جمہوریت ایک مسلسل امتحان ہے : تحریر وجاہت مسعود


عام انتخابات کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ درپیش ہے۔ حسب توقع 8 فروری کو ایک منقسم قوم کا منقسم مینڈیٹ سامنے آیا ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو واضح اکثریت ملی ہے۔ پنجاب میں گھمسان کا رن پڑا ہے۔ مسلم لیگ نواز سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر ابھری ہے لیکن نواز شریف کے بیشتر قریبی رفقا شکست کھا گئے ہیں۔ رانا ثنااللہ، سعد رفیق، خرم دستگیر، جاوید لطیف اور شیخ روحیل اصغر کی شکست سیاسی بساط پر میاں نواز شریف کے لیے ان کہا پیغام لائی ہے۔ بلوچستان کے نتائج حسب معمول شخصی رسوخ، وفاق میں اعتماد کے بحران اور نادیدہ دست کاری جیسے تاروں سے مرتب ہونے والی ایسی رنگین چادر ہے جو جسد جمہور کو موسموں کے سرد گرم سے محفوظ نہیں رکھ سکتی۔ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد میں کامیابی کو افغانستان کے معاملات سے الگ کرکے دیکھنا مشکل ہے۔ بلوچستان میں قابل ذکر نشستیں حاصل کرنے والی جمعیت علمائے اسلام پختونخوا میں شکست کھا گئی ہے۔ تحریک انصاف غیرعلانیہ طور پر طالبان کی بڑی تعداد کو پختونخوا میں واپس لائی تھی۔ حالیہ مہینوں میں اس صوبے میں دہشت گرد حملوں میں ہمارے جوانوں اور شہریوں کی بڑی تعداد شہید ہوئی ہے۔ پختونخوا کے انتخابی نتائج میں طالبان کے دست فتنہ انگیز کی کارفرمائی کا امکان باعث تعجب نہیں ہو گا۔ عمران خان نے متنازع اور عقاب صفت رہنما علی امین گنڈا پور کو وزارت اعلیٰ کے لیے نامزد کر کے ٹکراؤ کی سیاست کے تسلسل کا واضح اشارہ دیا ہے۔ عدم استحکام اورہنگامہ آرائی فسطائی سیاست کے آزمودہ آلات ہوتے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کی قانونی شناخت پر سوالات موجود ہیں۔ کیا پاکستان کی قومی سلامتی پختونخوا کی آتش فشاں کیفیت میں علی امین گنڈاپور کی وزارت اعلیٰ کی متحمل ہو سکتی ہے۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ نوازکے لیے اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود پیپلز پارٹی کی شرائط پر سمجھوتے سے مفر نہیں۔ پیپلز پارٹی نے وزارت عظمیٰ کے لیے مسلم لیگ کی حمایت کا اعلان کرنے کے باوجود کابینہ میں شریک نہ ہوتے ہوئے اہم آئینی عہدوں کا مطالبہ کیا ہے۔ گویا معاشی، آئینی اور سیاسی فیصلوں کا بوجھ مسلم لیگ کو اٹھانا پڑے گا اور پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات کے لیے کلیدی مناصب پر فائز ہو گی۔ اگلے ماہ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کے نئے قرض پر مذاکرات کرنا ہوں گے۔ اگر پیپلز پارٹی پارلیمانی روایات اور دستور کے دائرے میں اپنے جماعتی مفادات کا تحفظ کر سکتی ہے تو عالمی ساہوکاروں کو اپنے حصے کا پارچہ لحمی چھیننے سے کون روک سکے گا۔ گیس اور بجلی کی قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ بیرونی سرمایہ کاری کاامکا ن معدوم ہو جائے گا۔ صنعتی پیداوار کی بحالی مشکل ہو جائے گی۔ متوسط اور غریب طبقوں کی زندگی مزید اجیرن ہو گی۔ مقبولیت پسند سیاست کے لیے نعرے بازی کا میدان کھلا ہو گا۔ برادرم فیصل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’جمہوریت کو مسلسل امتحان سے گزرنا پڑتا ہے جب کہ فسطائیت پہلا موقع ملتے ہی مخالفت کا ہر راستہ بند کر دیتی ہے‘۔ یہ جمہوریت اور فسطائیت میں بنیادی تضاد ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے تاریخ کی طرف پلٹتے ہیں۔

اکتوبر 1922ء میں اٹلی کے فسطائی سیاست دان مسولینی نے دارالحکومت روم پر مارچ کرنے کا ناٹک رچایا۔ جھوٹے پروپیگنڈے اور پیوستہ مفادات کے گٹھ جوڑ سے مسولینی اقتدار پر قابض ہو گیا جس کے بعد اٹلی کو 29 اپریل 1945ء تک انتظار کرنا پڑا کہ مسولینی، اس کی محبوبہ اور قریبی ساتھیوں کی میلان کے چوراہے میں الٹی لٹکی لاشوں پر تھوک سکیں۔ 23 برس کی طویل آزمائش میں اٹلی کا بہترین دماغ گرامچی 1926ء میں گرفتار ہوا اور اپریل 1937ء کو قید ہی میں مر گیا۔ فسطائیت ناگزیر بربادی کی تمثیل ہے۔ اگلا منظر دیکھئے۔ پہلی عالمی جنگ میں شکست کے بعد جرمنی میں وائیمر ری پبلک ایک کمزور جمہوری تجربہ تھا۔ اس انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شعلہ بیان کارپورل ہٹلر نے حکومت پر قبضے کی سازش تیار کی۔ 8 نومبر 1923ء کو اپنے بیس مسلح ساتھیوں کے ساتھ ہٹلرمیونخ کی ایک جلسہ گاہ میں گھس گیا۔ سرکاری اہلکاروں کو یرغمال بنا لیا اور اعلان کیا کہ ’قومی انقلاب برپا ہو گیا ہے، باہر چھ سو قوم پرستوں نے گھیرا ڈال رکھا ہے۔ وطن دشمن چور لٹیروں کی حکومت ختم کر دی گئی ہے‘۔ ہٹلر کی یہ سازش اگلے روز بیس لاشوں پر ختم ہوئی۔ ٹھیک دس برس بعد ہٹلر ایک متنازع انتخابی مشق سے اقتدار میں آگیا اور جرمن قوم کو 30 اپریل 1945ء کو برلن کے بنکر میں ہٹلر کی خودکشی کا انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران عالمی جنگ میں چھ کروڑ جانوں کا تاوان دینا پڑا۔ میونخ کے بیئر ہال میں ہٹلر کے اعلان کی بازگشت ہم نے اپنے ملک میں 15 جنوری 2013ء کی رات اسلام آباد میں سنی جب کینیڈا سے آنے والے شعبدہ باز نے اسلام آباد پہنچ کر انگلی لہراتے ہوئے اعلان کیا کہ ’صدر، وزیراعظم اور کابینہ کو برطرف کر دیا گیا ہے۔ کرپٹ سیاسی حکومت ختم کر دی گئی ہے‘۔ یہ دھرنا چار روز بعد ختم ہو گیا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت دفن کر گیا۔ پھر 2014ء کا دھرنا سامنے آیا۔ چار حلقوں میں دھاندلی کے خودساختہ الزام کی سازش اپریل 2014ء میں عمران خان، طاہر القادری، ظہیر الاسلام اور چوہدری برادران نے لندن میں تیار کی تھی۔ 126 روزہ دھرنے سے مسلم لیگ نواز حکومت کی ساکھ مٹی میں مل گئی۔ ہر دو مواقع پر انتشار پسند سیاست دان اور ریاست کے نادیدہ عناصر میں گٹھ جوڑ تھا جو 2018ء میں تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی پر منتج ہوا۔ عمران خان مسولینی اور ہٹلر ہی کی طرح مستقل اقتدار چاہتے تھے۔ یہ سازش اکتوبر 2021ء میں شروع ہوئی اور 9 مئی 2023ء کو ملک بھر میں فوجی تنصیبات پر حملوں کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کی داخلی تقسیم ختم ہو چکی؟ کیا جمہوری قوتوں نے عمران خان کی فسطائی سیاست کا مقابلہ کرنے پر اتفاق رائے کر لیا ہے؟ یہ آج کے پاکستان کا امتحان ہے۔ اس کا حتمی اور سرکاری نتیجہ تب برآمد ہو گا جب قوم جمہوریت کے مسلسل امتحان کے لیے یکسو ہو جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ جنگ