیا جارہا ہے کہ دھاندلی کے الزامات فقط تحریک انصاف کی جانب ہی سے نہیں لگائے جارہے۔ مولانا نے دل کی بات زبان پر لانے میں دو دن لگائے ہیں۔ بلوچستان میں تقریبا ہر جماعت گزشتہ پانچ دنوں سے دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے اس صوبے کی مرکزی شاہراہوں کو بند رکھے ہوئے ہیں۔خیبرپختونخواہ میں اب فقط مولانا فضل ا لرحمن ہی نہیں بلکہ قوم پرست ایمل ولی خان اور محسن داوڑ کی جماعتیں بھی دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ایسے حالات میں میرے لئے یہ سوچنا ممکن نہیں کہ وفاق نہ سہی، تحریک انصاف کم از کم خیبرپختونخواہ میں صوبائی حکومت تشکیل دینے کے بعد ذرا مطمئن ہوجائے گی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت