8 فروری کے انتخابات میں عوام خصوصا نوجوانوں اور عورتوں کی اکثریت نے پی ٹی آئی کے حق میں رائے دی ہے۔ کمر توڑ مہنگائی (جو صرف نون لیگ کے کھاتے میں پڑ گئی) کے علاوہ بلاوجہ گرفتاریوں، غیرضروری سختیوں اور بے وقت سزاں نے ایک پارٹی کو مظلوم بنادیا اور اس کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا ہوئی۔
ایک دن پہلے تک مخالفین میدان میں نظر نہیں آتے تھے جس سے مسلم لیگ ن کے ورکروں نے الیکشن کو یکطرفہ سمجھ کر اسے سنجیدگی سے نہیں لیا اور ان میں جوش وخروش ہی پیدا نہ ہوسکا۔
اس کے علاوہ کچھ حلقوں میں غلط ٹکٹ، ن لیگ کی ہار کا سبب بنے۔ بہرحال اب عوام کا فیصلہ (صحیح ہو یا غلط) تسلیم کیا جانا چاہیے۔ میاں نواز شریف کو چاہیے کہ حکومت کا حصہ بننے کے بجائے ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کریں۔ پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا موقع ملنا چاہیے، اسی سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا جس سے معیشت کی بحالی کے امکان پیدا ہوں گے۔
پچھلے کالم کے موضوع پر بات کریں تو پی ٹی آئی کے حامی اور عمران خان کے چاہنے والے نوجوان مجھ سے پوچھتے ہیں کہ خان صاحب اپنی انتخابی تقریروں میں بھی اور ٹاک شوز میں بھی آپ کی تعریف کیا کرتے تھے، اس لیے آپ ان کے خلاف کیوں لکھتے ہیں؟ میرا مختصر اور دو ٹوک جواب ہے۔ ان کی دوعملی اور جھوٹ کی وجہ سے ۔ میری ذاتی تحسین سے زیادہ اہم میرا دین، میرا ملک اور انصاف اور قانون کی حکمرانی ہے۔
عمران خان باتیں اور تقریریں بہت اچھی کرتے رہے مگر عمل اور کام اس کے بالکل برعکس کرتے تھے۔ عوام کے جذبات سے کھیلنے اور مذہبی طبقے کو خوش کرنے کے لیے نبی کریمۖ اور ریاستِ مدینہ کا نام لیتے تھے مگر یہ تعلق صرف مذہبی ٹچ تک محدود تھا، اس میں اخلاص اور نیک نیتی نہیں تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جب انھیں اختیار ملا اور دینی اقدار کے فروغ کے لیے تعلیم اور میڈیا کی وزارتوں کو اہم کردار دینے کا وقت آیا تو انھوں نے یہ دونوں اہم ترین وزارتیں دین سے نابلد افراد کے سپرد کردیں۔ تعلیمی نصاب سے اسلام کے متعلق مضامین اور علامہ اقبال کی انقلابی نظمیں نکلوادی گئیں مگر وہ خاموشی سے دیکھتے رہے۔ کرپشن کو صرف سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کیا، عملی طور پر اپنی اہلیہ، اس کی سہیلی اور ان کے فرنٹ مینوں کی لوٹ مار کو پوری طرح تحفظ دیتے رہے اور سرپرستی بھی کرتے رہے۔
انھوں نے سیکڑوں بار دعوی کیا کہ جب اقتدار ملا تو وہ پولیس اور دیگر سروسز کو غیر سیاسی بنادیں گے، یعنی ہماری انتظامیہ اور پولیس غیر جانبدار ہوا کرے گی۔ مگر اقتدار ملا تو پنجاب میں بدترین سیاسی مداخلت کے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے گئے، پنجاب میں پیسوں کے عوض انتہائی بدنام افسر اہم عہدوں پر تعینات ہوتے رہے جس باضمیر افسر نے پی ٹی آئی کے کسی جیتے یا ہارے ہوئے شخص کا کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، اسے فورا ٹرانسفر کرادیا۔
انھوں نے چند مہینوں میں ہی اپنی پالیسی واضح کردی کہ مجھے ایماندار اور غیر جانبدار افسر نہیں بلکہ وفادار اور تابعدار افسر درکار ہیں اسی نظرئیے کے تحت انھوں نے پنجاب میں بدنام افسروں کو اہم ترین عہدوں پر تعینات کیا اور بدترین گورننس کی مثال قائم کردی۔ مجھے ذاتی طور پر یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ عمران خان کو کرپشن سے کوئی نفرت نہیں ہے اور انھوں نے کرپشن کے کیچڑ کو صرف سیاسی مخالفین کا دامن گندا کرنے کے لیے استعمال کیا۔
اپنی اہلیہ اس کی سہیلی اور ان کے فرنٹ مینوں کی کرپشن کے بارے میں تمام معلومات ملنے کے بعد بھی انھیں تحفظ دیا ااور ان کی سرپرستی جاری رکھی۔ جس سیاستدان کو وہ خود سب سے بڑا ڈاکو کہتے رہے اسے پارٹی کا صدر بنادیا۔
ان کے دور میں افسر کروڑوں روپے رشوت دے کر پوسٹنگ لیتے رہے، ان کے وزیر اور مشیر لوٹ مار کرتے رہے مگر کرپشن کی بنا پر کسی وزیر، مشیر یا سرکاری افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی۔ انھوں نے اپنے دورِ حکومت کو کام کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف الزام، دشنام اور انتقام کی نذر کردیا۔ میرے ذاتی علم میں ہے کہ نیب اور ایف آئی اے کے سربراہوں کو بلا بلا کر ہدایات دیتے رہے کہ میرے فلاں فلاں مخالف اور اس کی بیٹی کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالو۔
ان کی خواہش یہ تھی کہ کوئی ایک سیاسی مخالف بھی جیل سے باہر نہ رہے۔ پھر اندھے انتقام میں ایک سیاسی مخالف کے خلاف منشیات کا ایسا جھوٹا کیس بنا کر گرفتار کرادیا جس کی سزا موت ہے۔
پرائم منسٹر آفس کے ذمے داران بتاتے ہیں کہ بحیثیت وزیراعظم انھوں نے مہنگائی کے خاتمے، قانون کی حکمرانی قائم کرنے یا پولیس اور عدلیہ کے فرسودہ سسٹمز کی اصلاح کے لیے اپنے پورے دورِ اقتدار میں ایک میٹنگ بھی نہیں کی۔ لیکن کرپشن کے خلاف نعروں اور اسلامی ٹچ میں کوئی کمی نہیں آنے دی جس سے ان کی دوعملی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوگئی۔
میں انھیں قریب سے جاننے والے ان لوگوں سے اتفاق کرتا ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی نظریہ نہیں ہے، کیونکہ ان کی سیاست کی کوئی فکری بنیاد نہیں ہے، ان کا نظریہ ہے ہر طریقے اور ہر حربے سے اقتدار حاصل کرنا۔ وہ واحد سیاسی لیڈر ہے جو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں عدمِ مداخلت کا قائل نہیں۔
اس کا نظریہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیاست میں مداخلت کرے اور اسے دوبارہ اقتدار دلا دے، اس کے لیے وہ سابق آرمی چیف کو تاحیات چیف بنانے کے لیے بھی تیار تھے اور موجودہ سے بھی ملاقات کی کوشش کرتے رہے مگر دوسرا فریق تیار نہ ہوا۔ لہذا میں کن خوبیوں کی بنا پر ان کی تعریف اور توصیف کروں؟ محض اس لیے کہ وہ بہت مقبول ہیں۔
مقبولیت حق پر ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہے۔ اکثریت کبھی بھی حق اور سچائی کے ساتھ نہیں رہی، جذباتی اور معاشی مسائل کے مارے ہوئے عوام کو آسانی سےcheatکیا جاسکتا ہے ،کوئی بھی damagogue انھیں گمراہ کرسکتا ہے، جس طرح ہٹلر نے اپنے عوام کو کیا تھا۔ لہذا اس دلیل میں کوئی وزن نہیں کہ چونکہ الیکشن میں انھیں زیادہ سیٹیں ملی ہیں، اس لیے ہم بھی انھیں لیڈر اور مرشد مان لیں۔
ان کے دورِ اقتدار میں چند دوستوں کی محفل میں ایک سابق سفیر نے ان کے ایک پرانے دوست سے کہا کہ ایک اچھے لیڈر کے لیے پہلے اچھا انسان ہونا ضروری ہے، فی الحال کردار کو چھوڑدیں، اس کے علاوہ ان میں حق گوئی، ایفائے عہد، خوش اخلاقی، خوش کلامی، شائستگی ، شستگی، فراخدلی، مہمان نوازی، ایثار، قربانی اور قابلیت میں سے کون کونسی خوبیاں پائی جاتی ہیں؟ جواب ملا،کوئی ایک بھی نہیں۔ پاکیزہ کردار اور دیگر انسانی خوبیوں کے فقدان کے باوجود بیشمار نوجوان ان کے فین اور فالورز ہیں، نوجوانوں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں ، عمران خان نے ہمیں شعور اور آزادی دی ۔
اس کی وضاحت مانگی جائے تو وہ کوئی جواب نہیں دے پاتے ۔ ایک یونیورسٹی کی طالبہ سے ایک ٹی وی اینکر نے خان صاحب کے دورِ حکومت کے کارنامے پوچھے تو اس نے کچھ سوچ کر کہا، لنگر خانے ۔
اینکر نے کہا کہ وہ تو ایک خیراتی و فلاح ادارے والے چلاتے تھے، حکومت کا تو ایک پیسہ خرچ نہیں ہوتا تھا، اس پر طالبہ نے کہا انھوں نے ہمیں شعور دیا ہے، اینکر نے وضاحت پوچھی تو طالبہ سوچ میں پڑگئی ا ور مسلم لیگ نون کی قیادت کو گالیاں دینے لگی۔ اینکر نے کہا ، جن کے بارے میں آپ بدزبانی کررہی ہیں، وہ آپ کے دادا کی عمر کے ہیں، تو کیا یہ شعور ملا ہے، آپ کو؟ اس پر وہ یہ کہہ کر چلی گئی کہ بس ہمارا لیڈر عمران خان ہے۔
نااہلی جرم نہیں مگر منافقت ناقابلِ معافی جرم ہے۔ سچی بات ہے آغاز میں عمران خان کے لیے میرے دل میں ہمدردی اور نرم گوشہ تھا، مگر اس کی دوعملی دیکھ کر میں اس سے بدظن ہونے لگا۔ جب وہ تسلسل سے جھوٹ بولنے لگا اور یہ ثابت ہوگیا کہ وہ کرپشن سے نفرت نہیں کرتا بلکہ سرپرستی کرتا ہے ، اسلام اور انصاف کا نام صرف سیاسی مقاصد کے لیے لیتا ہے تو اس کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہوگئی۔ جب اس نے مزاروں پر سجدے کیے اور ایک پاکستانی مسلمان کے مقابلے میں اپنے سابقہ سالے صاحب کی مہم چلائی تو اس کے لیے ہمدردی ختم ہوگئی۔
جب اس نے ورکروں کی حوصلہ افزائی کی کہ میرے سیاسی مخالف کے گھر (جس میں اس کی بہو بیٹیا ں بھی رہتی ہیں) کے سامنے جاکر گالیاں دیا کرو اور ان پرآوازے کسو تو معلوم ہوا کہ وہ ہماری روایات سے بھی ناآشنا ہیاور پھر جب پی ٹی آئی کے لوگوں کے ذریعے سیاسی مخالفین کو بے عزت کرنے کے لیے مسجدِ نبویۖ اور روضہ رسول ۖ کے تقدس کا بھی خیال نہ کیا تو اس نے گویا ربِ کائنات کی ریڈ لائن کراس کردی اس کے بعد وہ اللہ کی پکڑ میں آگیا جس سے نکلنا مشکل ہے۔
اسی جنون میں اس نے 9مئی کو فوج میں بغاوت کرانے کی کوشش کی جو ناکام ہوگئی۔ اب بھی اگر وہ سچے دل سے توبہ کرے، اللہ تعالی سے معافی مانگے تو غفور ورحیم اس کے لیے آسانیاں پیدا کرسکتے ہیں ورنہ اسے 25 کروڑ ووٹ بھی پڑجائیں اور امریکا اور یورپ مل کر بھی کوشش کریں تو بھی وہ اللہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکے گا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس