شمالی آئرلینڈ میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نے اس تصور کا دھڑن تختہ کردیا ہے کہ لوگ اور کمیونٹیز ’’قدیم نفرت‘‘ پالتے رہتے ہیں جو گاہے گاہے کشمکش اور جنگ کاباعث بنتی ہے ۔ شمالی آئرلینڈ جو پروٹسٹنٹ فرقے کی غالب اکثریت رکھنے والی آئر لینڈ کی چھ کاؤنٹیز پر مشتمل ہے ، نے گزشتہ ہفتے ایک ایسے کتھولک کو وزیر اعظم منتخب کیا جو آئرلینڈ کے تقسیم کے خلاف ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اس خیال کا خاتمہ کردیا کہ اس علاقے کے کتھولک اور پروٹسٹنٹ ہمیشہ ایک دوسرے سے بر سرپیکار رہیں گے ۔
سین فین (آئرش رپبلکن آرمی کے سیاسی بازو) سے تعلق رکھنے والی مشل او نیل ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی ( ڈی یو پی) کے ایک کٹر نظریات رکھنے والے رکن کے ساتھ شراکت اقتدار کریں گی ۔ڈی یوپی یونینسٹوں میں سب سے زیادہ سخت گیر نظریات رکھنے والی شاخ ہے جسے یقین تھا کہ شمالی آئرلینڈ کے پروٹسٹنٹ ایک الگ قوم ہیں ، اور یہی یقین1921 ء میں آئرلینڈ کی تقسیم کا باعث بنا ۔ 1998ء کے گڈ فرائیڈے معاہدے سے تیس سال پہلے شمالی آئرلینڈ مسائل کی آماجگاہ تھا۔ اُس وقت آئرش رپبلکن آرمی کی دہشت گردی، شورش پسندی اور سخت گیر یونینسٹوں کی طرف سے کیتھولک فرقے کے خلاف پر تشدد کارروائیاں جاری تھیں، جبکہ امن قائم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے برطانوی فورسز طاقت کا استعمال کررہی تھیں ۔ کتھولک ، جوعام طور پر آئرلینڈ کے اکٹھے رہنے کے تصور کے حامی ہیں اور یونینسٹ پروٹسٹنٹ کے درمیان انتہائی دشمنی تھی ۔ لیکن تیس سالہ کشمکش کے بعد طرفین نے شراکت اقتدار کا ایک پیچیدہ معاہدے طے کرلیا ۔
یہ معاہدہ بھی ہنگامہ خیز تاریخ رکھتا ہے ۔ شمالی آئرلینڈ کی اسمبلی ہمیشہ ہموار طریقے سے فعال نہیں رہی کیونکہ سخت گیر یونینسٹ دھڑے اپنی الگ شناخت کے تحلیل ہونے اور بتدریج غیر مسلکی آئرلینڈ میں ضم ہونے کے تصور سے پریشان رہے ہیں ۔ گڈ فرائیڈے امن معاہدے کے سود مند نتائج میں سے ایک یہ تھا کہ اسکی وجہ سے شمالی آئرلینڈ کی معیشت میں بہتری آئی ۔اگرچہ بعد میں اسکی معیشت برطانیہ کے یونین سے نکلنے کی وجہ سے خطرے میں پڑ گئی ہے ۔ خیر آئرش رپبلک تو ابھی تک یورپی یونین میں شامل ہے جب کہ برطانیہ کا حصہ ہوتے ہوئے شمالی آئرلینڈ یورپی یونین سے نکل چکا ہے ۔ جس دوران دونوں ممالک یورپی یونین میں شامل تھے ، یورپ آئرلینڈ کے دونوں حصوں کے ساتھ آزادانہ تجارت کرسکتا تھا۔ لیکن اب یورپی یونین کے رکن آئرلینڈ اور یورپی یونین سے نکل جانے والے آئرلینڈ کیلئے تجارتی شرائط تبدیل ہوگئی ہیں ۔ ڈی یوپی اور سین فین اس پر اور دیگر مسائل پر منقسم رائے رکھتے تھے، اور شمالی آئرلینڈ کے 2022 ء کے انتخابات کے بعد سے ڈی یوپی نے ریجنل اسمبلی کا بائیکاٹ کیا تھا۔
ڈی یوپی کی اسمبلی میں واپسی کو برطانوی حکومت اور پارٹی کے درمیان ہونے والے ایک معاہدے نے ممکن بنا دیا ۔ لیکن چونکہ اس مضمون کاموضوع سابق دشمنوں کے درمیان صلح ہے، نہ کہ شمالی آئرلینڈ کی سیاست کا بیان ، لہٰذا اس موضوع کو ایک طرف رکھتے ہیں کہ کس طرح ایک مرتبہ جب اسمبلی کا اجلاس ہوا، اس نے 2022 ء کے انتخابی نتائج تسلیم کرلئےاور سین فین سے تعلق رکھنے والے ایک کیتھولک کو شمالی آئرلینڈ میں حکومت بنانے کا موقع دے دیا، حالانکہ شمالی آئرلینڈ پروٹسٹنٹوں کی مستقل بالادستی یقین بنانے کیلئے تخلیق کیا گیا تھا۔
اونیل ایک پرعزم آئرش قوم پرست ہے اور اس کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو کتھولک کے خلاف روا رکھے گئے امتیازی سلوک کا شکار ہوا اور گزشتہ دہائیوں کے تنازعات میں اسے جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا۔ اسی طرح اونیل کی نائب فرسٹ منسٹر، ایما لٹل پینگلی آئی آر اے کے بم دھماکوں کی یاد دلاتی ہیں اور اپنے یونینسٹ عقائد پر قائم ہیں۔ لیکن دونوں اس بات پر اصرار کرنے کے بجائے کہ ان کے درمیان جھگڑ اکیا ہے ،دونوں اس پر توجہ مرکوز کرنے پر تیار ہیں کہ ان کا اتفاق کس چیز پر ہوسکتا ہے ۔ اونیل نے اپنے انتخاب کے بعد اعلان کیا کہ وہ یونینسٹ اور ریپبلکن، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک، وہ لوگ جو متحدہ آئرلینڈچاہتے ہیں اور وہ جو ہمیشہ کیلئےبرطانوی رہنا چاہتے ہیں، سب کی فرسٹ منسٹر ہوں گی۔انھوں نے اپنی بات میں اضافہ کرتے ہوے کہا ، ’’ ہم سے پوچھا جا رہا ہے یا توقع کی جا رہی ہے کہ ہم جو ہیں ، اس کی شناخت کو ختم کردیں۔ ہماری وفاداریاں بھی اتنی ہی جائز ہیں۔ لیکن آئیے اس دو طرفہ سڑک پر چلتے ہیں اور اپنے اپنے موقف سے ایک قدم آگے بڑھا کر ایک دوسرے کے ہم قدم ہوتے ہیں ۔ ‘‘
اگرفرقہ واریت سے منقسم شمالی آئرلینڈ، اپنے ’’دو قومی نظریے‘‘ سے بلند ہوکر مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے، تو کیا اسی طرح الگ ہوکر رہنے والی دوسری قومیں بھی کوئی مشترکہ بنیاد تلاش کر سکتی ہیں؟اس کی امید ہی کی جاسکتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مسائل کو ایک طرف رکھ دیا جائے جو تقسیم پیدا کرتے ہیں، اوران مسائل پر آگے بڑھتے ہیں جن پر مشترکہ تشویش پائی جاتی ہے۔ ایک بات تو طے ہے کہ ’قدیم نفرتوں‘ کے بارے میں جو کلچر سابق یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے فوراً بعد مقبول ہوا تھا، دنیا کے کئی حصوں میں مسلسل غلط ثابت ہو رہا ہے۔یہ استدلال کرنا غلط تھا کہ سرب لوگ کروٹس سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے دوران ایک نے دوسرے کے ساتھ کیا کیا تھا یا یہ کہ 1389میں کوسوو پر قبضہ کرنے پر سرب مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے۔ لوگ تاریخی غلطیاں اسی وقت یاد کرتے ہیں جب انھیں مسلسل یاد دلایا جائے۔ نفرت رویوں میں راسخ کی جاتی ہے، اور عام طور پرلیڈروں اور اشرافیہ کی حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ نفرت کی فصل اُگانے کے بعد اسے ختم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن عبوری طور پر، مشترکہ مسائل پر توجہ مرکوز کرنا (جیسا کہ شمالی آئرلینڈ میں کیا جا رہا ہے) ایک اچھا تصور ہے ۔
دسمبر 1996ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں کیے گئے ایک خطاب میں، چین کے صدر جیانگ زیمن نے جنوبی ایشیائی ممالک کو یہی طرز عمل اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بہت مشکل ہے کہ پڑوسیوں کے درمیان گاہے گاہے اختلافات یا تنازعات نہ ابھرآئیں۔ لیکن انھوں نے تجویز کیا کہ ان اختلافات کو بس دور سے دیکھا جائے۔ صدر جیانگ کے مطابق، ’’اگر کچھ مسائل کو فی الحال حل نہیں کیا جا سکتا، تو انھیں عارضی طور پرسرد خانے میں ڈال دیا جائے تاکہ وہ ریاستوں کے معمول کے تعلقات کو متاثر نہ کریں۔‘‘دوسرے لفظوں میں، مستقل جھگڑے پالنا یا دوسروں کو مستقل دشمن سمجھنا کوئی دانائی نہیں ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ