جنرل عاصم منیر ڈاکٹرائن : تحریر سلیم صافی


(گزشتہ سے پیوستہ)

پتہ نہیں کیوں جب تھوڑی سی سختی آتی ہے تو ہم چیخنا چلانا شروع کردیتے ہیں ۔ کونسا پیغمبر ہے جسے اللہ نے آزمایا نہیں ۔

ترجمہ:کیا لوگوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ان کو یہ کہنے پر چھوڑ دیا جائے گا کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کو آزمایا نہیں جائے گا۔

اتارچڑھاؤ زندگی کی علامت ہے ۔ مسلمان پر جب سختی آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور جب آسائش آتی ہے تو وہ شکرکرتا ہے ۔

میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی رہا ہوں اور ڈی جی ایم آئی بھی ۔ میں سیاست سے بھی اچھی طرح واقف ہوں ۔ ہر سیاستدان اقتدار چاہتا ہے اور جو اقتدار سے باہر رہ جاتا ہے وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ اس سے اقتدار چھین لے لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ سارے سیاستدان خراب ہیں ۔ ہر پارٹی میں اچھے اور برے لوگ بھی ہیں ۔ اسی طرح ہر ادارے میں اچھےاور برے لوگ بھی ہیں ۔ کسی ایک جگہ نہ سب فرشتے ہیں اور نہ سب خراب لوگ ہیں ۔ لیکن ہماری سیاست یا ادارے ہماری سوسائٹی کے عکاس ہیں ۔ اگر سوسائٹی سو فی صد فرشتوں پر مشتمل ہوتی اور پھر ہماری حکومتیں خراب ہوتیں تو ہم گلہ کرسکتے تھے لیکن سوسائٹی اپنے آپ کو بہتر بنانے کی بجائے یہ توقع کرتی ہے کہ اسے اچھی حکومت اور ادارے ملیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا ۔ ہم لوگوں میں حسد کی بھی بیماری ہے ۔ یہ تقسیم اللہ نے کی ہے اور اگر ہم اچھی جگہ پر پہنچنے والوں سے حسد کرتے ہیں تو یہ اللہ کی تقسیم پر اعتراض کے مترادف ہے ۔کیونکہ ہر کسی سے اس کی حیثیت اور کام کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔یہ ذہنی انتشار اور اشتعال سوشل میڈیا پیدا کرتا ہے اور اس لئے میں اسے سوشل میڈیا نہیں بلکہ شیطانی میڈیا کہتا ہوں ۔ میں قرآن سے ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ شیطانی میڈیا ہے ۔ قرآن وہ کتاب ہے جس کا ایک لفظ آج تک کوئی غلط ثابت نہ کرسکا ۔ قرآن میں آتا ہے کہ ترجمہ :اے ایمان والو اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔

قرآن ہمیں خبر ملنے کی صورت میں تحقیق کا درس دیتا ہے لیکن سوشل میڈیا تحقیق نہیں کرواتا۔ اس کے آپشنز میں تحقیق کا آپشن نہیں ۔ صرف کٹ، پیسٹ ، کاپی اور فارورڈ کے آپشن ہیں ۔ اس لئے لوگ بغیر تحقیق کے جھوٹ کو آگے پھیلاتے ہیں ۔

اسی طرح قرآن میں آتا ہے کہ اے ایمان والو !مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں کسی کو طعنہ نہ دو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو، مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں۔

قرآن نے ایک دوسرے کا مذاق اڑانے سے منع کیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ اسی طرح قرآن نے اس آیت میں القابات سے منع فرمایا ہے لیکن القابات تو کیا سوشل میڈیا پر گالیاں دی جاتی ہیں ۔اسی طرح قرآن میں ارشاد ہے کہ :ترجمہ :اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے اور (پوشیدہ باتوں کی) جستجو نہ کرو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں ناپسند ہوگا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، مہربان ہے۔

غیبت کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ دوسرے انسان کا گوشت کھانے کے مترادف ہے لیکن سوشل میڈیا پر دن رات غیبت کی جاتی ہے ۔ اسی آیت میں بدگمانی سے منع کیا گیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر دن رات دوسروں کے بارے میں بدگمانیاں پھیلائی جاتی ہیں ۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جن لوگوں نے سوشل میڈیا تخلیق کیا ہے ان کے ہاںاس کے بے دریغ استعمال کی اجازت نہیں ۔ امریکہ میں آپ ٹویٹر پر لوگوں کی عزتوں کو نہیں اچھال سکتے لیکن ہمارے ہاں جس کے جو جی میں آئے سوشل میڈیا پر پھینک دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم زوال کے شکار ہوئے۔ قائداعظم نے ہمیں اتحاد، یقین اور تنظیم کا درس دیا تھا لیکن ہم نے کسی کو اپنے پاس نہیں چھوڑا۔ نہ اتحاد چھوڑا، نہ یقین اور تنظیم کا تو ہم نے شیرازہ بکھیر دیا ۔ حالانکہ اللہ کی کوئی تخلیق ایسی نہیں جس میں ڈسپلن نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے اللہ کی تعلیمات کو فالو نہیں کرنا ہے تو پھر کیا شیطان کو فالو کرنا ہے ۔ دراصل اس وقت پاکستان ایک جنریشن سے دوسری جنریشن کے ہاتھ میں جارہا ہے اور دشمن چاہتا ہے کہ اس ٹرانزیشن میں خلل ڈالے ۔

یہاں میں ایران کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا ذکر کرنا چاہوں گا ۔ بے شک ایران ہمارا برادر ملک ہے لیکن کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ہماری خودمختاری کو پامال کرے ۔یہ پیغام افغانستان کے لئے بھی ہے اور انڈیا کے لئے بھی ۔ ہم نے افغان بھائیوں کی برسوں تک مہمان نوازی کی لیکن میں واضح کرنا چاہوں گا کہ میرے لئے ایک پاکستانی کی زندگی بچانا پورے افغانستان سے زیادہ مقدم ہے ۔

پاکستان 240ملین لوگوں کا ملک ہے جس کا پینتیس فی صد نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ اس کا مستقبل روشن ہے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ۔ سوشل میڈیا پر پچانوے فی صد جھوٹ ہوتا ہے ۔ اس پر انحصار کرنے کی بجائے نوجوان تحقیق کرے۔ یوول ہریری نے 21Lessons for the 21st Centry نام کی جو کتاب لکھی ہے اسے ہر نوجوان کو پڑھنا چاہئے ۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اکیسویں صدی میں اتنی کنفیوژن پھیلائی جائے گی کہ کلیرٹی آف مائنڈ بڑا چیلنج ہوگا ۔ اس لئے آپ لوگ کلیرٹی آف مائنڈ پیدا کریں۔ آپ اپنے آپ کو انڈراسٹیمیٹ نہ کریں۔ آپ وسط ایشیا کا گیٹ وے ہیں۔ آپ نیوکلیر پاور ہیں۔ دنیا کی بہترین آرمی آپ کے پاس ہے۔ وقتی مشکلات سے گھبرانا نہیں۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ