سابقہ بنام موجودہ! : تحریر سہیل وڑائچ


عسکری ایریا

راولپنڈی

مائی ڈیر جنرل جاسم

السلام علیکم! آپ سے ملاقات تو ہوتی رہتی ہے مگر بہت سی ایسی باتیں ہیں جو ان مختصر ملاقاتوں میں ہو نہیں سکیں ۔آج یہ خط اس لئے لکھ رہا ہوں کہ اپنے تجربے کی روشنی میں آپ کو کچھ مشورے دے سکوں۔

سب سے پہلے میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ گو میں نے پہلے آپ کو ایم آئی کا سربراہ بنایا پھر آئی ایس کا اور جب کپتان خان نے آپ کو ہٹانے کا کہا توپھر آپ کو کور کمانڈر لگا دیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہمیشہ میرے پسندیدہ رہے، ہاں جب آپ کی بطور سپہ سالار تقرری کا معاملہ آیا تو میں دوسرے جرنیلوں کے دباؤ میں آگیا وہ چار پانچ خواہش مندا کٹھے ہوگئے تھے اور روز میرے کان بھرتے تھے۔ مجھے اس وقت غیر جانبدار رہنا چاہیے تھا مگر میں جانبدار ہوگیا یہی میری غلطی تھی اور مجھے اس کا اعتراف ہے، آپ کا بھی بڑا پن ہے کہ آپ نے اس غلطی پر مجھے معاف کردیا اور مجھے کئی تقریبات میں بلا کر عزت دی۔ سب سے پہلے میں آپ سے عالمی منظر نامہ کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں ،دورانِ سروس مجھے کینیڈا اور باقی دوسرے ملکوں میں کام کرنے کا موقع ملا اس لئے میرا تجربہ کہتا ہے کہ ہمیںمغربی دنیا سے سیکھنے کیلئے اس کے ساتھ جڑنا چاہیے امریکہ آج بھی واحد سپرپاور ہے اور شاید اگلی دہائی تک اس میں تبدیلی کا امکان نہیں ہے ،اس لئے آپ چین اور امریکہ سے تعلقات میں توازن رکھیں۔ آپ کا جھکاؤ مڈل ایسٹ کی طرف نظر آ رہا ہے یہ سب اپنے اپنے مسئلوں میں گرفتار ہیں اور پھر یہ سارے صفر جمع صفر ہیں، ان سے بہت زیادہ امیدیں نہ لگائیں۔ اسکی بجائے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔

دوسرا مشورہ یہ ہے کہ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی کو برا بھلا کہنے کی بجائے اس پر کنٹرول کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا اچھا ہے یا برا؟ اس بحث کو چھوڑ کر اسے سیکھا جائے اور اس کا بہتر استعمال کیا جائے، یاد رہے کہ لاؤڈ سپیکر آیا تو علماء نے اس کے خلاف فتوے دیئے تھے اب انہی علماء کا لاؤڈ سپیکرکے بغیر گزارہ ممکن نہیں۔ کیمرہ، کافی، تصویر کشی، پریس اور حتیٰ کہ گھڑی تک کو بدعت اور خلافِ اسلام قرار دیا گیا لیکن یہ ٹیکنالوجی آ کر رہی۔ سوشل میڈیا بھی بند نہیں کیا جاسکتا یہ نئے زمانے کی ضرورت ہے اسکے بہتر استعمال کو سیکھنا ہی واحد حل ہے۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ نے معیشت کے حوالے سے جو اقدامات کئے ہیں ان کا بڑا مثبت اثر پڑا ہے ، روپیہ مستحکم ہو رہا ہے، سٹاک مارکیٹ مثبت رجحان دکھا رہی ہے، سمگلنگ میں نمایاں کمی آئی ہے ، چینی کی قیمتوں میں استحکام آیا ہے، صنعت کاروں کو احساس ہوگیا ہے کہ اب فری ہینڈ کا زمانہ ختم گیا ہے ،اب ہر ایک کو قانون اور ریاست کی چھلنی سے گزرنا پڑے گا۔ آپ نے ایران کو موثر جواب دے کر پورے ملک میں پھیلے اضطراب کو ختم کیا ہے، افغانستان کوبھی آپ نے بڑا زور دار پیغام دیا ہے، بھارت کے حوالے سے بھی آپ کے عزائم اور ارادے قومی امنگوں کے مطابق ہیں۔ یہ سب کچھ درست مگر 8 فروری کے بعد بھی کیا آپ کی پالیسیاں چلیں گی یا پھر نئی حکومت کابیانیہ چلے گا؟۔

اہم ترین مسئلہ سیاسی ہے، 9 مئی کے واقعہ کے حوالے سے آپ کے اقدامات کو پوری فوج کی حمایت حاصل ہے، آپ کو پتہ ہے کہ میں اور میرے ساتھی جرنیل بڑے شوق سے عمران خان کو اقتدار میں لائے تھے۔ میں اور میرے بچے کرکٹ کے شیدائی تھے اسی لئے ہمیں عمران خان اچھا لگتا تھا ،ہم نے بہت آگے جا کر اس کی مدد کی ، او سی کے ذریعے ہر ضلع میں اس کے امیدوار فائنل کئے اور اسےجتوایا مگر افسوس کہ وہ معاشی کارکردگی میں بالکل ناکام ہوگیا، اسکی گورننس بھی ناقابل برداشت تھی اس لئے آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوا کہ میں نے غلطی کردی ہے اس لئے عمران خان کی اقتدار سے رخصتی کو میں اپنی غلطیوں کا مداوا سمجھتا ہوں۔ ان سب خیالات کے باوجود میری ہمیشہ سے یہ رائے رہی ہے کہ پاپولر سیاسی جماعتیں اداروں کی طرح ہوتی ہیں انہیں توڑنا یا کمزور کرنا، سیاست اور ریاست کو کمزور کرنے کے مترادف ہوتا ہے اس لئے آپ اپنی پالیسی پرنظرثانی کرکے 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزا دیں مگر باقی پی ٹی آئی کیلئے عافیت کا دروازہ کھولیں۔

میں نے نواز شریف کے ساتھ کام کیا ہے، اپنے پچھلے اقتدار کے آخری دنوں میں وہ سست ہوگئے تھے اور انہوں نے بہت سے معاملات اسحاق ڈار صاحب پر چھوڑ دیئے تھے ، ابھی ایسا لگ رہا ہے کہ نواز شریف کو چوتھی بار لایا جا رہا ہے تو یہ بات مدنظر رہے کہ ان کے ساتھ تعلقات کو خوشگوار رکھنا آپ کیلئےکافی مشکل ہوگا، میں نے بڑی کوشش کی تھی کہ ان کے ساتھ چلا جائے ، ایک طرف تو اس وقت کے جرنیلوں کا دباؤ اور دوسری طرف سے حکومت کا بے لچک رویہ بالآخر خرابیٔ تعلقات پر منتج ہوا۔ اب اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

ڈیئر جنرل!

بلوچستان کے حوالے سے ہم سے غلطیاں ہوئیں ان کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے، میرے خیال میں اکبر بگتی کو مارنا غلط تھا وہ غدار نہیں تھا اس کی ہینڈ لنگ غلط ہوئی، بلوچ کو عزت دیں تو اس کا رویہ بہتر ہوتا ہے کئی دہائیاں گزر گئی ہیں بلوچستان کا مسئلہ جوں کا توںہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کا پرامن اور دیرپا حل تلاش کیا جائے اور اس طرف جانے کا واحد حل مذاکرات کا راستہ کھولنا ہے۔ بھارت سے بھی اب جنگ نہیں ہوسکتی، مذاکرات ہی راستہ ہیں۔ اگر ہم افغانستان ، ایران اور بھارت سے ڈائیلاگ کر سکتے ہیں تو باغی بلوچوں سے کیوں نہیں؟آخر میں یہ عرض ہے کہ مجھ سمیت پوری فوج آپ کے ساتھ کھڑی ہے آپ پر بھاری ذمہ داری ہے آپ ماضی کے غلط تجربے نہ دہرائیں، سیاسی ہینڈلنگ سے فوج ہمیشہ نقصان میں رہی۔ فوج تو سب کی ہے اسی نے ملک کو اکٹھا رکھا ہوا ہے ، امن و امان بھی اسی کا مرہون ِمنت ہے۔ امن ہو تو جمہوریت آتی ہے فوج امن تو لائی ہے جمہوریت بھی آنے دے، اسی سے ریاست مضبوط ہوگی۔ عمران خان اور انکی سیاسی جماعت نے جو کیا غلط کیا، میں خود اس کے خلاف ہوں، میرے خلاف اس نے کیا کچھ نہیں کہا لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیرسٹر گوہر کی سربراہی میں قائم نئی تحریک انصاف کو کام کرنے کا موقع ملنا چاہیے، انہیں انتخابات میں بھی لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہئے۔

ہم سب آپ کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں، فوج ہے تو ملک ہے۔ امید ہے آپ میرے خط کو خوش دلی سے پڑھیں گے اور جو نکات آپ کو اچھے لگیں گے ان پر فوری عمل بھی کریں گے۔

خیر اندیش

جنر ل ثمر کھاجواہ

بشکریہ روزنامہ جنگ