انتخابات سے آگے : تحریر الطاف حسن قریشی


مَیں یہ کالم سات فروری کی شام قلم بند کر رہا ہوں۔ جب یہ شائع ہو گا، تو اِنتخابات کے زیادہ تر نتائج آ چکے ہوں گے اور مقتدرہ حکومت سازی کا جائزہ لے رہی ہو گی۔ ایک پارٹی حکومت بنائے گی یا مخلوط حکومت قائم ہو گی، ہم یقین سے اِس معاملے میں کوئی رائے نہیں دے سکتے، البتہ اِن رجحانات اور اِمکانات کا جائزہ لے سکتے ہیں جو اِنتخابی مہم کے دوران سامنے آتے رہے ہیں۔ اِس بار کے انتخابات ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں خاصے مختلف ہیں، اِس لیے ماحول بھی کسی قدر اَجنبی سا ہے۔ دراصل 9 مئی کے واقعات سے انتخابی فضا بڑی متاثر ہوئی ہے اور پاکستان تحریکِ انصاف اور اِسکے بانی جناب عمران خاں سخت مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔ اِس امر کو تحسین کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے کہ تمام تر آزمائشوں کے باوجود تحریکِ انصاف نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے اِن میں پورے جوش و خروش سے حصّہ لیا ہے۔

اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کے کامیاب آزاد اُمیدواروں سے کیا سلوک روا رَکھتی ہے اور آزاد اَرکان کیا طرزِعمل اختیار کرتے ہیں، اِس حقیقت کا اندازہ ایک دو روز ہی میں ہو جائے گا۔ قومی یک جہتی اور سنگین معاشی بحران کا تقاضا یہ ہے کہ تمام اہم قومی جماعتوں کی نمائندگی پارلیمان میں موجود ہو اَور وُہ پاکستان کو ناگفتہ بہ حالات سے نکالنے کے لیے اپنا اپنا کردار پوری فرض شناسی سے ادا کریں۔ یہ اُسی وقت ممکن ہے جب اصلاحِ احوال کا جذبہ دونوں طرف موجود ہو اَور اِعتراف اور دَرگزر کی پالیسی، فریقین دیانت داری سے اختیار کریں۔

یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ انتخابی مہم میں سبھی سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصّہ لیا، منشور جاری کیے اور اَپنا اپنا نامۂ اعمال عوام کے سامنے رکھا۔ ایک دو وَاقعات کے سوا سیاسی تشدد کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا اور ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے میں بھی احتیاط سے کام لیا گیا۔ لاہور کے قومی حلقے 127 میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نون نے بہت زور شور سے ایک دوسرے پر ووٹ خریدنے کا الزام لگایا، مگر احساس ہونے پر واپس لے لیا اور صلح نامے پر دستخط بھی کیے۔ کراچی میں پیپلزپارٹی اور اَیم کیو ایم کے درمیان جھڑپ ہوئی اور اَیم کیو ایم کا ایک کارکن موت کی آغوش میں چلا گیا۔ اِس واقعے پر ندامت محسوس کی گئی اور اِس کے بعد حالات معمول پر آ گئے۔ اِس اعتبار سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمام تر اختلافات کے باوجود باہمی احترام کا رشتہ ایک حد تک قائم رہا، البتہ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ میں سیاسی جماعتوں کے دفاتر پر دہشت گردی کے جان لیوا حملے ہوئے اور چالیس سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ امید کی جاتی ہے کہ عوام اور اَمن و امان قائم رکھنے والی فورسز اِن کی مؤثر انداز میں روک تھام کر سکیں گی اور جمہوری حکومتوں کو پُرامن ماحول میسّر آئے گا۔

وطن سے محبت کرنے والوں کی یہ زبردست آرزو ہے کہ ملک میں ایک مستحکم حکومت قائم ہو جو عوام کے تعاون سے پاکستان کو معاشی دلدل سے نکال سکے اور غریب آدمی کی زندگی میں خاطرخواہ سکون لا سکے۔ رائےعامہ کے جو سروے آتے رہے ہیں، وہ اِس طرف واضح اشارہ کرتے رہے کہ مسلم لیگ نون حکومت بنائے گی اور وَزیرِاعظم نوازشریف جو سب سے زیادہ تجربہ کار سیاست دان ہیں، وہ ماضی کی طرح پاکستان کو ایک معاشی طاقت بنا سکیں گے۔ مسلم لیگ نون کو اَپنی کامیابی کا اِس قدر یقین تھا کہ اُس نے انتخابات سے دو روز پہلے ہی ایک اشتہار کے ذریعے تمام بڑے اخبارات کے صفحۂ اوّل پر جناب نوازشریف کے وزیرِاعظم بن جانے کا اعلان کر دیا۔ یہ تو حتمی نتائج ہی سے معلوم ہو گا کہ اِس جماعت کی انتخابی فتوحات کس درجے کی ہیں۔ اِس کی قیادت نے امیدواروں کے انتخاب میں بڑی ریاضت سے کام لیا اور مختلف جماعتوں سے انتخابی معاہدے بھی کیے جن میں استحکامِ پاکستان پارٹی کے ساتھ معاہدہ خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان میں بھی خاصی تعداد میں الیکٹ ایبل مسلم لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔ خیبرپختونخواہ میں ہزارہ اِس کا مضبوط سیاسی گڑھ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اِس کے تعلقات خوشگوار دِکھائی دیتے ہیں۔ اِن عوامل کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ وَفاق، پنجاب اور بلوچستان میں لیڈ کرے گی اور مستحکم حکومت قائم کرنے کا حوصلہ افزا تاثر دے گی۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو نے پورے پاکستان میں بڑی جارحانہ انتخابی مہم چلائی اور خود کو وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر پیش کیا۔ پیپلزپارٹی کے منشور میں بڑی کشش بھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ سندھ میں کتنی نشستیں حاصل کر سکے ہیں، کیونکہ اُنہیں منظم جماعتِ اسلامی، متحرک ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام اور جی ڈی اے کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا رہا۔ نوجوان بلاول بھٹو نے دوٹوک اعلان کر دیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون اور تحریکِ انصاف کے ساتھ مخلوط حکومت نہیں بنائیں گے، مگر اِس امر کی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پاکستان میں سیاسی اور معاشی استحکام کو فروغ دینے میں تعاون کریں گے۔

اِس بار کے انتخابات میں آزاد اُمیدواروں کی تعداد 1985ء کے انتخابات کے مقابلے میں کہیں زیادہ رَہی۔ 1985ء کے انتخابات جنرل ضیاء الحق نے غیرجماعتی بنیادوں پر کرائے تھے۔ اُنہیں خوف لاحق تھا کہ اگر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے گئے، تو پیپلزپارٹی جیت جائے گی جو اُن کی فوجی حکومت کیلئے سخت پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے، چنانچہ اُنہوں نے انتخابات سے سیاسی جماعتوں کو بےدخل کر دیا۔ محمد خان جونیجو وزیرِاعظم نامزد ہوئے، مگر اُن کیلئے حکومت چلانا دشوارتر ہوتا گیا، کیونکہ سیاسی ڈسپلن کا فقدان تھا۔ آخرکار مسلم لیگ وجود میں لائی گئی۔

آزاد اَرکان کا مسئلہ اِس بار بھی خاصی سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت شدہ آزاد اَرکان اگر بڑی تعداد میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو ہارس ٹریڈنگ کی منڈی لگ جائے گی جو مستحکم حکومت کیلئے مسلسل خطرہ ثابت ہو گی۔ اربابِ اختیار کو یہ مسئلہ کمال دانائی سے حل کرنا ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ یہ آزاد اَرکان سیاسی ڈسپلن میں لائے جائیں اور اُن کے ذریعے پاکستان تحریکِ انصاف پارلیمانی کردار اَدا کر سکے۔ ہم تمام جماعتوں کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ