ہفتے کے آخری تین دن میں خود کو ’خبروں‘ سے بچائے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ میرے رزق کا کامل انحصار مگر صحافت ہی پر ہے اور عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا ہوں جہاں کسی اور دھندے میں قسمت آزمانے کی حماقت لے نہیں سکتا۔ اسی باعث نہ چاہتے ہوئے بھی وقتاً فوقتاً موبائل پر ’تازہ ترین‘ جاننے کو مجبور رہتا ہوں۔ ہفتے کی دوپہر اسی عادت کی بدولت سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالی تو معلوم ہوا کہ سرکار کے سراغ رساں ادارے نے باہم مل کر سوسے زیادہ افراد کا پتا لگایا ہے ۔ ان افراد میں چند نمایاں صحافی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے چند میرے بہت ہی عزیز دوست اور مشکل وقتوں کے ساتھی بھی ہیں۔ان لوگوں پر الزام ہے کہ وہ اپنے ٹویٹس ا ور وی لاگ وغیرہ کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کو مسلسل تضحیک کا نشانہ بنارہے ہیں۔ یوں ’اداروں(ریاستی)‘ کے ’دشمن‘ شمار ہوئے ۔ ان کی نشاندہی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انھیں نوٹس دے کر وضاحتوں کے لیے طلب کیا ہے۔
جن صحافیوں کی طلبی کا سوشل میڈیا پر پھیلی خبروں کے مطابق نوٹس جار ی ہوا تھا ان کی فہرست دیکھی تو دل گھبراگیا۔ سیرل المیڈا تو غالباً اب ’عادی مجرم‘ ہے۔ حیرانی مگر اسد طور اور مطیع اللہ جان کے نام دیکھ کر ہوئی۔ یہ دونوں بہت متحرک وی لاگر ہیں۔ عمران حکومت کے دوران ان کی کیمرے کے لیے ریکارڈ اور سوشل میڈیا پر چلائی گفتگو بہت بے باک رہی۔ اس کی بدولت ان دونوں کو ’نامعلوم افراد‘ کے ہاتھوں دہشت زدہ بنانے کی کوشش ہوئی۔وہ مگر باز نہیں آئے۔ حتیٰ کہ جب عزت مآب فائز عیسیٰ صاحب کو ان ہی کے معزز ساتھیوں نے ’رسیدوں‘ کے ساتھ حساب کتاب کے لیے طلب کیا تو یہ دونوں ان کے دفاع میں بھی ڈٹ گئے۔ اپنی بے باکی کی وجہ سے جب وہ ریاستی عذاب سے دوچار تھے تو صحافی دوستوں کا ایک گروہ انھیں ’ریاست دشمن‘ بھی پکارتا رہا۔اب کی بار ان دونوں کا نام بھی ایسے صحافیوں کی فہرست میں شامل تھا جو ’نظریاتی‘ اعتبار سے ان کے ’ویری‘ تصور ہوتے تھے۔ صحافیوں کی ریکارڈ بناتی تعداد کی بیک وقت طلبی نے مجھے پریشان کردیا۔یہ سوچتے ہوئے میرا دل گھبرا گیا کہ جو قضیہ شروع ہوا ہے اس کے نتیجے میں روایتی ہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی ’کھل کے بات‘ کرنے کی گنجائش اب محدود تر ہونا شروع ہوجائے گی۔
میرے دل میں امڈے خدشات مگر سوشل میڈیا پر غضب ناک ہوئے ساتھیوں کے دل ودماغ کوپریشان کرتے محسوس نہیں ہوئے۔ سوشل میڈیا پر بلکہ یہ تصور اجاگر ہوا کہ گویا آزادی صحافت کے حوالے سے ایک اور معرکہ حق وباطل شروع ہونے والا ہے۔یہ دیکھتے ہوئے سوال میرے دل میں یہ اٹھا کہ جب متوقع معرکہ شروع ہوگا تو اس کے دوران میں کہاں کھڑا ہوں گا۔ فوری فیصلہ یہ کیا کہ پیدائشی بزدل ہوتے ہوئے منٹو کی طرح ’باجو کی گلی‘ سے راہ فرار اختیار کرلوں گا۔ اس تمنا کا اظہار ٹویٹ کے ذریعے کردیا تو چند ساتھیوں نے وہ دن یاددلانا شروع کردیے جب بے خطر آتش نمرود میں کودپڑنے کی علت لاحق تھی۔ اس ضمن میں مریانہ بابر کی ’دوستی‘ نے بہت دق کیا۔
ممکنہ معرکۂ حق وباطل سے لاتعلق رہنے کی خواہش کے علاہ میرے دل میں تمنا یہ بھی ابھری کہ عزت مآب چیف جسٹس صاحب صحافیوں کی ریکارڈ بناتی تعداد کا ازخود نوٹس لیں اور معاملے کو ایسی صورت حل کروادیں جودونوں اطراف کے لیے ’سبکی‘ تصور نہ ہو۔ میرے دل میں جب یہ تمنا ابھری وہ شاید ’قبولیت کی گھڑی‘ تھی۔ ہفتے کی شام بالآخر یہ خبر مل گئی کہ چیف جسٹس صاحب نے ازخود نوٹس کے ذریعے معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔اس کے بعد میں خیر کی امید باندھنے کے علاوہ کچھ نہیں لکھوں گا۔
جو قضیہ شروع ہوا اس کا باعث تاہم نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جی ہاں تحریک انصاف کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم رکھنا اس کا سبب ہوا۔ ذاتی طورپر تحریک انصاف کی سیاست کے بارے میں ہزاروں تحفظات کے باوجود میری خواہش تھی کہ ہمارے عوام کی مؤثر تعداد میں مقبول اس جماعت کو اس کے تاریخی انتخابی نشان سمیت فروری 2024ء کے انتخاب میں حصہ لینے کا موقع ملے۔ ایسا اگر ہوا نہیں تو اس کا دوش میں فقط محترم چیف جسٹس صاحب کے کاندھوں پر رکھنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔عمران حکومت کے اختتام سے کئی ماہ قبل ہی الیکشن کمیشن تحریک انصاف کے انتخابی عمل کی بابت سوالات ا ٹھانا شروع ہوگیا تھا ۔ تحریک انصاف کے بنیادی اراکین میں سے ایک اکبر ایس بابر اس معاملے کے علاوہ ’فارن فنڈنگ‘ کی بابت سوالات سمیت الیکشن کمیشن کو تادیبی کارروائی کے لیے مسلسل ا کساتے رہے۔ اقتدار کے خمار میں تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے اٹھائے سوالات کو رعونت سے نظرانداز کئے دیکھا۔ بالآخر 2022ء سے گزرکر ہم 2024ء میں داخل ہوچکے ہیں۔میری دانست میں معاملہ جب چیف جسٹس کے روبرو آیا تو وہ اسے آئین وقانون کے طے شدہ دائرے کی وجہ سے محض ’تکنیکی بنیادوں‘ پر دیکھنے کو مجبور تھے۔ سپریم کورٹ کی اس ضمن میں ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی کارروائی نے مجھے یہ طے کرنے کو مائل کیا۔ اس کے باوجود جو فیصلہ آیا اس میں بے شمار تکنیکی نقائص ہوسکتے ہیں۔ ہفتے ہی کے دن ایک انگریزی اخبار کے ادارتی صفحات پر تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر کا لکھا مضمون چھپا ہے جو مبینہ ’نقائص‘ کو واضح کرتا ہے۔
ناقدین کے بیان کردہ’نقائص‘ کے باوجود میرے لیے یہ سوچنا ممکن ہی نہیں کہ موجودہ چیف جسٹس نے ’کسی‘ کوخوش رکھنے کے لیے مذکورہ فیصلہ لکھا ہوگا۔ وہ دباؤ کے آگے جھکنے کے عادی ہوتے تو اپنی اہلیہ سمیت کئی مہینوں تک پھیلی ذلت ورسوائی کا استقامت سے مقابلہ نہ کرتے۔ میری رائے سے مگر دوستوں کی مؤثر تعداد متفق نہیں۔ وہ میری طرح محتاط اور بزدل بھی نہیں۔اپنے ٹویٹس اور وی لاگ وغیرہ کے ذریعے تحریک انصاف کو بلانہ ملنے کے خلاف دہائی مچاتے رہے۔جوش جذبات میں چیف جسٹس کی عمران حکومت سے ’مخاصمت‘ کو بلے کے حوالے سے آئے فیصلے کا سبب بھی ٹھہراتے رہے۔ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے وہ یہ حقیقت نظرانداز کرگئے ہمارے ہاں برطانیہ کا متعارف کردہ توہین عدالت کا قانون ابھی تک کتابوں میں موجود ہے۔مبینہ’عوامی تائید‘ کی بنیاد پر چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے افتخار چودھری نے اس کا سہارا لیتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کیا تھا۔ثاقب نثار کے سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی ،دانیال عزیز اور طلال چودھری کو اسی قانون کی بنیاد پر پانچ سال کے لیے انتخابی عمل سے باہر رکھا۔
یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ ثاقب نثار کے بعد سپریم کورٹ بتدریج ’توہین عدالت‘ کا قانون ہماری زبانیں بند رکھنے کو استعمال نہیں کررہی۔ ’توہین عدالت‘ کا قانون مگر اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔عدالت سرکار کی بھرپور معاونت سے اگر اسے استعمال کرنے کو ڈٹ گئی تو میرا بزدل دل یہ سوچنے کو بضد ہے کہ ہمارے لیے ’کھل کر بات کرنے کی‘گنجائش محدود سے محدود تر ہوجائے گی اور ہم صحافیوں کی حمایت میں کوئی ’عوامی تحریک‘ برپا نہیں ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت