فیض کی فکر اور فلسفے پر سینکڑوں زاویوں سے بحث کی جاسکتی ہے ۔ایک ایسا شاعر جس نے انسان کوعظمت کی مسند پر سرفراز کرنے کیلئے سماجی، معاشی، سیاسی، اخلاقی اور روحانی نظام کاہر در کھٹکھٹایا اور وفا کی سیاہی سے بہتری کے نسخے تحریر کئے ۔ فیض کی شخصیت چونکہ حلیمی، رواداری اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کی امین تھی اس لئے انھوں نے کڑوی کسیلی وہ باتیں بھی نرم لہجے میں کیں جن کے معنی کی گھن گرج جبر کے ایوانوں کو ہلا کے رکھ دیتی ہے۔ اشفاق احمد نے فیض احمد فیض کو ملامتی صوفی کہا تھا، فیض کو ملامتی صوفی کہنے سے پہلے صوفی کی مختصر تعریف دیکھ لیتے ہیں۔انسانیت کا علمبردار صوفی ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہوتا ہے، اگرچہ قدرت اُسے خاص صلاحیتیں ودیعت کر کے بھیجتی ہے لیکن وہ خود کو عقلِ کل نہیں سمجھتا، پرہیزگاری اور برتری کا دعویٰ نہیں کرتا بلکہ میاں محمد بخش کی طرح’’میں گلیاں دا رُوڑا کُوڑا‘‘اور بابا فرید کی طرح ’’گناہیں بھریا میں پھرا ں لوک کہن درویش،‘‘کہہ کر اپنی نفی کرتا ہے۔ تبلیغ نہیں کرتا عمل سے راغب کرتا ہے۔دوسرے کی رائے، سوچ اور عقیدے کا احترام کرتا ہے۔ مناظرہ نہیں کرتا ۔ مختلف نسلوں، مذہبوں، زبانوں اور قوموں کی شکل میں خدا کی قائم کردہ رنگا رنگی کو بدلنے کی سعی نہیں کرتا ۔ لوگوں کو عقیدے بدلنے پر مجبور نہیں کرتا ۔ظاہری اور باطنی طور پر ایک جیسا سچا ہوتا ہے ۔ اس کی عبادت نفع، جنت اور دنیاوی مراتب کے حصول سے بے نیاز ہوتی ہے،وہ نیکی کا دکھاوا نہیں کرتا اور دکھاوا کرکے لوگوں کو دھوکہ دینے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کے نزدیک عبادت عاشق اور معشوق کے درمیان رازونیاز کی باتیں ہیں جن کی تشہیر ضروری نہیں ۔ دیگر افراد سے خود کو الگ نہیں سمجھتا ۔رب کے نام پر انسانوں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ خلقت کی خدمت کے ذریعے خالق تک رسائی کی جستجو کرتا ہے۔خدائی کو نقطہ کہہ کر ہر قسم کی تقسیم اور نفرت کی نفی کرتا ہے ،کائنات کو ایک خالق کی مخلوق سمجھ کر آفاقیت کا علمبردار ہوتا ہے، صوفی ثقافتی ہیرو ہوتا ہے جو فنون کی ترویج کرتا ہے اور ان کے ذریعے انسان کی شخصیت میں خیر کو اجاگر کرکے اسے ایک مفید انسان بننے میں مدد کرتا ہے۔
اس تناظر میں دیکھیں تو فیض کی شخصیت صوفیانہ فکر میں رنگی دکھائی دیتی ہے۔وہ مذہبی تشدد اور فرقہ پرستی کو سخت ناپسند کرتے تھے ۔ مذہبی رواداری میں وہ رومی کے پیروکار تھے۔ جمہوریت کے خاتمے ، آمریت کو خوش آمدید کہنے اور سیاسی عدم استحکام میںآلہ کاروں،نیکی کا دکھاوا کرنے والے تنگ نظر اور متعصب ٹھیکیداروں ، ایمان اور کفر کی سندیں تقسیم کرنے والوں کو فیض کھلے عام للکارتے دکھائی دیتے ہیں۔
میخانے کی رونق ہیں کبھی خانقہوں کی
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دلداریِ واعظ کو ہمیں باقی ہیں ورنہ
اب شہر میں ہر رِندِ خرابات ولی ہے
فرد کا کسی قسم کااستحصال فیض کے نزدیک سب سے بڑا جرم ہے۔سماج کی بھلائی کیلئے بنائے گئے ضابطوں کے مطابق آزادی، انصاف اور امن کے ماحول میں ہر شخص کو عزت کے ساتھ بنیادی ضرورتوں کی فراہمی ریاست کی اولین ذمہ داری ہے لیکن ظاہر پرست جبر کے ہمنوا بن کر معصوم افراد کا استحصال کرتے ہوئے انھیں جد وجہد کی بجائے صبر شکر کے ساتھ ظلم کے ضابطوں کی تابع داری پر قائل کرتے ہیں، وہ خود مختلف زندگی جیتے ہیں اور دوسروں کو مختلف سبق دیتے ہیں۔اخلاقیات کی تعلیم دیتے ہوئے اچھا انسان بننے کی صلاح دینے کی بجائے گِلٹ میں مبتلا کر کے خوف کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔
یہ سب دیکھ کر حساس شاعر کا دل شدید افسردہ ہوتا ہے کہ سادہ دل بندے لکیر کے فقیر ہو چکے ہیں انھیں تضاد نظر آتا ہے مگر وہ نہ سوچتے ہیں نہ رستہ بدلتے ہیں ،تو وہ اپنے رب سے التجا کرتا ہے کہ
یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں خداوند
بنا پھرتا ہے ہر اک مدعی پیغام بر تیرا
ہر اِک بُت کو صنم خانے میں دعویٰ ہے خدائی کا
خُدا محفوظ رکھے از خداوندانِ مذہب ہا
تمام صوفیوں کے ہاں ظاہر پرستوں کے حوالے سے خاص ملامتی رنگ موجود ہے ! بلھے شاہ ظاہر پرستوں کی منافقت اور دو عملی پر طنز کرتے ہوئے، راتیں جاگیں کریں عبادت راتیں جاگن کُتے، سلطان باہو ظاہری چمک دمک کے پیچھے چھپی غلاظت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،جے رب نہاتیاں دھوتیاں ملدا تے ملدا ڈڈواں مچھیاں ہو، یعنی اگر نہانے دھونے سے رب ملتاتو مچھلیوں اور مینڈکوں کو ملتاجو ہر وقت پانی میںہی نہاتے رہتے ہیں ۔یہ رنگ ہمیں فیض کی شاعری میں جابجا ملتا ہے، پنجابی نظم ربا سچیا تُوں تے آکھیا سی، میں رب سے شکوہ کرتے ہوئے لوگوں کے رویوں کا رونا رویا گیا ہے۔سیاسی، مذہبی اور سماجی ٹھیکیداروں کے منافقانہ رویوں پر گہرا طنز موجود ہے،
پھر حشر کے ساماں ہوئے ایوانِ ہوس میں
بیٹھے ہیں ذوی العدل، گناہ گار کھڑے ہیں
ہاں جُرمِ وفا دیکھئے کِس کِس پہ ہےثابت
وہ سارے خطاکار سرِدار کھڑے ہیں
فیض فیسٹول ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں فکری مباحثوں کے ذریعے ذہنوں میں کلبلاتے سوالوں کے جوابات ڈھونڈے جاتے ہیں۔ تنگ نظری کی فضا میں موسیقی، رقص اور شاعری کے چراغ روشن کر کے زندگی کا چہرہ اجالنے کی سعی کی جاتی ہے، یقینا ًفیض کی بیٹیوں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی نے اپنے عظیم باپ کی فکر کو عام کرکے سماج کو خوبصورت بنانے کا جو عظیم کام شرو ع کیا تھا، اسے عدیل ہاشمی نے خوبصورت تر بنا دیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ