انتخابات، لابی فرمز اور غیر ملکی سفارتکار : تحریر تنویر قیصر شاہد


عام انتخابات تو، الحمد للہ، ہو ہی رہے ہیں ، لیکن اسلام آباد میں متعین بعض غیر ملکی سفارتکاروں کو اتنی چِنتا اور بیقراری کیوں ہے؟ امریکی اور برطانوی سفارتکار اچانک اتنے متحرک کیوں ہو گئے ہیں؟ کیوں ان کی زبانی انتخابات میں سب سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ بارے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے ؟

اِس شبہے کے اظہار کا مقصد و مدعا کیا ہے ؟ کیا قبل از وقت انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات پھیلانا؟ یا انتخابی نتائج کے خلاف عدم اعتماد کی شرلیاں چھوڑنا؟ ابھی چند دن پہلے بنگلہ دیش میں بھی عام انتخابات ہوئے ہیں ۔

حیرانی کی بات ہے کہ ہم نے نہیں دیکھا کہ ڈھاکہ میں متعین امریکی اور برطانوی سفارتکار کھلم کھلا اور آزادانہ طور پر بنگلہ دیشی سیاستدانوں سے مل بھی رہے ہوں اور بنگلہ دیشی انتخابات بارے اپنی آرا کا اظہار بھی کررہے ہوں ۔ پاکستان میں مگر یہ چلن کیوں ؟ یہاں غیر ملکی سفارتکاروں کو کھل کھیلنے کی آزادیاں کیوں؟

ابھی چند دن پہلے پاکستان میں بروئے کار برطانوی ہائی کمشنر ، جین میریٹ، نے جاتی عمرہ میں نون لیگی قائد جناب نواز شریف سے مفصل ملاقات کی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ جس وقت جین میریٹ ، نواز شریف سے ملاقات کررہی تھیں ، محترمہ مریم نواز بھی بنفسِ نفیس وہاں تشریف فرما تھیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ملاقات 8فروری کے انتخابات کے تناظر میں ہوئی۔

نون لیگ کی جانب سے ، اِس ملاقات کے بعد، جو خبر جاری کی گئی، اس میں کہا گیا تھا: برطانوی ہائی کمشنر نے نواز شریف سے دورانِ ملاقات کہا کہ 8فروری کے Inclusive انتخابات پاکستان کے مستقبل کے لیے بڑے Criticalہیں۔

بعد ازاں شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے بھی جین میریٹ سے ملاقات کی لیکن نون لیگی حلقوں کی جانب سے یہ گرہ کشائی کی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ جب برطانوی سفارتکار 8فروری کے انتخابات کو پاکستان کے مستقبل کے لیے انکلیوسیو اور کریٹیکل کہتی ہیں تو اِس کا کیا مطلب ہے؟

یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیر ملکی سفارتکاروں کی ہمارے اہم سیاستدانوں سے ہونے والی ملاقاتوں کے مقاصد یہ ہیں کہ 8فروری کے انتخابات صاف، شفاف اور آزادانہ منعقد ہوں ۔ دراصل اِن تین الفاظ کا ڈھول بجا کر پاکستان اور انتخابات کے خلاف ایک آلودہ فضا پیدا کرنے کی جسارت کی جارہی ہے ۔

اس کا انسداد ہونا چاہیے، لیکن ایسا کریگا کون؟ ہمارے سیاستدان جوپاکستان سے فرار کے بعد امریکا اور برطانیہ میں جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں؟ جہاں ان کی آل اولادیں بھی ہیں اور سرمایہ بھی ۔ ہمارے یہ سیاستدان کیوں اور کیسے غیر ملکی سفارتکاروں کو اپنی اوقات میں رہنے کا کہہ سکتے ہیں؟

نواز شریف جو حال ہی میں برسوں برطانیہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو کر آئے ہیں، ویسے بھی برطانوی حکومت کے شکر گزار ہیں۔ کیا بھارت میں متعین کوئی امریکی اور برطانوی سفارتکار، انتخابات کے دوران، سیاستدانوں اور پارٹی لیڈروں سے ملاقاتیں کرنے کی جرات کر سکتے ہیں؟

مغربی اور غیر ملکی سفارتکاروں سے ملاقاتیں کرنے والے نواز شریف اور شہباز شریف ہی اکیلے سیاستدان نہیں ہیں ۔ اس حمام میں اور بھی کچھ لوگ ہیں کہ امریکیوں اور برطانویوں کی خوشنودی اور آشیرواد تو سبھی کو مطلوب ہے۔ مثال کے طور پر بلاول بھٹو زرداری۔ نواز شریف سے قبل ، اسلام آباد میں، امریکی سفیر، ڈونلڈ بلوم، نے بلاول بھٹو سے ملاقات کی ۔

یہ ملاقات بھی ، محوری طور پر، 8فروری کے انتخابات کے موضوع پر تھی ۔ حیرانی کی بات ہے جب بھی ہمارے حکمرانوں کو اپنی حکومت ختم ہوتے نظر آتی ہے یا وہ زوال کے گڑھے میں گرنا شروع ہوتے ہیں تو امریکی اور برطانویوں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔

یہ رولا بلاول بھٹو کے نانا جان نے بھی ڈالا اور حال ہی میں پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے بھی۔ یہ دعوی بھی درست طور پر کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے کئی سیاستدان خود مغربیوں کے ہاتھوں میں اپنے ہاتھ دینا چاہتے ہیں۔نجانے یہ مجبوری ہے یا ناگزیر ضرورت؟ قاف لیگ اور آئی پی پی کے صدور سے بھی کینیڈین اور برطانوی سفیروں نے ملاقاتیں کی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ 8فروری کے انتخابات میں اعانت اور نصرت کے لیے بھی غیر ملکیوں کی جانب دیکھا جارہا ہے ۔

اِس کی تازہ مثال حال ہی میں سامنے آئی ہے۔ جنوری 2024 کے دوسرے ہفتے خبر آئی کہ پی ٹی آئی نے دو نئی امریکی لابی فرموں کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ اِس کے لیے معاہدہ بھی کر لیا گیا ہے۔ ان امریکی لابنگ اینڈ پبلک ریلیشننگ فرموں کو مبینہ طور پر بھاری معاوضہ بھی دیا گیا ہے۔

امریکا میں موجود پی ٹی آئی کے دو اہم ذمے داران (عاطف خان اور سجاد برکی) نے اِس خبر کی تصدیق بھی کر دی ہے۔عاطف خان کوئی غیر معروف شخص نہیں ہیں۔ حال ہی میں بانی پی ٹی آئی نے انہیں پی ٹی آئی کور کمیٹی میں تعینات کیا ہے ۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران وہ منسٹری آف اوورسیز میں فوکل پرسن کے فرائض انجام دے رہے تھے ۔ عاطف خان کہتے ہیں: ہم نے اِن امریکی لابنگ فرموں سے تین ماہ کے لیے معاہدہ کیا ہے ۔ اِن فرموں کے آگے 10بڑی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا آرگنائزیشنز سے تعلقات ہیں ۔یہ سب مل کر ہمارے مقاصد کو آگے پھیلائیں گی۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران بھی پی ٹی آئی قیادت نے اپنے نجی، گروہی اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ایک امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی تھیں ۔

اس فرم کے مالک کا نامRobert Laurent تھا جو سی آئی اے کے سابق ملازم تھے۔ لیکن اِس بار پی ٹی آئی کی جانب سے ہائر کی گئی نئی امریکی لابنگ فرموں کے مقاصد و اہداف کیا ہیں؟ اِس کا جواب دیتے ہوئے امریکا میں مقیم عاطف خان اور سجاد برکی کہتے ہیں:اصل مقصد 8فروری کے انتخابات ہیں ۔

ان انتخابات میں پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف جو زیادتیاں ، دھاندلیاں ہوں گی ، شفاف انتخابات کو آلودہ کرنے کی جو کوششیں بروئے کار آئیں گی، ہم یہ سب خبریں اپنی لابنگ فرموں کو پہنچائیں گے تاکہ وہ امریکی اور برطانوی میڈیا میں 8فروری کے انتخابات اور مشینری بارے تجزیئے کر سکیں۔ہمارے اداروں کو ایسی امریکی لابنگ فرموں اور انھیں ہائر کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی کہ ہم سب جانتے ہیں کہ یہ امریکی لابنگ فرمیں گند پھیلانے میں کمال درجہ کی مہارت رکھتی ہیں۔

خدا خدا کرکے انتخابات کا ڈول ڈالا جارہا ہے ۔ ساری قوم نے اِن انتخابات سے بڑی توقعات وابستہ کررکھی ہیں کہ ساری پاکستانی قوم مہنگائی ، بے روزگاری، سیاسی بے یقینی اور لاقانونیت سے نجات چاہتی ہے۔ امن، خوشحالی اور معاشی استحکام ہم سب کا خواب ہے۔ ہم سب نے بہت سی قیامتیں،بہت سے عذاب بھگت لیے ہیں۔

مسائل و مصائب کے تسلسل اور بوجھ سے 25کروڑ عوام کے اعصاب شل ہو چکے ہیں ۔ ہم سب روشنی اور امید کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں انتخابات کے دوران اور بعد از انتخابات، کسی کی ہائر کی گئی ، کوئی امریکی لابنگ فرم کھنڈت ڈال دیتی ہے تو ساری قوم اور سارے ملک کے لیے بڑی مشکلات کھڑی ہو جائیں گی ۔ ایسے نازک اور حساس حالات میں، انتخابات کے دوران، ہمیں غیر ملکی سفارتکاروں کی سرگرمیوں اور مذکورہ امریکی لابنگ فرموں اور پاکستان آئے ڈیڑھ سو سے زائد غیر ملکی صحافیوں کے اقدامات پر گہری نظر رکھنا ہوگی ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس