انتخاب 2024: آنکھ اور شہر دونوں دھندلا گئے : تحریر وجاہت مسعود


8 فروری 2024ء بالآخر جمہوریت کی شاہراہ پر دھول اور غبار کے دبیز منطقے چھوڑ گیا ہے۔ ہماری انتخابی تاریخ میں یہ کوئی اچھنبا نہیں۔ دسمبر 70ء کے انتخابات کا نتیجہ ماننے سے انکار کرکے ملک دو لخت کیا گیا تھا۔ 77ء کے انتخابات گیارہ سالہ آمریت کی وعید لائے تھے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات سے دولت، دھونس، فرقہ واریت اور لسانی تفرقے کی ایسی سیاسی روایت شروع کی گئی جس سے سیاست کا تالاب آلودہ ہو گیا۔ 1988ء کے انتخابات کے عقب میں ایک جلتا ہوا جہاز تھا اور لنگر گپ کی ساز باز سے کھڑی کی گئی آئی جے آئی جسے ناجائز مالی اور انتظامی مدد فراہم کر کے جمہوری عمل کی ساکھ برباد کی گئی۔ 1988ء سے پہلے آمریت ایک سانحہ تھی، اسلم بیگ اور حمید گل کی مہربانی سے نوشتہ دیوار قرار پائی۔ کوئی مو?رخ یہ بتانے کا مکلف نہیں کہ جولائی 93ء میں صدر اور وزیراعظم کے بیک وقت استعفے کس آئینی جواز کے مرہون منت تھے۔ فاروق لغاری نے نومبر 1996ء میں بینظیر حکومت کو برطرف کیا تو فروری 97ء کے انتخابات میں بینظیر بھٹو کو قومی اسمبلی کی کل 17نشستیں مل سکیں۔ قانون یہ بتانے سے معذور ہے کہ سپریم کورٹ نے 12 مئی 2000ء کو کس اختیار کے تحت پرویز مشرف کو تین سال تک حکومت کرنے نیز آئین میں تبدیلی کا اختیار دیا تھا۔

2008ء کے انتخابات پر بینظیر بھٹو کے لہو کے دھبے تھے اور 2013ء کے انتخابات طالبان کی یلغار کی سائے میں منعقد ہوئے۔ 2018ء کے انتخابات کا مقصد ایک سیاسی دستکاری کو ایوان وزیراعظم کی رونق بنانا تھا۔ عمران خان کی حکومت معاشی اور خارجہ معاملات ہی میں ناکام نہیں ہوئی بلکہ فیض حمید سے گٹھ جوڑ کر کے اگلے دس برس تک حکومت کا منصوبہ بنایا گیا۔ اکتوبر 2021ء میں فوجی تقرریوں پر شروع ہونیوالا تنازع 10اپریل 2022ء کی رات تحریک عدم اعتماد کی منظوری پر ختم ہوا۔ اس دوران 27فروری کو آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئندہ معاشی بحران کی بنیاد رکھی گئی۔ 27مارچ کو جلسہ عام میں سائفر نامی کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر سفارتی دلدل تیار کی گئی۔ تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کی بجائے قومی اسمبلی تحلیل کی گئی۔ اس کے بعد ایک مرحلہ 25مئی 2022ء کا دھرنا تھا اور دوسرا سنگ میل عسکری قیادت کی تقرری سے تین روز قبل 26 نومبر 2022ء کو راولپنڈی پر چڑھائی تھی۔ سیاست کے جمہوری دھارے کو بدعنوان اور نا اہل قرار دینے کی مشق پچاس کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ بدعنوانی اور نا اہلی کی کوئی غیر جانب دار تحکیم ممکن نہیں ہو سکی۔ یہ البتہ معلوم ہے کہ کس ریٹائرڈ اعلیٰ اہلکار کو کینیڈا کی حکومت نے بطور سفارت کار قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ کس اعلیٰ اہلکار نے بدعنوانی کے الزامات میں پلی بارگین کی تھی۔ 8مئی 2002ء کو کراچی میں فرانسیسی انجینئرز پر دہشت گرد حملہ کس مالی بدعنوانی کا شاخسانہ تھا۔ میمو گیٹ اور پانامہ گیٹ کی حقیقت تو سکرین پلے لکھنے والے خود تسلیم کر چکے لیکن سی پیک کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے والے اس کردار پر کبھی گرفت نہیں ہو سکی جس پر کروڑوں ڈالر کی بزنس امپائر کھڑی کرنے کا الزام تھا۔ پراجیکٹ عمران کے خالق خود اپنی سیاسی مداخلت تسلیم کرتے ہوئے 14 اپریل 2022ء کو باقاعدہ اعلان کر چکے کہ فروری 2021ء میں غیر سیاسی مداخلت سے دست کشی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

سیاسی قیادت کی کردار کشی، جہادی بیانیے کی آبیاری اور اندھی شخصیت پرستی کے غیر جمہوری دھاروں سے قوم کا تاریخی اور سیاسی شعور سے بے بہرہ تشخص تشکیل کیا گیا۔ اس میں آئینی اور ریاستی اداروں کے تعاون کے علاوہ صحافت اور مذہبی گروہ بھی بروئے کار لائے گئے۔ 9مئی 2023ء پاکستان کی تاریخ میں ریاست کے منظم ترین ادارے میں داخلی کشمکش کا بدترین مظاہرہ تھا جس میں باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے 200سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ مارچ 1971ء میں جنرل حمید خان نے آپریشن سرچ لائٹ کے مسودے سے بنگالی سپاہ کو غیر مسلح کرنے کی شق یہ کہتے ہوئے قلم زد کر دی تھی کہ ہم دنیا کو افواج پاکستان کا ڈسپلن ٹوٹنے کی خبر نہیں دے سکتے۔ ٹھیک پچاس برس بعد 9مئی 2023ء کی تفصیل سے بھی قوم کو بے خبر رکھا گیا۔ نتیجہ یہ کہ اس منصوبے کے عسکری اور سیاسی فریق اسے ’فالس فلیگ آپریشن‘ قرار دینے میں کامیاب ہو گئے۔ شفاف قانونی کارروائی کی بجائے سکندر مرزا والا فارمولا بروئے کار لایا گیا۔

فضل الحق کی حکومت توڑنے کے بعد 24 مئی 1954ء کو سکندر مرزا نے ڈھاکہ پہنچتے ہی حکم جاری کیا کہ پورے صوبے میں فوراً 17 سو شرپسند گرفتار کر لیے جائیں۔ انتظامی اہلکاروں نے سترہ سو کے عدد پر کل اضلاع کو تقسیم کیا اور صبح ہونے تک ہر ضلعے سے ناپسندیدہ عناصر دھر لیے گئے۔ 9مئی 2023ء کو بھی یہی فارمولا اپنایا گیا۔ چنانچہ 200عسکری تنصیبات پر حملے کا سنگین جرم اسی طرح بے معنی ہو کر رہ گیا جیسے نظریہ پاکستان کی اصطلاح۔ عمران خان کی سیاست بے داغ قرار پائی اور ریاستی اداروں کے خلاف سیاسی شعور سے بے بہرہ اندھی نفرت کی لہر دوڑ گئی۔ جمہوری قوتیں تو یوں بھی ’نقش فریادی‘ ہیں، شیر علی پٹودی نے ایک منقسم پارلیمنٹ کو پیوستہ مفادات کے لیے بہترین نسخہ قرار دیا تھا۔ اس کا ایک نمونہ 1993ء کے انتخابات تھے جب منظور وٹو 18ارکان کے ساتھ پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے تھے۔ اس تمثیل کی دوسری قسط آئندہ ہفتوں میں سامنے آ جائے گی۔ سیاسی جوڑ توڑ کی بنیاد پر ایک کمزور حکومت تشکیل پائے گی۔ پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے والے گروہ میں بریگیڈیئر اعجاز شاہ، عمر ایوب اور بریگیڈیئر اسلم گھمن جیسے جمہوریت پسند شامل ہیں لیکن اس سیاسی قوت کے قانونی ٹھیکرے شاہراہ دستور پر بکھرے ہیں۔ آنے والی حکومت اپنی مشتبہ جمہوری ساکھ کے باعث سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری فیصلے نہیں کر پائے گی۔ 9 فروری کی صبح داغ دار اجالے کے ساتھ نمودار ہوئی ہے۔ دیکھنے والی آنکھ میں آشوب دہر اتر آیا ہے اور اہل شہر کی قسمت پر مہر لگا دی گئی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ