آٹھ فروری 2024ء کا سورج طلوع ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔ عنوان میں آٹھ فروری کی بجائے ستمبر اور دسمبر نظر آنے پر آپ کی حیرت بے جا نہیں۔ لکھنے والا دراصل 18 فروری 2008ء سے 8 فروری 2024ء کے بیچ گزرے 16برس کا آشوب لکھنا چاہتا ہے۔ 18فروری 2008ء کو منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج کا پہلے سے طے شدہ نقشہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت سے تلپٹ ہو گیا ۔ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے اگست 2019 میں اعتراف کیا کہ انہوں نے جنرل کیانی سے مل کر مسلم لیگ (ق) کی جیت کا منصوبہ بنایا تھا۔ تب وہ آئی بی کے سربراہ تھے۔ این آر او کے بعد یہ فیصلہ بدل کر پیپلز پارٹی کی جیت کے خدوخال تراشنا پڑے۔ اعجاز شاہ کے مطابق بینظیر بھٹو کے قتل سے پیپلز پارٹی کو منصوبے سے کچھ زیادہ نشستیں مل گئیں۔ 2002سے 2018تک پاکستان کے پانچ ’شفاف اور منصفانہ انتخابات‘ کا یہ نقشہ نویس اب این اے 112 ننکانہ صاحب سے بطور آزاد امیدوار انتخاب لڑ رہا ہے۔ خاطر جمع رکھیں، آج دست اعجاز نہیں تو کوئی اور انگشت بلوریں دیواری نقشوں پر بچھی لکیروں پر رنگین نشان لگا رہی ہو گی۔ اس کھیل میں ہمارا کردار تماشائی کا ہے۔ تماشا ہی دیکھنا ہے تو تاریخ کی تمثیل کہیں دلچسپ ہے۔
18 اکتوبر 2007کے سانحہ کارساز سے 18 فروری 2008کے انتخابات کے بیچ 27 دسمبر 2007 کی شام آتی ہے۔ اشفاق کیانی، ندیم تاج اور اعجاز شاہ کی جمائی بساط میں اس واردات سے کھنڈت پڑی تھی۔ بینظیر کی شہادت سے پرویزالٰہی کی وزارت عظمیٰ ہی دفن نہیں ہوئی، مشرف آمریت کے بھی پھول اٹھ گئے۔ ماہ و سال کی گردش کے اشارے سمجھنا ہی تاریخی شعور ہے۔ 2008سے ٹھیک پچاس برس پہلے 1958 میں بھی ایسا ہی ایک مرحلہ گزرا تھا۔ آٹھ ستمبر 1958 سے آٹھ دسمبر 1958 تک کل تین ماہ ہی تو تھے۔ آٹھ ستمبر 58ء کو وزیراعظم فیروز خان نون نامی سیاست دان نے محض 30لاکھ ڈالر میں عمان سے گوادر کا 15ہزار مربع کلومیٹر رقبہ حاصل کیا تھا۔ یہ آخری موقع تھا جب پاکستان کے رقبے میں اضافہ ہوا۔ اس بیچ 7 اکتوبر کو دستور منہدم ہو گیا، فیروز خان نون معدوم ہو گئے۔ 27 اکتوبر کو سکندر مرزا معزول ہوئے۔ جس روز گوادر رسمی طورپر مملکت پاکستان کی عمل داری میں آیا، عین اسی روز یعنی آٹھ دسمبر 58ء کو ایوب خان پہلی مرتبہ کشکول اٹھائے ڈھائی کروڑ ڈالر قرض مانگنے آئی ایم ایف کے دروازے پر پہنچ گیا۔ پھر آئی ایم ایف کی دریوزہ گری کی یہ مشق 23 مرتبہ دہرائی گئی۔ پختہ کار صحافی شاہد الرحمن مرحوم کی تصنیف Pakistan:Sovereignty Lost دیکھ لیجئے۔ مصنف نے قرض کی مے سے سیاست کے جگر پر منفی اثرات بیان کیے ہیں۔ 2013ء میں آئی ایم ایف نے دو فیصد سود پر قرض دیا تھا۔ مئی 2019ء میں سود کی شرح 3.2 فیصد ہو گئی۔ بیرونی قرضوں کا کل حجم 128 ارب ڈالر ہو چکا ہے۔ رواں برس نومبر تک 24 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور 3.6 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کرنا ہیں۔ وفاقی اخراجات کا 53 فیصد قرضوں کی ادائیگی، دفاع اور تنخواہوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ 29 فیصد سبسڈی اور دیگر مراعات کی نذر ہو جاتا ہے۔
اس صورت حال کے قومی ساکھ پر اثرات کا جائزہ مقصود ہو تو سڈنی میں قائم لوی (Lowy) انسٹی ٹیوٹ کی تازہ رپورٹ دیکھئے۔ یہ ادارہ ایشیا پاور انڈیکس کے عنوان سے کسی ملک کے وسائل اور اس کے عالمی اثرو نفوذ میں تناسب کی درجہ بندی کرتا ہے۔ ایشیا پیسیفک کے 26 ممالک میں پاکستان پندرہویں نمبر پر ہے۔ خطے میں معاشی تعلقات اور سفارتی رسوخ میں ہمارا درجہ بدترین ہے۔ وسائل موجود ہیں لیکن اس تناسب سے ساکھ موجود نہیں۔ ایک اور زاویہ دیکھئے۔ گلوبل فائر پاور رینکنگ قابل تصدیق ذرائع سے کسی ملک کی عسکری قوت کا تخمینہ لگاتی ہے۔
پاکستان 2020ء میں 15ویں، 2021ء میں 10ویں، 2022ء میں 9ویں نمبر اور 2023ء میں 7ویں نمبر پر آ گیا۔ حوریاں رقص کناں… ملک کے معاشی حالات، سفارتی بے وقعتی اور سامان حرب میں عدم تناسب کے مدنظر 58ء کا موسم خزاں دھیان میں لائیے۔ بنیادی فرق سیاسی قیادت اور غیر سیاسی ترجیحات کا ہے۔ جمہوریت فلمی دنیا نہیں، جہاں آئے روز نئے چہروں کی ضرورت ہو۔ برطانیہ کی لیبر پارٹی 1922ء سے کنزرویٹو پارٹی سے مقابلہ کر رہی ہے۔ کبھی لیبر پارٹی حکومت بناتی ہے اور کبھی کنزرویٹو۔ فیلڈ مارشل منٹگمری کو کبھی خیال نہ آیا کہ ان دو جماعتوں کے مقابلے میں تیسری قوت کھڑی کرنی چاہیے۔ امریکا کی ڈیمو کریٹک پارٹی 1828 اور ری پبلکن پارٹی 1854 میں قائم ہوئیں۔ 1869ء سے یہی دو جماعتیں حکومت یا حزب اختلاف میں رہی ہیں۔ جنرل میکارتھر یا جنرل جارج مارشل کو نااہل، بدعنوان، بدکردار اور روایتی سیاست دانوں کی جگہ دیانت دار اور شفاف قیادت تراشنے کی نہیں سوجھی۔مریم نواز اور بلاول بھٹو کو تو الیکشن لڑنا ہے۔ انتخابی جلسوں میں جذباتی مکالمہ ہوتا ہے۔ 9 فروری کی دوپہر تک ٹی وی سکرینوں پر انتخابی گہما گہمی بے معنی ہیولوں میں بدل جائے گی لیکن کہیں نہ کہیں 25 کروڑ لوگوں کی معیشت، معیار زندگی اور قومی احترام کے بارے میں فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ بیرونی قرض اور ترسیلات زر پر شرم ناک انحصار کم ہو سکے۔ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے پیداوار بڑھانا پڑے گی۔ یہ فیصلے وہ لوگ نہیں کر سکتے جن کی ذہنی سطح ہاؤسنگ سوسائٹی نیز شاہراہ دستور پر’ گرینڈ حیات‘ پلازہ تک محدود ہو۔ قومی ترقی کے لیے سیاسی سازش، خفیہ ویڈیو اور پیوستہ مفادات کا نسخہ کام نہیں دیتا۔ سیاسی عمل سے گوادر حاصل ہوتا ہے، دستور شکنی سے مشرقی پاکستان جاتا رہتا ہے۔ آٹھ ستمبر سے آٹھ دسمبر 58ء تک کل تین ماہ کا سفر تھا۔ اب کے ہم نے 16 برس گنوائے ہیں۔ بخت خان، آنکھ اٹھاؤ کہ 8 فروری 2024 کے پار لمبا سفر ہے۔
جان ہی لیں گے زمانے کی ہوا کو اک روز
یہ ترے شعلہ صفت ایسے گناہ گار نہیں
بشکریہ روزنامہ جنگ