حکومتِ پاکستان بھی اب تک امدادی سامان سے لدے تین چار جہاز غزہ کے مظلوم ومقبوضہ فلسطینیوں کے لیے بھجوا چکی ہے۔
یہ امدادی سامان بد قسمتی سے براہِ راست غزہ کی پٹی تک نہیں پہنچ سکا ہے بلکہ اِس کے لیے مصر اور اردن کا واسطہ استعمال کرنا پڑا ہے۔ مبینہ طور پر جماعتِ اسلامی پاکستان نے بھی ڈیرھ ارب روپے کے چندے کا سامان غزہ کے لیے ارسال کیا ہے ۔ غزہ کے مظلوم شہری اِس وقت قحط کی سی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔
انھیں متنوع قسم کے سامانِ خورونوش، ادویات اور اسپتالوں کے لیے میڈیکل سامان کی شدید ضرورت ہے۔ ایسے پرآزمائش لمحات میں برطانیہ میں بروئے کار ایک مسلمان این جی او ( المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ) کے چیئرمین، جناب عبدالرزاق ساجد، شاید واحد ایک ایسے عالمی خدمتگزار ہیں جو اِن ایام میں غزہ کے شہریوں کی امدادو اعانت کے لیے بار بار فلسطین پہنچے ہیں ۔اگرچہ خدمت کی اِس تگ و دو میں انھیں مصر، مغربی کنارے اور اردن کے سہارے بھی استعمال کرنا پڑے ہیں ۔
وہ چند دن پہلے ہی ، جنوری2024کے تیسرے ہفتے، غزہ اور مصر کے درمیان پڑنے والی12کلومیٹر لمبی سرحد (رفح) پر کئی دن گزار کر واپس لندن پہنچے ہیں ۔ لندن سے بذریعہ فون بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا:
دِل پر صبر کی سِل رکھ کر رفح کے بارڈر پر غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی حالتِ زار دیکھنا پڑتی ہے ۔ان کی مظلومیت اور محتاجیاں دیکھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ عالمِ اسلام کے حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر بھی دل بھر بھر آتا ہے ۔اب تک25ہزار سے زائد غزہ کے شہری اسرائیلی افواج کے ہاتھوں شہید ہو چکے ہیں۔
ان میں 10ہزار بچے بھی شامل ہیں۔ غزہ کی سرحد پر کھڑے ہو کر میں نے دیکھا کہ بمشکل اگر ایک امدادی ٹرک رفح سے گزرتا ہے تو ہزاروں کی تعداد میں بھوکے بچے اور خواتین ٹوٹ پڑتے ہیں۔ رفح کی سرحد پر تین ہفتے قیام کے دوران ہمارے ادارے(AMWT) نے ڈیڑھ ملین پونڈز کا سامانِ خورونوش، ادویات ، گرم کپڑے و کمبل خیمے ، حاملہ خواتین کے لیے خصوصی سامان تقسیم کیا ہے ۔
الحمد للہ ۔ ساجد صاحب نے بتایا : 365مربع کلومیٹر پر محیط غزہ کے تمام اسپتال اسرائیل تباہ کر چکا ہے ؛ چنانچہ اِس وقت غزہ کو اسپتالوں کے Medical Equipmentsکی اشد ضرورت ہے۔ ہم نے اردن سے ساڑھے چار لاکھ پونڈز کا یہ میڈیکل سامان خریدا ہے ۔ ان میں تین ایمبولینسیں بھی شامل ہیں ۔ اب رفتہ رفتہ یہ سامان غزہ پہنچ رہا ہے ۔
بقول عبدالرزاق ساجد:میں نے رفح بارڈر پر کھڑے ہو کر، جنوری کے ڈھائی تین ہفتوں کے دوران، غزہ کے باسیوں ، فلسطینی شہریوں کی بے بسی، بیکسی اور شدید محتاجی و عسرت کے ہزاروں دل دہلا دینے والے مشاہدات، مناظر دیکھے ۔ خاص طور پر فلسطینی بچوں اور خواتین کی بے بسی اور احتیاجیں تو دیکھی نہیں جاتیں۔
رفح بارڈر کی ہر شئے قابض و غاصب اسرائیلی فوجوں کے پاس ہے ۔المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین، عبدالرزاق ساجد، اپنے براہِ راست مشاہدات کی بنیاد پر بتاتے ہیں: کوئی 16برس قبل اسرائیل اور مصر کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی بنیاد پر غزہ کی پٹی اور مصر کے درمیان پائی جانے والی یہ تنگ سی سرحد (رفح) پر مصر کا کنٹرول ہوگا ۔
رفح کو مگر عبور کرنے اور یہاں سے کوئی بھی شئے غزہ کی پٹی کے اندر لے جانے کے لیے اسرائیل کی اجازت ضروری ہے ؛ ہمیں بھی اپنی ادویات، خورونوش کی اشیا ، گرم کمبل و کپڑے اور خیمے غزہ پٹی کے اندر ضرورتمندوں تک لے جانے کے لیے اِس اجازت نامے کی ضرورت تھی۔ اِس اجازت نامے کا حصول سہل نہیں ہے۔
اس کے لیے مصری یا اردنی حکومتوں کا واسطہ بروئے کار لانا پڑتا ہے ۔ ہمیں اپنا امدادی سامان غزہ پٹی کے اندر لیجانے کے لیے جان کو جوکھوں میں ڈالنا پڑا۔ رفح کی سرحد پر تعینات مصری اور اسرائیلی فورسز سامان کی جس طرح سخت چیکنگ کرتی ہیں، یہ منظر خاصا حوصلہ شکن ہوتا ہے ۔
عبدالرزاق ساجد نے مجھے بتایا : میں اور المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے مقامی فلسطینی وابستگان رفح کی سرحد کے آس پاس اپنے خیموں میں تھے کہ ہم نے یہ ظالمانہ منظر بھی دیکھا کہ سیکڑوں کی تعداد میں اسرائیلی شہریوں نے رفح کراسنگ پر دھرنا دے کر اِسے بند کر دیا ہے ۔ وہ غزہ کے فلسطینی شہریوں کے لیے کسی بھی قسم کا کوئی بھی سامان اندر نہیں جانے دے رہے تھے ۔
رفح سرحد کے پار کھڑے سیکڑوں فلسطینی بچے اور خواتین مظلومانہ اور بے بسی کی نظروں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے کہ وہ سب خورونوش کی اشیا کے منتظر تھے۔ دھرنا دینے والے یہ اسرائیلی شہری (جنھیں صہیونی اسرائیلی حکومت کی مکمل اشیرواد حاصل تھی)وہ تھے جن کے کئی عزیز واقارب اور فوجی حماس کے قبضے میں ہیں اور وہ سب اپنے عزیزوں کی رہائی کا مطالبہ کررہے تھے ۔مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت اور اسرائیلی افواج ہر ہر ہتھکنڈے اور حربے سے غزہ والوں کی اعانت و امداد غصب اور بند کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
رفح کا معنی خوشحالی اور امن ہے ، لیکن حقیقی معنوں میں رفح بارڈر بد امنی، خونریزی ، غصب و قبض اور ظلم و استحصال کا مرکز بن چکی ہے ۔
رفح کی سرحد ایک ایسی شہ رگ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کے ذریعے اسرائیل جب چاہے غزہ کے شہریوں کا گلہ گھونٹ سکتا ہے ۔ اور گھونٹتا بھی ہے۔ عبدالرزاق ساجد نے اپنے تازہ ترین مشاہدات ہم سے شیئر کرتے ہوئے بتایا :معاشی ، اقتصادی اور ہجرت کے اعتبار سے بھی رفح کی سرحد اسرائیلیوں کے مکمل کنٹرول میں ہے۔
7اکتوبر2023سے قبل ایک لاکھ سے زائد غزہ کے فلسطینی مرد و زن محنت مزدوری اور ملازمت کے لیے اسرائیل جایا کرتے تھے۔ یوں غزہ کے شہریوں کی معاش چل رہی تھی۔ 7اکتوبر حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ کے تمام فلسطینی محنت کشوں کے ورک پرمٹ منسوخ کر دیے ۔ اب یہ سب فلسطینی بے روزگار ہو چکے ہیں ۔
عبدالرزاق ساجد بتا رہے تھے: پچھلے 100دنوں سے زائد کی حماس اور اسرائیل کی خونریز جنگ کے کارن جہاں آٹھ لاکھ سے زائد اسرائیلی شہری اپنے ملک سے بھاگ چکے ہیں، وہاں اسرائیل میں 30ہزار سے زائد کام کرنے والے غیر ملکی ورکرز بھی اسرائیل سے بھاگ چکے ہیں۔ یوں اسرائیل میں محنت مزدوری کرنے والوں کا شدید خلا پیدا ہو چکا ہے ۔
خاص طور پر کنسٹرکشن شعبے میں ۔ اِس خلا کو اب بھارت پر کرنے کی کوشش کررہا ہے ؛ چنانچہ اِس ضمن میں پچھلے ماہ بھارتی وزیر خارجہ ( جے شنکر) اور اسرائیلی وزیر خارجہ (ایلی کوہن) نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اِس معاہدے کے مطابق اسرائیل 45ہزار کی تعداد میں بھارتی ورکرز لے رہا ہے۔ اِن بھارتی مزدوروں اور ورکرز کواسرائیلی کرنسی میں کم از کم6100شیکلز (1625امریکی ڈالرز یعنی ساڑھے چار لاکھ پاکستانی روپے کے برابر) تنخواہ ملے گی ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بھارتی ورک فورس دھڑا دھڑ اسرائیل پہنچنے بھی لگی ہے ۔
بھارتی مزدور ( جو اپنے ملک میں زیادہ سے زیادہ 200ڈالرز ماہانہ کما رہے ہیں) سات آٹھ گنا زیادہ تنخواہ ملنے پر بھاگم بھاگ اسرائیل پہنچ رہے ہیں۔یہ بھارتی ورک فورس دراصل غزہ کے فلسطینی مزدوروں کی جگہ لے رہے ہیں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس