نئے کرنسی نوٹ لانے کا فیصلہ : تحریر مزمل سہروردی


گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ ملک میں ساری کرنسی تبدیل کرنے کے لیے نئے کرنسی نوٹوں کی ڈیزائنگ کا کام شروع ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں جو پاکستانی کرنسی موجود ہے، اس کو ختم کرکے نئے نوٹ لانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ میری رائے میں یہ درست اقدام کیا جا رہا ہے بلکہ پاکستان نے ایسا کرنے میں بہت دیر کر دی ہے۔

معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت 341ارب سے زائد کالا دھن موجود ہے۔ یہ کالا دھن وہ پیسا ہے جو ٹیکس نیٹ میں نہیں ہے۔ اس کا پاکستان کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہ کالا دھن چوری کا پیسہ ہے۔

لوگوں نے یہ پیسہ حکومت سے چھپا کر رکھا ہوا ہے۔ اس پیسے کی وجہ سے پاکستان کو ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ ہماری جی ڈی پی کا چالیس فیصد ہے اور اس کی وجہ سے ہماری چھ فیصد جی ڈی پی ہر سال چوری ہو جاتی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں کالے دھن کے ساتھ آج کے دور میں کسی بھی ملک کا چلنا عملی طور پر نا ممکن ہے، اسی لیے پاکستان کے معاشی مسائل بھی ہمارے سامنے ہیں۔ پاکستان میں لوگوں کے پاس بہت دولت ہے لیکن عملی طو رپرملک غریب ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ عوام امیر ہو تو ملک غریب رہ جائے۔ کیونکہ عوام کے پاس اگر پیسہ ہے تو وہ ٹیکس دیں گے اور ملک امیر ہو جائے گا۔ لیکن چالیس فیصد کالے دھن سے ہم کوئی ٹیکس بھی لینے کے قابل نہیں ہیں۔

اس کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے پاکستان نے بہت کوشش کی ہے۔ ایک نہیں ان گنت ایمنسٹی اسکیمیں دی گئی ہیں۔ لوگوں کو بار بار موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنا کالا دھن، سفید کر لیں۔ لیکن کامیابی نہیں ہوئی ہے۔ نان فائلرز پر خصوصی ٹیکس لگائے گئے۔

جس کا مقصد بھی یہی تھا کہ لوگ فائلر بن جائیں اور اپنے کالے دھن کو سفید کریں۔ لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ لوگ نہ تو ٹیکس دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اپنا کالا دھن سفید کرنے کے لیے تیار ہیں۔

ایسے میں اب پاکستان کے پاس کیا آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ ایک رائے یہ تھی کہ ایک نئی ایمنسٹی دے دی جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایمنسٹی بہت دے کر دیکھ لیا ہے۔ اس کا بہت محدود فائدہ ہوتا ہے بلکہ لوگوں میں کالا دھن جمع کرنے کا رحجان بڑھتا ہے۔ اس لیے اب پاکستان کو ایسی سخت قانون سازی کرنی چاہیے کہ کوئی ایمنسٹی نہیں ہوگی۔ بلکہ کالے دھن کو پکڑا جائے گا۔

عام شہری نئے کرنسی نوٹ لانے کا وہی مطلب سمجھ رہا ہے جیسے بھارت میں نوٹ بندی ہوئی تھی۔ میں سمجھتا ہوں عام آدمی ٹھیک سمجھ رہا ہے، پاکستان میں نوٹ بندی ہونے جا رہی ہے۔ لیکن ہمیں بھارت سے بھی سخت نوٹ بندی کرنی ہوگی۔

ویسے تو بھارت میں بھی بہت سخت نوٹ بندی کی گئی تھی۔ یہ درست ہے کہ بھارت میں کالے دھن کا معاملہ بھی بہت سنگین تھا۔ ایک وقت میں بھارت دنیا میں کالے دھن کے معاملے میں سر فہرست تھا۔ اس لیے وہاں بھی نوٹ بندی کے سواکوئی آپشن نہیں تھا۔ بھارت نے بھی کالے دھن کو سفید کرنے اور ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا ۔ آخر میں نوٹ بندی ہی کرنی پڑی۔

کالے دھن کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک وہ کالا دھن جو ملک سے باہر چلا جاتا ہے۔ جیسے پاکستانی اپنا کا لا پیسہ باہر لیجاتے ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے فیٹف کے نئے قوانین سامنے آرہے ہیں۔ تمام ممالک میں سختی شروع ہو گئی ہے۔

مجھے لگتا ہے آیندہ چند سالوں میں غیر قانونی طریقہ سے آپ کسی بھی ملک میں پیسے لیجا کر کچھ بھی نہیں کر سکیں گے۔ لیکن پاکستان کا اصل مسئلہ پاکستان کے اندر موجود کالا دھن ہے۔ جیسے بھار ت کا مسئلہ بھی بھارت کے اندر موجود کالا دھن تھا،اس کالے دھن کی پیدا وار روکیں گے تو ملک سے باہر کالے دھن کی برآمد بھی روکی جا سکے گی۔

میں سمجھتا ہوں کہ نئے نوٹوں کے آنے سے پہلے ہی آج سے بینکوں کو سخت ہدایات جاری کی جانی چاہیے۔ لوگ اب کسی نہ کسی طرح اپنا پیسہ بینکوں میں جمع کرانے کی کوشش کریں گے۔ ایک آدمی کتنے بینک اکاؤنٹ کھول سکتا ہے، اس کی بھی کوئی حد ہونی چاہیے۔ ایک ایک آدمی نے کئی کئی بینک اکانٹ کھولے ہوتے ہیں۔

اس لیے جب پاکستان میں نوٹ بندی کی جائے اورنئے نوٹ لائے جائیں تو ایسے اقدمات کرنے چاہیے کہ کالا دھن سفید نہ ہوسکے۔ ایک دوست کی رائے ہے کہ سب کو نئے نوٹ مل جائیں گے، فکر کی کوئی بات نہیں۔وہ شاید گورنر اسٹیٹ بینک کی اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا ہے کہ پاکستان میں نئے نوٹ اس لیے لائے جا رہے ہیں کیونکہ جعلی نوٹوں کی شکایات بہت بڑھ گئی تھیں۔ میں نہیں سمجھتا ایسا ہے۔ معاملہ کالے دھن کا ہی ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ ختم کر دینا چاہیے،معاشی ماہرین کی رائے ہے کہ پانچ ہزار کا نوٹ بند کرنے کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات آئیں گے۔لیکن ابھی تک نئے نوٹ لانے کا فیصلہ تو ہوا ہے۔ لیکن پانچ ہزار کا نوٹ بند کرنے کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ البتہ پانچ ہزار کا بھی نیا نوٹ آرہا ہے۔

پاکستان میں لوگوں نے لاکھوں کروڑوں روپے کیش رکھے ہوئے ہیں۔ لوگ بینکوں کے لاکر میں کیش رکھتے ہیں۔ ویسے تو بینکوں کے لاکر میں ڈالرز،پاؤنڈز ،یورو،سعودی ریال اور یواے ای درہم رکھے ہوئے ہیں لیکن پاکستان روپے بھی رکھے ہوئے ہیں۔گھروں میں کیش موجود ہے۔ دکانوں میں تجوریوں اور سیف موجود ہیں جن میں کیش کی بڑی رقم موجود ہے۔ یہ سب کالا دھن ہے۔

کیونکہ اس پر ٹیکس نہیں ادا کیا گیا ہے۔ یہ چوری کا پیسہ ہے۔ نئے نوٹ لانے کا تب ہی فائدہ ہے کہ یہ بس ضایع ہو جائے۔ یہ لوگ اس پیسے کے نئے نوٹ نہ لے سکیں۔ ایک خاص حد سے زائد کوئی بھی پرانے نوٹ دے کر نئے نوٹ نہ لے سکے۔ صرف بینکوں میں جو رقم جمع ہے صرف اسی کے لیے نئے نوٹ مل جائیں۔ اگر کوئی کہے کہ میرے دس لاکھ بدل دیں تو پہلا سوال ہی یہ ہونا چاہیے کہ تم نے دس لاکھ کیش کیوں رکھا ہوا تھا۔ کہاں سے آیا ؟ کیوں بدلا جائے؟ پہلے منی ٹریل دو۔ اس لیے بہت سخت پالیسی بنانی ہوگی، تب ہی فائدہ ہے ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔

ایک سوال سب پوچھتے ہیں کہ بھارت کو نوٹ بندی کا کیا فائدہ ہوا ۔ تو عالمی اداروں کے اعدادو شمار کے مطابق صرف پانچ سو اور ایک ہزار کے نوٹوں کی تبدیلی سے بھارت میں کالا دھن 75فیصد سے کم ہو کر بیس فیصد ہو گیا۔ بینکوں میں اسی فیصد رقم پہنچ گئی۔ اور آن لائن پے منٹ پچاس فیصد تک پہنچ گئی ۔ اس لیے یہ کہنا اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا غلط ہے۔ وہاں کالا دھن آج بھی ہے لیکن دیکھنے کی بات ہے کتنا کم ہوا ہے۔ پاکستان کو بھی ایسا ہی راستہ لینا ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس