انتخابات شفاف ہونے چاہئیں : تحریر الطاف حسن قریشی


پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمد عبداللّٰہ ایم اے علومِ اسلامیہ میں ہمارے استاد تھے۔ وہ اُردو لٹریچر میں اسلامی اثرات پر لیکچر دیتے ہوئے تحقیق کا ایک چمن کِھلا دیتے تھے۔ وہ کبھی کبھی پنجابی کا ایک شعر پڑھتے جس میں ’گھمن گھیری‘ کے الفاظ شامل تھے۔ وہ اُنہیں شگفتہ لہجے میں دہراتے رہتے تھے۔ اب مَیں نے 2024ء کی انتخابی مہم کے جو عجیب و غریب مناظر دیکھے، تو گھمن گھیری کا مفہوم سمجھ آنے لگا۔ ذہن کو چکرا دَینے والے بیانات، ڈوبنے اور اُبھرنے کے مناظر، جوڑتوڑ کی دھوپ چھاؤں اور بےیقینی میں ڈبکیاں کھاتے ہوئے بھاری لمحات۔ انتخابی دنگل اگرچہ دیر سے سجا، مگر اب ملکی سیاست کا مرکزومحور بن گیا ہے، تاہم کچھ تو موسم بہت سرد ہے اور سینکڑوں لوگ اربابِ اختیار کی پکڑدھکڑ سے خوفزدہ ہیں اور دَہشت گردی اور اَمن شکنی کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کہہ رہے ہیں کہ ہماری جماعت موت کے سائے میں انتخابی مہم چلا رہی ہے۔

مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف کے منشور آ چکے جو زیادہ تر لامحدود خواہشات کے عکاس ہیں۔ نواز لیگ کے قائد جناب نوازشریف جلسۂ عام میں تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ اُن کی سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ جلد سے جلد میری قوم کے لوگ خوشحال ہو جائیں اور اُن کے گھروں میں خوشیوں کے چراغ روشن رہیں۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے دس نکاتی ایجنڈا دِیا ہے اورعوامی معاشی معاہدے کے خدوخال واضح کیے ہیں۔ تحریکِ انصاف کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی قائم کریں گے۔ اِن میں جماعتِ اسلامی کا منشور قدرے حقیقت پسندانہ محسوس ہوتا ہے جس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ قوم کے جاںلیوا مسائل حل کرنے کیلئےدیانت دار قیادت کی ضرورت ہے۔ اِس کا پارلیمانی ریکارڈ اچھا ہے کہ عوام نے اِن کےمحدود کارکن جب بھی پارلیمان میں بھیجے، اُنہوں نے فرض شناسی اور دِیانت داری کا ثبوت دیا اور اَپنا دامن ہر قسم کی آلائشوں سے پاک صاف رکھا۔ آج قومی سطح پر اِس حقیقت کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے کہ جماعتِ اسلامی واحد جماعت ہے جو موروثیت سے ماورا ہے اور جس میں ہر پانچ سال بعد باقاعدگی سے انتخابات ہوتے ہیں۔ اِس بار جماعتِ اسلامی کی قیادت عوام کے مسائل پر بھرپور توجہ دے رہی ہے، اُس سے اِس کی انتخابی قوت میں خاطرخواہ اِضافے کا اِمکان پایا جاتا ہے۔

اِس وقت سب سے اہم ضرورت یہ محسوس کی جا رہی ہے کہ انتخابات واضح طور پر آزاد، شفاف اور منصفانہ نظر آئیں۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور دِیگر جماعتیں بلاروک ٹوک انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ مسلم لیگ نون کے بڑےبڑے جلسوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ وَفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ اِس جماعت نے 2013ء اور 2018ء کے درمیان پاکستان کو اَندھیروں سے نجات دلائی تھی۔ اِس کے دور میں اشیائے خوردنی کی قیمتیں انتہائی ارزاں تھیں اور ملکی معیشت حیرت انگیز طور پر ترقی کر رہی تھی۔ اِسی جماعت کے ممتاز لیڈر پروفیسر احسن اقبال نے گزشتہ برسوں میں اپنے حلقۂ انتخاب نارووال میں ایک معجزہ تخلیق کیا ہے اور اُسے علم کا شہر بنا دیا ہے۔ پانچ یونیورسٹیاں قائم کیں اور کالجوں اور اسکولوں کا ایک وسیع جال بچھ گیا ہے۔ اِن خدمات کی بدولت عوام اِس جماعت پر اعتماد کرتے ہیں جو اِس تلخ حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ بعض جرنیلوں اور جج صاحبان کی ملی بھگت سے وزیرِاعظم نوازشریف اقتدار سے محروم کیے گئے اور وُہ اَور اُن کے قریبی ساتھی سخت اذیتوں سے دوچار ہوئے۔ اِس اکھاڑپچھاڑ کے نتیجے میں پاکستان سنگین بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے، چنانچہ عام شہریوں کے اندر نوازشریف کو دوبارہ اِقتدار میں لانے اور وَطن کو خوشحال دیکھنے کی امنگ پائی جاتی ہے جسے مسٹر بلاول بھٹو شکست دینے پر تُلے ہوئے ہیں۔

بلاشبہ بلاول بھٹو پورے پاکستان میں بھرپور اِنتخابی مہم چلا رہے ہیں اور اُن کا لاہور سے انتخاب لڑنا ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ محترمہ آصفہ بھٹو کا میدانِ سیاست میں آنا بھی ایک خوشگوار اِضافہ ہے۔ جناب آصف زرداری کی نظر میں بلاول بھٹو سیاسی طور پر ابھی ناپختہ ہیں جنہیں سندھ میں انتخابی محاذ کے علاوہ متحرک جماعتِ اسلامی کا بھی سامنا ہے۔ ایک تاثر یہ پھیل رہا ہے کہ جناب عمران خان اور تحریکِ انصاف کو اِنتخابی عمل میں بھرپور حصّہ لینے سے روکا جا رہا ہے۔ دراصل ناتجربےکاری اور خودسری کے باعث عمران خان 9 مئی کی باغیانہ واردات کے مرتکب ٹھہرے ہیں جس نے سیاسی جماعتوں اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کو صدمے سے دوچار کر دیا تھا۔ اب تشویش کی بات یہ ہے کہ انتخابات کے آخری مرحلے میں مقتدر طاقتیں بےتدبیری کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ سائفر کیس میں خصوصی عدالت نے جس بےڈھنگےپن سے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اِنتخابات سے آٹھ روز پہلے دس دس سال قید بامشقت کی سزا سنائی ہے، وہ محلِ نظر ہے۔ اِس سے بھی زیادہ عاقبت نااندیشی توشہ خانہ فوجداری کیس میں احتساب عدالت نے دکھائی جس نے عمران خان اور اُن کی اہلیہ کو چودہ چودہ سال قید بامشقت کی سزا کے علاوہ مجموعی طور پر ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کر دیا اور عمران خان کو دس سال کیلئے نااہل بھی قرار دَے دیا۔ تمام سنجیدہ حلقے چاہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کو پُرامن اِنتخابی ریلیاں نکالنے کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ ساری دنیا دیکھ سکے کہ انتخابات کھلی فضا میں منعقد ہو رہے ہیں۔

اِس وقت یہ امر خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ تمام تر اِختلافات کے باوجود عمران خان اِنتخابات کو فوج کے خلاف استعمال کرنے سے اجتناب کریں، کیونکہ اِس نوع کی رپورٹیں گردش میں ہیں کہ باہر سے بھاری رقوم پی ٹی آئی کے امیدواروں کو منتقل کی جا رہی ہیں تاکہ غیرملکی طاقتوں کی ایما پر افواجِ پاکستان کا امیج خراب کیا جائے۔ انتخابات میں بیرونی اثرورسوخ پاکستان کی خودمختاری کیلئے سمِ قاتل ہو گا۔ وقت کا اہم تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک ضابطۂ اخلاق طے کریں اور ماحول پُرامن رکھنے میں ریاستی اداروں سے تعاون کریں۔ دہشت گردی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور اِنتخابات کے دن ٹرن آؤٹ کا مسئلہ ایک سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ