اتوار کے دن اپنے گھر سے باہر کئی گھنٹے گزارے ہیں۔ آوارہ گردی اس کی وجہ نہیں تھی۔ ریٹائرڈ ہوا رپورٹر گھر سے اس لئے باہر آیا کیونکہ اس روز تحریک انصاف کے امیدواروں کو اپنے حلقوں میں متحرک ہونے کا حکم صادر ہوا تھا۔ اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کے ذریعے یہ حکم صادر کرتے ہوئے بانی تحریک انصاف نے واضح الفاظ میں یہ اعلان بھی کردیا کہ تحریک انصاف کا نامزد کردہ جو امیدوار اپنے حلقے میں تحریکی فضا بنانے میں ناکام رہا اس کی جگہ کسی اور شخص کو نامزد کردیا جائے گا۔
تحریک انصاف سے تعلق کے دعوے دار بہت سے افراد اپنی جماعت کی جانب سے باقاعدہ نامزد نہ ہونے کے باوجود ملک بھر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے کئی حلقوں میں بطور آزاد امیدوار کھڑے ہوچکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کے کاغذات نامزدگی باقاعدہ قرار پائے اور انہیں انتخابی نشان بھی الاٹ ہوچکا ہے۔ ملکی سیاست کے مجھ ایسے طالب علموں کو شبہ تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے جان بوجھ کر اپنی جماعت کی وافر تعداد کو ٹکٹ نہ دینے کے باوجود انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ نظر بظاہر یہ حربہ اس لئے استعمال ہوا کہ اگر تحریک انصاف کی جانب سے باقاعدہ انداز میں نامزد امیدوار آخری لمحات میں نااہل ہوجائے یا اسے متعدد مقدمات میں گرفتار کرنے کے بعد انتخابی اکھاڑے سے غائب کردیا جائے تو اس کا متبادل میدان میں موجود ہو۔ تحریک انصاف کی قیادت اور حامیوں کو کامل یقین ہے کہ پولنگ کے روز ان کی جانب سے اپنایا کھمبا بھی جیت جائے گا۔ امیدوار کی ذاتی شخصیت اس تناظر میں کسی اہمیت کی حامل نہیں۔ووٹ درحقیقت قیدی نمبر804 کا ہے جو اس کی جانب سے آخری لمحات پر بھی اپنائے امیدوار کو بآسانی مل جائے گا۔
تحریک انصاف نے جو حکمت عملی اپنائی تھی پہلی نظر میں تخلیقی اور کارگر نظر آئی۔میرے جو دوست مگر حلقوں میں سروے وغیرہ کرنے گئے ہیں مجھے بتارہے ہیں کہ کئی مقامات پر لوگ کنفیوژ ہیں کہ تحریک انصاف کا اصل امیدوار کون ہے۔ خیبرپختونخواہ کے کئی حلقوں میں تحریک انصاف کی جانب سے نامزدگی کے دعوے دار کئی امیدواروں کو اب شوکاز نوٹس بھیجے گئے ہیں۔ان سے تقاضہ ہوا کہ وہ تین روز کے اندر انتخابی میدان سے دستبردار ہوجائیں۔میری خواہش تھی کہ انتخابی عمل پر نگاہ رکھنے والے چند رپورٹر اعدادوشمار کی بدولت یہ بتائیں کہ بالآخر کتنے فی صد امیدوار تحریک انصاف کے حقیقی نمائندہ ہیں۔ میری نظر میں اگرچہ ایسی رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے۔
تحریک انصاف کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ (نون) سے وابستہ چند افراد بھی اپنی جماعت کی جانب سے ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود آزاد امیدوار کی حیثیت میں انتخابی میدان میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ ٹکٹوں کی تقسیم نے جو گھڑمس مچایا اس کا نتیجہ ہم چند دن قبل راولپنڈی کے لیاقت باغ میں دیکھ چکے ہیں۔مجھ جیسے پرانی وضع کے رپورٹر یہ طے کئے بیٹھے تھے کہ راولپنڈی میں اپنی جماعت کے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کے لئے نواز شریف بذاتِ خود لیاقت باغ میں ہوئی ریلی سے خطاب کریں گے۔ وہ مگر یہاں تشریف نہیں لائے۔ شہبازشریف کو اپنی نمائندگی کے لئے بھیج دیا اور لیاقت باغ میں ہوا جلسہ جلوہ نہیں لگاپایا۔
حسبِ عادت اصل موضوع سے بھٹک گیا ہوں۔اتوار کے دن طویل عرصے کے بعد رپورٹر کی طرح گھر سے نکل کر سڑکوں پر خجل خوار ہونے کی وجہ بیان کرنا تھی۔ وجہ اس کی فقط یہ تھی کہ میں جاننا چاہ رہا تھا کہ اسلام آباد میں کونسے مقامات پر تحریک انصاف کے امیدار یا حامی کوئی بڑا شولگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسی کاوش مجھے ٹھوس انداز میں لیکن کہیں نظر نہیں آئی۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ حیرت اس حلقے کے بارے میں ہوئی جہاں سے تحریک انصاف 2013 سے قومی اسمبلی کی نشست جیت رہی ہے۔اسد عمر نے دوبار اس نشست کو جیتا تھا۔ اس حلقے میں اگر گولڑہ شریفمرکز تصور کرلیا جائے تو اِردگرد کے علاقوں میں چند کچی بستیاں بھی ہیں۔ خیبرپختونخواہ سے اسلام آباد منتقل ہوئے بے تحاشہ گھرانے بھی اس حلقے میں آباد ہوچکے ہیں۔ مجھے گماں تھا کہ کم از کم اس حلقے میں تحریک انصاف کے امیدوار اور کارکن مختلف مقامات پر گرم جوش انداز میں جمع ہونے کی کوشش ضرور کریں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ راولپنڈی کے چند رپورٹروں سے بھی میں مسلسل رابطے میں رہا۔ وہاں سے بھی ایسی ریلیوں کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں جو عمران خان کے حکم پر جذباتی انداز میں عمل پیرا ہوئی نظر آئیں۔
خطہ پوٹھوہار میں مسلم لیگ (نون)2013 سے بتدریج اپنا اثر کھونا شروع ہوگئی تھی۔2018 کے انتخابات میں تحریک انصاف نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس علاقے میں تحریک انصاف کا ووٹ بینک اب بھی بہت توانا ہے۔ تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹروں میں سے 15افراد کے ساتھ میں روزانہ دو سے تین مرتبہ گفتگو کرتا ہوں۔ان میں سے فقط دو افراد اپنے موبائل کے ذریعے یہ معلوم کرچکے ہیں کہ ان کے حلقے میں تحریک انصاف کا حقیقی امیدوار کون ہے اور وہ 8فروری کے دن اس کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کو ڈٹے ہوئے ہیں۔بقیہ افراد عموما مایوسی کا اظہار کرتے ہیں۔ان کی دانست میں فیصلہ ہوچکا ہے کہ اب کی بارنواز شریف کو جتوانا ہے۔ ووٹ ڈالنے کا لہذا ان کی دانست میں کوئی فائدہ نہیں۔ انتخابی عمل سے ایسی لاتعلقی مجھے پریشان کررہی ہے۔ اس کی شدت 2018 سے تقریبا دوگنی محسوس ہورہی ہے۔
گرائونڈ کی صورتحال جو بھی ہو تحریک انصاف کی قیادت کو مگر قائل کردیا گیا ہے کہ گزرے اتوار کے دن لوگوں کی موثر تعداد اپنے گھروں سے نکلی ہے۔ کراچی میں اس تناظر میں ہوئے پلس مقابلے کو بہت اہمیت دی جارہی ہے۔خیبرپختونخواہ میں ٹانک میں ہوئے اجتماع کو بھی بہت سراہا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب کے چند قصبوں میں ہوئے اجتماعات نے بھی قیدی نمبر804 کا حوصلہ بڑھادیا ہے۔ اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کا اپنایا جارحانہ رویہ اس اعتماد کا اظہار تھا جو میری دانست میں انہیں اتوار کے روز ہوئے اجتماعات کی اطلاعات نے فراہم کیا۔ ان کے اعتماد کو زیادہ تقویت اسلام آباد میں پھیلی ان سرگوشیوں نے بھی فراہم کی ہوگی جو دعوی کررہی ہیں کہ اسلام آباد اور پنجاب کی نگران حکومتوں میں بیٹھے کئی افراد ا توار کے روز تحریک انصاف کی کال پر ہوئے اجتماعات سے گھبراگئے ہیں۔ ان کی جانب سے ایک بار پھر اسے بنیاد بناتے ہوئے انتخاب موخر کروانے کی کاوشیں شروع ہوگئی ہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت