گنڈا پور جیسی توپ : تحریر جاوید چوہدری


ہم تھوڑی دیر کے لیے جنوری 2022 میں واپس چلے جاتے ہیں عمران خان اس وقت وزیراعظم تھے قومی اسمبلی میں ان کی 125نشستیں تھیں اور یہ سینیٹ میں 24ارکان کے ساتھ پہلے نمبر پر تھے پنجاب کے پی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومتیں تھیں فوج ان کے پیچھے کھڑی تھی میاں نواز شریف لندن میں بیٹھے تھے پی ٹی آئی کے کارکن ان کے فلیٹ کے نیچے کھڑے ہو کرانھیں روزانہ گالیاں دیتے تھے اور یہ باہر نکلنے کے قابل نہیں تھے میاں شہباز شریف حمزہ شہباز سلیمان شہباز اور مریم نواز مقدمے بھگت رہے تھے۔

ن لیگ کی باقی قیادت بھی ایک عدالت سے دوسری میں دھکے کھا رہی تھی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بھی مقدموں کے ساتھ کراچی میں بیٹھے تھے پی ڈی ایم ٹوٹ چکی تھی مولانا فضل الرحمن ڈیرہ اسماعیل خان تک محدود تھے پاکستان کی اکانومی قدرے مضبوط تھی مالیاتی ذخائر17بلین ڈالر تھے ڈالر کی ویلیو176روپے تھی ایکسپورٹس 30 بلین ڈالر سے زیادہ تھیں اور اسٹاک ایکسچینج 45 ہزار 5 سوپوائنٹس تھی لیکن پھر تحریک عدم اعتماد آ گئی اتحادی جماعتیں حکومت کا ساتھ چھوڑ گئیں اور پی ٹی آئی کے 22 ارکان نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کر دیا۔

عمران خان کے پاس اس وقت دو راستے تھے یہ باعزت طریقے سے مستعفی ہو جاتے یا مردوں کی طرح عدم اعتماد کا سامنا کرتے اور اس کے بعد اپوزیشن میں بیٹھ جاتے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں ان کی اکثریت تھی چناں چہ نئی حکومت ایک بھی بل پاس نہ کرا سکتی دو صوبوں اور کشمیر اور گلگت بلتستان میں ان کی حکومتیں تھیں حکومت وہاں بھی بے بس ہو جاتی پی ڈی ایم مختلف مفادات کی پارٹیوں کا مربہ تھی یہ لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ عرصے نہیں چل سکتے تھے اور یوں دو تین ماہ میں عمران خان دوبارہ وزیراعظم بن جاتے یا پھر حکومت مکمل فیل ہو کر نئے الیکشن کرانے پر مجبور ہو جاتی اور اس کے نتیجے میں بھی عمران خان دوبارہ وزیراعظم ہوجاتے لیکن خان صاحب نے سیدھے اور آسان راستے کی بجائے مشکل اور ناقابل قبول راستہ پسند کر لیا۔

انھوں نے قومی اسمبلی سے استعفی دے کر دشمن کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا اورپی ڈی ایم حکومت نے ایسے ایسے قانون بنا دیے جن کے نتیجے میں عمران خان سڑکوں پر آتے چلے گئے اور اس اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراتے چلے گئے جو انھیں اقتدار میں بھی لے کر آئی تھی اور ان کی سب سے بڑی سپورٹ بھی تھی خان نے پھر پنجاب اور کے پی حکومتیں بھی توڑ دیں اور آخر میں نو مئی بھی کر دیا اور اس کھیل میں پی ڈی ایم تگڑی ہوتی چلی گئی اور عمران خان اور ان کی پارٹی مشکلات میں پھنستی چلی گئی یوں یہ خود بھی جیل پہنچ گئے اور ان کے ساتھی بھی اور جو باہر رہ گئے ان میں سے 90 فیصد اسٹیبلشمنٹ کے ایجنٹ ہیں اور یہ اب پارٹی کو مزید نقصان پہنچانا چاہ رہے ہیں۔

اس جنگ میں پارٹی اور عمران خان کے ساتھ ساتھ ملک کا بیڑا بھی غرق ہو گیا ڈالر 300روپے پرپہنچ گیااسٹاک ایکسچینج کریش کر گئی مالیاتی ذخائر سرخ لکیر تک پہنچ گئے انڈسٹری بند ہو گئی ملک بے روزگاری کساد بازاری اور مہنگائی کی دلدل میں دھنس گیااور آئی ایم ایف پاکستان کا باس بن گیا۔

عمران خان آج 2024 کے الیکشنز میں دوبارہ بڑی فورس بن کر ابھر آئے ہیں یہ ایک سچ ہے اور اس سے انکار ملک عوام اور جمہوریت تینوں کی توہین ہو گی لیکن اس سے بھی بڑا سچ یہ ہے عمران خان کی تمام تر مقبولیت کے باوجود قومی اسمبلی میں صرف 92سیٹیں ہیں اور یہ کے پی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں لہذا اگر فروری 2024کا فروری 2022 سے تقابل کیا جائے تو عمران خان گین کرنے کی بجائے لوزکرتے نظر آئیں گے قومی اسمبلی میں 2022 میں ان کی 125 سیٹیں تھیں اور یہ دو صوبوں اور دو یونٹس میں حکومت کر رہے تھے۔

یہ بنی گالا اور زمان پارک میں بیٹھے تھے اور وہ پولیس جو آج ان کو دھکے دے رہی ہے وہ ان کی حفاظت اور سیلوٹ کرتی تھی لہذا اگر عمران خان نے یہیں آنا تھا تو پھر اتنی طویل جدوجہد اور ذلالت کی کیا ضرورت تھی؟ آپ 2022 میں چپ چاپ اپوزیشن میں بیٹھ جاتے اور آج آپ اور آپ کی پارٹی بھی سلامت ہوتی اور آپ کو جیلیں اور مقدمے بھی نہ بھگتنا پڑتے آج اسٹیبلشمنٹ بھی آپ کے خلاف نہ ہوتی اور آپ کے ساتھیوں کو مقدمے اور ماریں بھی نہ سہنا پڑتیں لہذا سوال یہ ہے آپ کو اس سارے کھیل کا عملی طور پر کیا فائدہ ہوا؟ کیا خوف کی زنجیریں ٹوٹ گئیں۔

کیا حقیقی آزادی مل گئی اور کیا ہم غلامی سے نکل آئے؟ آپ اگر دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیںگے تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے معاشرے میں خوف بھی ہزار گنا بڑھ گیا ہے اور ملک بھی آئی ایم ایف کی غلامی میں چلا گیا ہے اور سول اتھارٹی کی جو تھوڑی بہت سپیس تھی وہ بھی ختم ہو گئی ہے اور عمران خان کو بھی بالآخر ایک بار پھر اسی نظام پر اعتبار کرنا پڑا جسے یہ ٹھڈا مار کر نکلے تھیدوسرا سوال آپ کو اگر اس نظام پر یقین نہیں تھا تو پھر آپ الیکشن نہ لڑتے آپ لے آتے عوامی انقلاب اور توڑ دیتے خوف اور ظلم کی زنجیریں آپ عدالتوں جیلوں اور الیکشن کمیشن کو بھی نہ مانتے اور بنا لیتے ریاست مدینہ لیکن حقیقت تو یہ ہے طویل ترین خواری ذلالت اور رگڑے کے بعد بھی آپ کو اسی سسٹم میں واپس آنا پڑاجسے آپ چھوڑ کر گئے تھے اور آپ کو سارے کیک کی بجائے صرف ایک پیسٹری پر اکتفا کرنا پڑا چناں چہ پھر آپ نے بنیان الٹی کر کے جوں کو کتنا تھکا لیا آپ نے کون سا پہاڑ توڑ لیا؟ کیا ان سوالوں کا جواب ہے کسی کے پاس؟ عمران خان کے پاس اب بھی دو آپشن موجود ہیں یہ کھلے دل کے ساتھ نظام کو تسلیم کر لیں۔

اپوزیشن میں بیٹھ جائیں یا پھر کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنا لیں اور سڑکوں کی بجائے پرفارمنس کو اپنی طاقت بنائیں سسٹم اور پرفارمنس ہی سیاست کی اصل جان ہیں موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ بھی نہیں اور دوسرا یہ ایک اور 9مئی فرما لیں اور اس کے بعد یہ اسی طرح جیل میں بیٹھے رہیں کارکن سڑکوں پر خوار ہوتے رہیں پارٹی کے لیڈر غاروں میں چھپے رہیں اور ملک ڈیفالٹ کر جائے لیکن سوال یہ ہے اگریہ ہو گیا تو کیا عمران خان بھارت میں جا کر حکومت بنائیں گے جب گھوڑا ہی نہیں رہے گا تو سوار کس پر سواری کرے گا جب کشتی ہی نہیں ہو گی تو مسافر کہاں جائیں گے اور ہم اگر فرض کر لیں عمران خان کی یہ سیاست کام یاب ہو جاتی ہے۔

یہ زبردستی اقتدار پر قابض ہو جاتے ہیں توسوال یہ ہے کیا یہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کے ساتھ حکومت چلا سکیں گے اور کیا یہ آئی ایم ایف امریکا چین اور عرب ملکوں سے مذاکرات کر سکیں گے ملک کی حالت یہ ہے اگر ہمیں پٹرول نہ ملے تو پندرہ دنوں میں پورا ملک بیٹھ جائے گا جہاز گاڑیاں اور کارخانے بھی بند ہو جائیں گے اور بجلی پانی موبائل فون اور انٹرنیٹ بھی دوسرا عوام نے اگر آپ کو ووٹ دیے ہیں تو انھوں نے ن لیگ پیپلز پارٹی جے یو آئی ایم کیو ایم آئی پی پی اور ق لیگ کو بھی مینڈیٹ دیا ہے کیا آپ کے ووٹ پاک اور ان کے ناپاک ہیں۔

آپ اگر اپنا مینڈیٹ مان رہے ہیں تو ان کا مینڈیٹ تسلیم کیوں نہیں کررہے؟ کیا ان کے ووٹرز انڈیا سے آئے تھے اور دوسرا آپ کو کس نے بتا دیا جب تک آپ ہیں عوام اس وقت تک کسی دوسرے کو پسند نہیں کر سکتے اور ان کا خدا کوئی اور ہے اور آپ کا خدا کوئی اور؟ کیا یہ بات عجیب نہیں آپ کے پی میں رزلٹ مان رہے ہیں لیکن اسی الیکشن اور اسی الیکشن کمیشن کے پنجاب اور وفاق کے رزلٹ کو تسلیم نہیں کر رہے۔

آپ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت کو نہیں مانتے مگر ان کے ٹرینڈ پرویز الہی اور شاہ محمود قریشی آپ کے وائس چیئرمین اور صدر ہیں اور آج بھی آپ کی آدھی پارٹی ان چور پارٹیوں کے لوگوں پر مشتمل ہے چناں چہ آپ کے پاس اب صرف ایک ہی آپشن ہے آپ سسٹم کو مان لیں اور اندر سے تبدیلی لے کر آئیں ورنہ آپ اسی طرح سڑکوں پر بیٹھے رہیں اور اپنی اور ملک کی مزید مت مار لیں۔

میرا خیال ہے عمران خان کو اب حالات کو سمجھنا چاہیے انھیں بھی اب ادراک ہو جانا چاہیییہ نفرت کا جھنڈا نیچے کریں کے پی میں حکومت بنائیں اورعلی امین گنڈا پور کی جگہ کوئی جیتا جاگتا پڑھا لکھا اورسمجھ دار شخص لے کر آئیں جو عوام کا مقدر بھی تبدیل کرے اور آپ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بھی بہتر بنا دے آپ اگر اس بار بھی وہاں کوئی عثمان بزدار پلس لے آئے تو ملک کا مزید بیڑا غرق ہو جائے گا اور آپ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں بھی بڑھ جائیں گی۔

دوسرا اگر آپ نے حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا تو آپ اپنے 92 ارکان سے بھی جائیں گے ان میں سے 50 لوگ کم زور ہیںیہ اب تک پارٹی میں اس لیے بیٹھے ہیں کہ ریاست عمران خان کو سسٹم میں حصہ دے کر انگیج کرنا چاہتی ہے پی ٹی آئی کو اس موقعے کافائدہ اٹھانا چاہیے اگر یہ موقع بھی ضایع ہو گیا تو پھر انھیں 2028 کا انتظار کرنا ہو گا اور اس وقت تک پل رہیں گے اور نہ ان کے نیچے پانی چناں چہ مہربانی کریں گنڈاپور جیسی توپ واپس توپ خانے میں رکھیں اور سسٹم میں آئیں آپ اور ملک کی بقا اسی میں ہے ورنہ آپ کے حصے کچھ نہیں آئے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس