میں نے گرم چائے کا ایک جرعہ لیا اور اپنی تاریخ کے سب سے بڑے اور منفرد اِنتخابات کے نتائج پر کالم لکھنے بیٹھ گیا۔ 1960 میں جب میں نے صحافت کے پیشے میں قدم رکھا، تو میرے اساتذہ نے یہ بات ذہن نشین کرا دِی تھی کہ صحافت دراصل شہادتِ حق کا دوسرا نام ہے، مگر آج کی مصنوعی ذہانت میں سچ تک پہنچنا محال ہو گیا ہے۔2024 کے انتخابات بھی تمام تر کوششوں، دعووں اور حفاظتی تدابیر کے باوجود متنازع ہو گئے ہیں اور کچھ اِس انداز سے ہوئے ہیں کہ ہارنے والے بھی شاکی ہیں اور جیتنے والے بھی اپنی نشستوں سے دستبردار ہو رہے ہیں۔ اِس ایجاد کا سہرا جناب حافظ نعیم الرحمن کو جاتا ہے جو جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست حاصل کرنے میں کامیاب رہے، مگر انہوں نے یہ بیمثل موقف اختیار کیا کہ حقیقت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے آزاد امیدوار نے مجھ سے زیادہ ووٹ لیے ہیں، اِس لیے میں اپنی نشست سے دستبردار ہوتا ہوں۔ جے ڈی اے بھی دو نشستوں سے دستبردار ہو گئی ہے۔ اِس اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں 2024 کے انتخابات میں بڑی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں، وہاں قابلِ رشک روایات کا چمن بھی کِھل اٹھا ہے۔
یہ روایت بھی پہلی بار قائم ہوئی ہے کہ مختلف جماعتوں کی قیادت انتخابات میں ناکامی پر اپنے عہدوں سے مستعفی ہو گئی ہے۔ استحکامِ پاکستان پارٹی کے صدر جناب جہانگیر ترین، جماعتِ اسلامی کے امیر جناب سراج الحق اپنی جماعت کو اِنتخابی کامیابی دلانے میں ناکام رہنے پر مستعفی ہو گئے ہیں اور اے این پی کے حیدر ہوتی نے بھی یہی راہ اختیار کی ۔ جناب پرویز خٹک کا بھی اِسی طرح کا بیان آیا ہے۔ یہ حیرت انگیز اقدامات 2024 کے انتخابات کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ہیں اور یہ امید بندھی ہے کہ سیاسی ذمے داری کا جوہر مزید صیقل ہو گا۔
یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا ہے اور انہیں ہر صوبے سے ووٹ ملے ہیں۔ فافن (FAFEN) رپورٹ میں قومی اسمبلی کی 235 نشستوں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ تحریکِ انصاف نے حالیہ انتخابات میں16.85ملین ووٹ حاصل کیے ہیں۔ مسلم لیگ نون کے حصے میں 13.3 ملین ووٹ آئے جبکہ 2018 کے انتخابات میں اِس کے ووٹ 12.9 ملین تھے۔ اِسی طرح پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک6.9 ملین سے7.6ملین تک پہنچ گیا ہے۔ تحریکِ لبیک پاکستان کا ووٹ بینک دو اِنتخابات کے دوران 2.1ملین سے 2.6لین کو چھو گیا ہے۔ اِس بار ووٹر ٹرن آوٹ 48.2فیصد رہا جو اِنتخابی معاملات میں عوام کی دلچسپی کا ایک خوش گوار اِظہار ہے۔
2024 کے انتخابات کا یہ پہلو بھی نہایت خوش آئند ہے کہ خواتین پہلے کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے بڑی تعداد میں نکلی ہیں اور انہوں نے انتخابات میں براہِ راست بھی حصہ لیا ہے۔ سب سے زیادہ اِطمینان بخش امر یہ ہے کہ دہشت گردی اور تشدد کے واقعات کے باوجود اِنتخابات پرامن ماحول میں ہوئے اور ووٹروں کو اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق مبصرین کو ووٹ ڈالنے کا عمل دیکھنے کیلئے اچھی سہولتیں مہیا کی گئی تھیں۔ امن و امان قائم رکھنے کیلئے چھ لاکھ تربیت یافتہ افراد پولنگ اسٹیشنوں پر تعینات تھے، مگر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ 2017 میں پارلیمنٹ نے جو اِنتخابی ایکٹ منظور کیا تھا، اِس کے باوجود 2024 کے انتخابات اپنی شفافیت اور اِعتبار کیوں کھو بیٹھے ہیں اور ان کے خلاف احتجاجی تحریکیں کیوں منظم ہو رہی ہیں۔
2018 اور 2024 کے انتخابات کے تفصیلی جائزے سے یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ انتخابات کے انعقاد اور اِنتظامات کی فیصلہ سازی تھرڈ فورس کے ہاتھ میںچلی گئی ہے۔ اِسی فورس نے 2018 کے انتخابات میں میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کو اِقتدار سے باہر کیا اور اب وہی فورس انتہائی جابرانہ اور غیرحکیمانہ طریقوں سے عمران خاں کو ان گنت مشکلات کی زنجیروں میں جکڑ دینا چاہتی ہے۔ بلاشبہ خاں صاحب کی سیمابی طبیعت اور ان کے کھلنڈرانہ مزاج نے بھی ریاست، جمہوریت اور ان کی جماعت کے لیے بیانداز مسائل پیدا کر رکھے ہیں، لیکن کاروبارِ حکومت کے ماہرین کو حالات پہ قابو پانے کیلئے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دینا چاہیے تھا۔ آج حالات یہ ہیں کہ انتخابات کے نتائج حددرجہ متنازع ہیں اور کوئی بھی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اِس عالمِ بے یقینی میں ہماری معیشت سرنگوں ہے اور ہماری خودمختاری بری طرح خطرے میں ہے۔ اگر فوری طور پر ڈھلوان کی طرف تیزرفتار سفر کی روک تھام نہ کی گئی، تو کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کچھ باقی نہ رہے گا۔
اِس وقت قوم کی پکار یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اصل خطرے کا احساس کریں اور صلح جوئی اور مصالحت کا اصول اپنائیں۔ وقت ضائع کیے بغیر مصالحت کی ایک اعلی سطحی کمیٹی قائم کی جائے جس میں غلطیوں کے اعتراف کے ساتھ ساتھ عفو و درگزر کو ترجیح دی جائے۔ آپس میں مل بیٹھنے سے غلطیوں کا احساس بھی دلایا جا سکتا ہے اور یگانگت سے اصلاح کا کام بھی کیا جا سکتاہے۔ سب سے بڑی ضرورت تھرڈ فورس کو حدود میں رکھنے کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی برہمی اِس کی مداخلت کے خلاف ہے۔ اِسے عملی طور پر ثابت کرنا ہو گا کہ وہ سیاسی بندوبست سے پوری طرح کنارہ کش ہو گئی ہے۔ سیاسی قوتیں یکجا ہوں گی، تو غیرسیاسی طاقتیں یقینا اپنی حدود میں رہیں گی۔ ہماری سیاسی قیادتوں کو اِس امر کی کوشش کرنی چاہیے کہ تحریکِ انصاف کے آزاد ارکان جلد سے جلد سیاسی ڈسپلن میں آ جائیں اور وہ فعال پارلیمانی کردار کامل آزادی سے ادا کریں۔ مناسب یہ ہو گا کہ تحریکِ انصاف ایک ہفتے کے اندر اِنٹراپارٹی انتخابات منعقد کرے اور اِلیکشن کمیشن ان کا انتخابی نشان بلا واپس کرے۔ اِسی طرح انتخابی عذرداریوں کا ازالہ جلد سے جلد ہونا چاہیے۔ الیکشن کمیشن اور اعلی عدالتیں دن رات کام کریں۔ نیک نیت سے اٹھائے ہوئے اِن اقدامات سے ایک سازگار ماحول پیدا ہو سکتا ہے جس میں اہم سیاسی جماعتوں کے تعاون سے ایک پائیدار حکومت وجود میں آ سکتی ہے۔ سب سے امید افزا بات یہ ہے کہ بیشتر جماعتیں قوم کی پکار پر کان دھر رہی ہیں اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے میں پرجوش ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ