جرمنی نے تو امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا : تحریر وسعت اللہ خان


امریکا پر تو خیر کیا اثر ہو گا البتہ غزہ پر اسرائیلی فوج کشی کو تقریبا نسل کشی قرار دینے کی بابت بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی عبوری رولنگ میں اسرائیل کے ممکنہ مواخذے کی رائے سامنے آنے کے بعد یورپی یونین میں اسرائیل کا غیر مشروط ساتھ دینے کے بارے میں اختلاف بڑھ گیا ہے۔

مثلا سلووینیا نے یہ رولنگ سراہتے ہوئے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق عالمی عدالت میں دائر ایک اور درخواست کا بھی حمایتی ہے۔آئرلینڈ نے بھی اس معاملے میں فلسطین کے پلڑے میں وزن ڈال رکھا ہے۔جب کہ اسپین کی مخلوط حکومت بٹی ہوئی ہے۔

بائیں بازو کی ایک اتحادی جماعت سومار پارٹی فوری جنگ بندی کی حامی ہے اور اس کی حامی ایک خاتون وزیر حال ہی میں حکومت کی جانب سے گومگو کے موقف کے خلاف بطور احتجاج استعفی دے چکی ہیں۔ جب کہ بیلجیئم نے بھی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے تاکہ بین الاقوامی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں متاثرہ آبادی تک انسانی امداد کی ہنگامی فراہمی کا در کھل سکے۔
دوسری جانب یورپ کے اسرائیل نواز ممالک بھی اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔برطانیہ تو خیر اس معاملے میں امریکا کا دائمی مرید ہے۔البتہ آسٹریا، چیک جمہوریہ ، ہنگری اور ہالینڈ بھی بدستور اسرائیل کو مظلوم سمجھنے پر بضد ہیں۔فرانسیسی وزیرِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو نسل کش سمجھنا تمام مروجہ اخلاقی اقدار پھلانگنے کے برابر ہے اور فرانس اس بارے میں اسرائیل کے شانہ بشانہ ہے۔

جرمنی نے تو اس معاملے میں امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر نسل کشی کی پیٹیشن کی اگلی سماعتوں میں اسرائیل کے حق میں فریق بننے کی بھی درخواست کی ہے۔ایسی وفاداری تو سترہ رکنی بنچ میں شامل اسرائیلی جج نے بھی نہیں دکھائی جس نے اسرائیل پر عائد پانچ میں سے دو الزامات سے اتفاق کیا ہے۔

نمیبیا نے جرمنی کی اسرائیل سے اندھی محبت اور بین الاقوامی عدا لتِ انصاف کی رولنگ مسترد کرتے ہوئے مقدمے میں فریق بننے کے اعلان پر صدمے کا اظہار کیا ہے۔آپ پوچھ سکتے ہیں کہ نمیبیا جیسے دور دراز افریقی ملک کا ذکر اچانک کیوں آ گیا اور اس کا جرمنی کے موقف سے کیا لینا دینا ؟

یہ بات ہے اٹھارہ سو چوراسی کی جب برلن میں تیرہ یورپی سامراجی طاقتوں کی سال بھر طویل کانفرنس کا انعقاد ہوا۔اس کانفرنس میں امریکا بھی شریک تھا۔میز پر افریقہ کا نقشہ پھیلا کے بندربانٹ ہوئی اور جرمنی کے حصے میں تنزانیہ (زنجبار، ٹانگا نیکا) اور نمیبیا آیا۔نمیبیا کا رقبہ کم و بیش جرمنی کے ہی برابر ہے مگر آبادی محض ڈھائی لاکھ ہے۔

جب برلن کانفرنس میں افریقہ کا تھان کھول کے اسے بانسوں کے گز سے ناپا گیا تو جرمنی بھی قبضہ لینے نمیبیا پہنچا اور پسماندہ مکینوں کی اس سرزمین پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے لگ بھگ پانچ ہزار جرمن آبادکاروں کو بسایا گیا ( جیسے یہودی آبادکاروں کو مقبوضہ فلسطین میں بسایا گیا )۔

سب سے بڑے دو قبائل ہریرو اور ناما کو ایک مخصوص علاقے میں دھکیل دیا گیا ( جیسے اسرائیل نے فلسطینیوں کو دھکیلا )۔جس جس نے مزاحمت دکھائی اسے کوڑے مارے گئے یا پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

اکتوبر انیس سو چار میں ہریرو اور ناما نے اجتماعی بغاوت ( انتفادہ ) کر دی اور لگ بھگ ایک سو بیس جرمن آبادکاروں کو قتل کر دیا (جیسے سات اکتوبر کو حماس نے کیا )۔ قبائلیوں کے پاس تیر کمان ، نیزے اور بھالے تھے اور ڈیڑھ ہزار جرمن فوجیوں کے پاس توپیں اور مشین گنیں۔

غاصب جرمن فوجی کمانڈر جنرل لوتھر وان ٹروٹھا نے حکم جاری کیا کہ ہر مسلح و غیر مسلح ہریرو اور ناما کو اس کے جانوروں سمیت مار دیا جائے۔ان کی عورتوں اور بچوں کو بیابانوں میں دھکیل دیا جائے اور اگر وہ کہیں دوبارہ نظر آئیں تو اڑا دیا جائے ۔

( جرمن جنرل کے اس فرمان کے ایک سو انیس برس بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے غزہ کے فلسطینیوں کی نسل کشی کو جائز قرار دینے کے لیے تورات کی آیات کا حوالہ دیا۔جن میں بنی اسرائیل کے حریف صحراِ سینا میں آباد قدیم امالک قبیلے کے ہر مرد اور بچے کو جانوروں سمیت قتل کرنے اور ان کی املاک مٹا دینے کی بھی ہدایت کی گئی۔ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کو جدید زمانے کا امالک قرار دیا جو یہودیوں کے خون کے پیاسے ہیں لہذا انھیں بھی صفحہِ ہستی سے مٹا دینا چاہیے)۔

جب انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں قائم نظربندی کیمپ ختم کر دیے گئے۔تب تک اسی فیصد ہریرو قبائلی ( نوے ہزار ) اور نصف ناما قبیلہ ( بیس ہزار ) مٹ چکا تھا۔

کنسنٹریشن کیمپوں میں قید بچی کھچی آبادی کو مسلح جرمن آبادکاروں کی جبری بیگار پر لگا دیا گیا۔یہ فرمان بھی جاری ہوا کہ نافرمانوں کے قتل کی صورت میں آبادکاروں پر کرمنل دفعات لاگو نہیں ہوں گی۔

ہریرو اور ناما کا قتلِ عام بیسویں صدی کی پہلی منظم نسل کشی تھی۔سیکڑوں کھوپڑیاں نمبر لگا کے جرمنی کی جامعات، اسپتالوں اور عجائب گھروں تک پہنچائی گئیں۔وہاں عمرانیات اور اینتھروپولوجی کے ماہرین نے ان کھوپڑیوں کی ناپ تول کر کے نسلی برتری و کمتری کے بارے میں اپنے نظریات کو سائنسی انداز میں سیقل کیا ( ان میں سے کچھ کھوپڑیاں دو ہزار اٹھارہ میں نمیبیا کو واپس کی گئیں جہاں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے بعد انھیں سپردِ خاک کر دیا گیا )۔

گویا جرمنوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران کنسنٹریشن کیمپوں میں نسلی برتری کے نشے میں یہودیوں کی جس صنعتی پیمانے پر نسل کشی کی۔اس کی بنیاد نمیبیا میں انیس سو چار تا آٹھ نسل کشی ، کنسنٹریشن کیمپوں کے قیام اور جبری مشقت کے تجربات اور مقتولوں کی کھوپڑیوں کا حجم ناپنے کی بنیاد پر سائنسی انداز میں نسل کشی کا پائلٹ پروجیکٹ تھا۔جسے جرمنوں کی اگلی پڑھی لکھی پیڑھی نے صنعتی پیمانے پر اختیار کیا۔

آج نمیبیا میں جرمن آبادکاروں کی آبادی محض دو فیصد ہے مگر ستر فیصد قابلِ زراعت اراضی ان کی ملکیت ہے۔انیس سو آٹھ میں نمیبیا میں ہیروں کی کانیں دریافت ہوئیں۔ان کی بدولت ایک عرصے تک ہیروں کی تیس فیصد عالمی تجارت پر جرمن تسلط تھا۔مجموعی طور پر جرمنی نے نمیبیا کی کتنی زمینی دولت لوٹی اس کا کوئی منظم تخمینہ نہیں مگر بدلے میں کیا ہرجانہ دیا ؟

ایک سو سترہ برس بعد دو ہزار اکیس میں جرمنی نے ان مظالم پر نمیبیا سے باقاعدہ معافی مانگی۔نمیبیا کو تین برس کی سودے بازی کے بعد بطور ہرجانہ لگ بھگ ڈیڑھ ارب یورو دینے پر رضامندی ظاہر کی۔مگر متاثرین کے ورثا نے اس قلیل معاوضے کو قومی توہین قرار دیتے ہوئے اسے نمیبیا کی سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔مقامی اور جرمن حکومت کو عدالت نے نوٹس جاری کر دیے اور یہ مقدمہ اب تک زیرِ التوا ہے۔

اس کے برعکس دوسری عالمی جنگ کے دوران یہود نسل کشی کے سبب جنم لینے والے جرمن قومی احساسِ جرم کو اسرائیل آج تک اپنی نسل کش پالیسیوں کے باوجود کیسے کیش کر رہا ہے اور جرمنی کیسے اسرائیل کی پالتو گائے بنا ہوا ہے۔اگلی قسط میں روشنی ڈالی جائے گی۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس