مائنس عمران پی ٹی آئی الیکشن ہوا مگر نتائج پرو پی ٹی آئی نکل آئے اسے کہتے ہیں ’جمہوریت بہترین انتقام‘ اب جتنی جلدی ہم اسے قبول کرلیں اتنا ہی اس نظام کیلئے بہتر ہے۔ ’سنگھاسن‘ پر کون براجمان کیا جائے گا۔ اس کیلئےجوڑ توڑ جاری ہے کیونکہ ’ہائبرڈ نظام‘ میں اکثریت کو قبول نہیں کیا جاتا نہ ہی مقبولیت کو۔ یہ ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا اور یقین جانیں اگر انتخابات واقعی صاف اور شفاف ہوجاتے تو ایک مستحکم حکومت معرضِ وجود میں آجاتی۔ جو غلطیاں 2018ء میں کی گئی تھیں اس سے زیادہ بھیانک انداز میں الیکشن 2024ء میں ہوئیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ نہ ہمیں ہار قبول ہوتی ہے نہ جیت ہضم۔ ہمارے دوست اور شاعر جاوید صباء نے اس الیکشن کے پس منظرمیں مجھے یہ شعر بھیجا
تازہ ایجاد ہوئی ہے مری بستی میں یہ رسم
فتح کا جشن منالیتے ہیں ہارے ہوئے لوگ
اب یہ بات ہضم کرنا ذرا مشکل ہے مگر یقین جانیں کہ اس حقیقت کو ہر جمہوری شعور رکھنے والا شخص قبول کرے گا اور مانے گا کہ الیکشن 2024 پی ٹی آئی کے نام رہا وزیراعظم کوئی بھی بن جائے۔ ایک جماعت جس کا بانی جیل میں سزا کاٹ رہا ہو الیکشن کیلئےنااہل ہو، نہ پارٹی کا نام ہو نہ نشان، نہ جلسہ نہ جلوس پھر بھی اس نے ’آزاد‘ امیدواروں کے ذریعے انتخابی عمل میں حصہ لیا کچھ امیدوار جیل میں تھے کچھ افراد ’لیول پلینگ فیلڈ‘ تو دور کی بات کوئی لیول ہی نہیں تھا پھر ایسا کیا ہوا کہ 8فروری کو صبح 8 بجے سے شام پانچ بجے تک ملک میں الیکشن ہوا اور پولنگ کے بعدسلیکشن ،دھاندلی کسی کو انتخاب سے باہر کرنے سے ہی نہیں ہوتی کسی کی جیت کو ہار میں بدلنے یا کم کرنے سے بھی ہوتی ہے۔ مگر پھر آخر کتنی کم کرتے آخر میں یہ بات ثابت ہوئی کہ سب سے بڑی جماعت ’آزاد‘ جماعت ہے جس نے پابندیوں کے باوجود 100کے قریب قریب سیٹیں حاصل کرلیں اور 1985کی تاریخ دہرا دی گئی یعنی سیاسی جماعتوں کے انتخابات میں ’آزاد‘ امیدوار نمبر1پوزیشن پر۔ تصور کریں یہ تینوں یعنی بانی پی ٹی آئی، پارٹی کا نام اور نشان میدان میں ہوتے تو نتائج کیا ہوتے۔اس وقت پی ٹی آئی نے مرکز، کے پی کے اور پنجاب میں سنچری مکمل کی ہے جو ایک بڑا کریڈٹ ہے۔ دوسری جماعت جس نے ماضی کے مقابلے میں بہتر نتائج لیے وہ پی پی پی ہے کہ سندھ میں تو اسے نمبر1ہونا ہی تھا مگر پہلی بار بلوچستان میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اس کے علاوہ جنوبی پنجاب سے بھی سیٹیں ملی ہیں۔ اب آتے ہیں پنجاب پر، پہلے بھی لکھا تھا کہ میاں صاحب کے طویل عرصہ ملک سے باہر رہنے کا سیاسی نقصان مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں ہوا اور پہلے دو سال میں یہ سیاسی اسپیس پی ٹی آئی نے لے لیا۔ شاید پی پی پی نے بھی پنجاب کا رخ کرنے میں دیر کردی اور یہ دونوں جماعتیں کوئی مضبوط بیانیہ نہ لاسکیں اور مزاحمت کی سیاست سابق وزیراعظم عمران خان کے حصے میں آئی۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کا خیال تھا کہ عمران جیل برداشت نہیں کرپائے گا مگر اس نے دونوں کو غلط ثابت کیا۔
کراچی میں اس بار 2018سے بھی کہیں زیادہ مبینہ طور پر نتائج میں تبدیلی کی گئی۔ پچھلی مرتبہ جو کھیل تحریک انصاف کے حق میں کھیلا گیا اس سے کہیں زیادہ اس بار متحدہ کیلئے کھیلا گیا۔ پچھلے الیکشن میں ایم کیو ایم کی نشستیں 10-12سے کم کرکے 6 کردی گئی تھیں تو اس بار 14مل گئیں اور حیدرآباد ملاکر 17۔ پی پی پی کی غالباً کلفٹن، ڈیفنس والی سیٹ نہیں بن رہی تھی بہرحال ان کو 7 مل گئیں۔
اس وقت کا سیاسی منظر نامہ یہی ہے کہ مرکز میں کسی جماعت کے پاس واضح اکثریت نہیں جبکہ چاروں صوبوں میں خاص حد تک یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ اور بلوچستان میں پی پی پی اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومتیں بننے جارہی ہیں۔ اب اگر مرکز میں قومی اتفاق رائے ہوجائے اور سب کو قابل قبول بھی ہو تو تمام جماعتیں بشمول پی ٹی آئی کو ساتھ ملاکر کسی ایک نام پر وزارت عظمیٰ کیلئےاتفاق کریں، بے جا مداخلت نہ ہو تو شاید ہم اپنی سیاسی سمت بہتر کرسکتے ہیں۔ جہاں جہاں انتخابی بے ضابطگیاں ہوئیں انکے فیصلے جلدازجلد الیکشن ٹریبونل اور ہائی کورٹس کریں جسکو سب تسلیم کریں۔
یہ تو تھیں ’جمہوری باتیں‘ مگر یہاں ہے ایک ’ہائبرڈ نظام‘ لاڈلوں کا جمعہ بازار جو بھی وزیراعظم بنے گا وہ لاڈلہ ہوگا اور ہائبرڈ ہوگا ۔ وہ چاہے شریف برادران میں سے کوئی ہو یا پی پی پی کے بلاول بھٹو ہوں یا آصف علی زرداری یا کوئی ’تیسرا‘۔ کم و بیش کچھ شرائط وہی ہونگی جیسی 1988 میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے سامنے رکھی گئی تھیں۔ عین ممکن ہے ’وزیر خزانہ‘ کوئی ’سلیکٹڈ‘ ہو کیونکہ اب خزانہ کی کنجی ’وزیر‘ کے پاس نہیں ہوگی۔ وزارت داخلہ اور سیکورٹی کے معاملات تو پہلے ہی سویلینز کے بس کی بات نہیں رہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے مریم نواز کا انتخاب آسان فیصلہ نہیں نہ ہی علی امین گنڈاپور کا انتخاب کے پی میں۔ بلوچستان کا فیصلہ اگر سرفراز بگٹی کے حق میں آتا ہے تو ان پر بہت بھاری ذمہ داری آتی ہے، سندھ میں اگر پی پی پی کو غیرمعمولی کامیابی ملی ہے تو سابق وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ہی مضبوط امیدوار ہوسکتے ہیں یا پھر عین ممکن ہے فریال تالپور یا پھر ناصر شاہ، شرجیل میمن ہوسکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کیلئےآنے والے وقت میں ابھی کئی ایک رکاوٹیں ہیں۔ پارٹی کے اندر جمہوریت تو خیر کسی بڑی جماعت میں نہیں مگر پی ٹی آئی کیلئےاس لیے بھی مضبوط پارٹی جمہوریت ضروری ہے کیونکہ یہاں کم از کم اب تک ’خاندانی سیاست‘ نہیں ہے مگر شخصی سیاست کے اپنے منفی اثرات ہوتے ہیں اور ان سوالات کا جواب خود سابق وزیراعظم عمران خان کو تلاش کرنا پڑے گا۔ پی پی پی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور سے الیکشن لڑکر پارٹی کیلئےپنجاب میں نئی راہیں کھولی ہیں مگر مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے سخت پوزیشن لینے کے بعد انہی کے ساتھ الحاق کرنے سے انہیں سیاسی نقصان ہوگا۔
آخر میں اس ’ووٹر‘ کو شاباش جس نے جمہوریت کا پاس رکھا اور شعور کا بے مثال مظاہرہ کیا۔ لوگوں کو ’ووٹ‘ کی طاقت کا استعمال کرنا آتا ہے۔ الیکشن 2024 سے ان کو بھی سبق سیکھنا چاہئے جو ہر بار کوئی پروجیکٹ تیار کرتے ہیں، پارٹیاں توڑتے ہیں اور پھر جوڑتے ہیں۔ جہانگیر خان ترین، پرویز خٹک، محمود خان ہوں یا ماضی میں مسلم لیگ (ق)، پی پی پی اور ایم کیو ایم کو توڑنے والے اگر اس عمل سے سیاسی استحکام آیا تو بتائیں۔ ہر پروجیکٹ آپ کے اپنے گلے پڑا ہے۔
بہتر تو یہ ہےکہ جس کی اکثریت ہے پہلا موقع اس کو حکومت بنانے اور اکثریت ثابت کرنے کا دیں۔ پی ٹی آئی اپنی انتخابی سیاست میں تبدیلی لائے۔ وہ حکومت نہ بنا پائے تو دوسرے مرحلے میں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کو چانس دیں۔ معاف کیجئے گا میں جمہوریت کی بات کرنے لگا تھا یہ ’ہائبرڈ نظام‘ ہے یہاں سب چلے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ