بلوچستان کے بگڑتے حالات : تحریر مزمل سہروردی


ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے بعد بلوچستان میں دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں میں اضافہ نظر آرہا ہے۔ مچھ کے واقعہ نے تو خطرہ کی بہت گھنٹیاں بجا دی ہیں۔ اس لیے میرے نزدیک ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے بعد جہاں یہ تاثر مل رہا ہے کہ پاک ایران تعلقات ٹھیک ہو گئے ہیں۔

وہاں یہ اشارے بھی مل رہے ہیں کہ بلوچستان میں متحرک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف فی الحال ایران کوئی ایکشن لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بلکہ ان کی کارروائیوں میں اضافہ ایسے اشارے بھی دے رہا ہے کہ ان کی خفیہ سہولت کاری میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

پاک ایران کشیدگی کے دوران پہلے ایران نے پاکستان پر حملہ کیا اور کہا کہ انھوں نے ایک دہشت گرد تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے۔ لیکن وہ ایسا کچھ ثابت نہیں کر سکے۔ بلکہ پاکستان کی معصوم بچیوں کی ہلا کت سامنے آئی۔

جواب میں پاکستان نے پہلے سفارتی سطح پر احتجاج کیا۔ بعد میں سفیر واپس بلا لیا اور ایران کا سفیر واپس بھیج دیا۔ لیکن ایران نے معافی نہیں مانگی۔ جس کے بعد پاکستان نے ایرانی صوبے پر جوابی حملہ کیا۔ اس حملہ میں بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں موجود بلوچ دہشت گرد تنظیم کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا گیا ۔

اس حملہ کے بعد ایران نے تسلیم کیا کہ اس میں کوئی ایرانی ہلاک نہیں ہوا۔ بلکہ ہلاک ہونیوالے پاکستانی تھے اور ان کی شناخت بھی بطور دہشت گردوں کی ہی ہوئی۔ ایران نے اس بات کی تحقیقات کا بھی اعلان کیا کہ ایرانی سرزمین پر یہ دہشت گرد کیسے موجود تھے۔ اس طرح پاکستان نے اس حملے سے نہ صرف ایران کو یہ ثابت کیا کہ ایرانی علاقے میں دہشت گردوں کو پناہ میسرہے بلکہ یہ ثابت کیا کہ پاکستان ان کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ پاکستان کے اتنے سخت جوابی حملے کے بعد شائد ایران کوئی رد عمل دے گا۔کچھ دوستوں نے تو پاک ایران جنگ کی بھی پیش گوئی کر دی تھی۔ کچھ دوست کہہ رہے تھے کہ پاک ایران کشیدگی بڑھنے سے ملک میں انتخابات بھی التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

لیکن پاکستانی حملے کے بعد ایران نے حقائق تسلیم کر کے تعلقات نارمل کرنے کے لیے پاکستان سے رابطہ کیا۔ ایران نے یہ مان کر کے پاکستانی حملے میں کوئی ایرانی نشانہ نہیں بنایا گیا پاکستانی حملے کو جائز قرار دے دیا۔ اس لیے پاکستانی حملے کے بعد یک دم حالات نارمل ہو گئے۔ دونوں ممالک کے سفیر واپس آگئے۔

بعدازاں ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ جو لوگ سفارتی طریقہ کا رکو جانتے ہیں انھیں علم ہے کہ ایسی کشیدگی کے بعد اگر دونوں ممالک کے درمیان ملاقات ہونی بھی ہوتو نیوٹرل مقام پر کی جاتی ہے۔ پاک ایران معاملہ پر بہت سے ممالک یہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن اطلاعات یہی ہیں کہ پاکستان کسی نیوٹرل مقام پر ملاقات کے لیے تیار نہیں تھا۔

اس لیے ایرانی وزیر خارجہ کو پاکستان ہی آنا پڑا۔ ایرانی وزیر خارجہ کے دورہ پاکستان کے موقع پر ان کی تمام ملاقاتوں میں پاکستان نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

جس کا بظاہر ایران کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ بس یہی کہا گیا ایک تیسرا ملک دونوں ممالک کے درمیان تعلقات خراب کر رہا ہے۔ پاکستان میں عمومی رائے یہی بنی ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ کااشارہ بھارت کی طرف تھا۔ لیکن انھوں نے بھارت کا نام نہیں لیا۔

افسوس کی بات یہی ہے کہ ایرانی وزیرخارجہ کے دورہ پاکستان کے بعد پاکستان پر دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایران پاکستان کے ساتھ سرحد پر سیز فائر چاہتا تھا تا کہ دونوں ممالک کے درمیان حملے نہ ہوں لیکن دوسری طرف ایرانی فورسز سیستان بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہیں کر پا رہی ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ کے دورے کے بعد دہشت گردوں کی کارروائیوں میں اضافہ پاکستان کے لیے مسائل کا باعث ہے ایسے میں پاکستان اب کیا کرے۔ ایک طرف دونوں ممالک کے درمیان سفیر واپس آگئے ہیں۔

دوسری طرف دہشت گردی بھی بڑھ گئی ہے۔ ویسے تو ایرانی وزیر خارجہ کے دورے سے ایک دن پہلے ایرانی صوبے سیستان بلوچستان میں نو پاکستانیوں کو ایک دہشت گرد کارروائی میں شہید کیا گیا۔ حیرانگی کی بات ہے کہ پہلے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی بلوچستان کی ایک دہشت گرد تنظیم نے اس کارروائی کی ذمے داری قبول کر لی۔ صاف ظاہر بھی ہو رہا تھا کہ پاکستانی حملے میں جو بلوچ دہشت گرد مارے گئے تھے۔

ان کا بدلہ لینے کے لیے معصوم پاکستانیوں کو مارا گیا۔ لیکن جب ایران نے دیکھا کہ دہشت گرد تنظیم کے قبول کرنے سے ایران مشکل میں آرہا ہے کیونکہ واقعہ ایران کی سرزمین پر ہوا ہے۔ پھر اچانک دہشت گرد تنظیم نے بعد میں کہہ دیا کہ انھوں نے کوئی ذمے داری قبول نہیں کی۔ بلکہ جو اعلان سامنے آیا تھا وہ جعلی ہے۔

البتہ مچھ کے و اقعہ کی ذمے داری کھلے عام قبول کر لی گئی ہے۔مچھ کی ذمے داری قبول کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ سامنے نہیں آئی ۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ کسی نے دہشت گرد تنظیم کو سمجھایا ہے کہ آپ ایرانی سرزمین پر اپنی کارروائیوں کو قبول نہ کریں۔ البتہ پاکستان میں جو کارروائی کریں اس کو کھل کر قبول کریں۔

پاکستان میں ایران کے لیے بہت نرم گوشہ موجود ہے۔ پاکستان کے لوگ ایران کے لیے محبت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ لیکن ایران پاکستان کے لوگوں کی محبت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا۔ یہ بھی اب حقیقت ہے۔ایرانی علاقے میں پاکستانی دہشت گرد موجود ہیں۔یہ حقیقت اب کھل کر سب کے سامنے ہے۔

اس لیے کیا پاکستان کو ماضی کی طرح ایران کی اس پالیسی کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرنا چاہیے۔ میری رائے میں اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔ دوہری پالیسی نہیں چل سکتی۔ ایران کو یہ طے کرنا چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ برادرانہ تعلقات رکھنا چاہتا ہے یا وہ بھارت کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کے ساتھ ویسے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں جیسے پاک بھارت تعلقات ہیں۔ ایران دوست بننا چاہتا ہے یا بھارت بننا چاہتا ہے۔ اب یہ ایران کو طے کرنا ہے۔ اب پاکستان کو نرمی نہیں دکھانی چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس