8 فروری۔ سنہرے مستقبل کا دروازہ : تحریر محمود شام


ہمارا سنہرا مستقبل خود ہمارے در پر آیا تھا۔ ایک مہینے تک ہمارے دل اور ذہن پر دستک دیتا رہا۔ حکمرانوں، محافظوں، دانشوروں، صحافیوں، تجزیہ کاروں نے سردی کے مارے اپنے کان لپیٹ رکھے تھے۔

ہم اپنے بوسیدہ ماضی کو تو اربوں روپے خرچ کر کے ہزاروں میل دور سے اٹھاکر لاتے ہیں۔ لیکن اپنے آئندہ کو، جو خود چل کر دارُالحکومت پہنچتا ہے، ایک ماہ تک انتظار کرواکے بھی نہیں ملتے۔ ہم اپنے ماضی کی تزئین و آرائش میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ مستقبل کی جھلک دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارا مستقبل تربت سے سفر کرتا سینکڑوں میل دور اپنے ہم وطنوں سے یکجہتی کیلئے راجدھانی میں آتا ہے۔ راستے میں مختلف نسلوں ،مختلف زبانیں بولنے والوں نے، مختلف سیاسی جماعتوں کے پیروکاروں نے ان ماؤں بہنوں بیٹیوں کی آنکھوں میں اُمید کی روشنی دیکھی تھی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ وہ بھی اپنے مستقبل کے اس پُر امن کارواں میں شریک ہوجاتے۔ بلوچستان کی آبروئیں، عزتیں، خود داریاں پاکستان کی آبروئیں ہیں پاکستان کا وقار ہیں۔

ایک سنہرا موقع تھا۔ ساروان، جھاروان، پسنی، گوادر، مکران کے دل جیتنے کا۔ ہمیں خبر نہیں کہ اپنے مستقبل سے کیوں ڈرتے ہیں۔اپنے دوام سے خوف کیوں کھاتے ہیں۔ ہماری مائیں بہنیں بیٹیاں۔ اپنی حسرتیں۔ اپنے خواب واپس لے کر کوئٹہ پہنچ گئی ہیں۔ کوئٹہ میں ہزاروں طالب علموں ، جوانوں،درد مندوں نے ان کا استقبال کیا ہے۔ کیا دارُالحکومت میں کوئی غور کررہا ہے کہ یہ چاک داماں آپس میں ملے ہوں گے تو آنکھوں میں شکوے شکاتیوں کے کیا تبادلے ہوئے ہوں گے۔ اسلام آباد سے کوئی اقرا۔ کوئی فرمان لیے بغیر واپسی کے بلوچستان کی نئی نسل پر کیا تاثرات مرتب ہوں گے۔14اگست 1947کو بھی ہزاروں شہیدوں کی قربانیوں سے پیدا ہونے والے مستقبل نے ہمارے ایک اک در پر دستک دی تھی۔ لیکن ماضی کی جاگیروں، زمینوں، حویلیوں، ڈیروں، اوطاقوں، رتبوں، خانقاہوں، پگڑیوں نے مل کر مستقبل کو ہمارے دلوں ذہنوں اور روحوں میں داخل نہیں ہونے دیا۔1948میں ہمارا جوان مستقبل سرحدوں پر شہادتیں گلے سے لگاتا رہا۔ دارُالحکومت کراچی بھی اسی طرح مستقبل کو بازوؤں میں لینے سے انکار کرنا چاہ رہا تھا۔ ہم اپنی اناؤں کے قلعے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ سنہرا ریشہ ہمیں آواز دیتا رہا۔ ناریل کی خوشبوئیں ہمارا تعاقب کرتی رہیں۔ لیکن ہم ماضی کے مزاروں پر چادریں چڑھاتے رہے ہیں۔7دسمبر1970 کو مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشعور انسانوں نے اپنے ضمیر کھول کر رکھ دیئے۔ ایک مستحکم مستقبل کے شگوفے پھوٹے۔ ہم نے اس آئندہ کو دھتکار دیا۔ مارچ 1971میں قومی اسمبلی ڈھاکا کی بلڈنگ کے دروازے نہیں بلکہ ایک درخشاں مستقبل کے دروازے بند کیے گئے۔ آنے والی بہاروں کے رستے میں ناکے کھڑے کرکے ہمیں کیا ملا۔ پاکستانیوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کی ہلاکتیں۔ ازلی دشمن بھارت کی وزیر اعظم کا طعنہ کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا۔

آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کے لمحات۔ جو کچھ ہم پر بیت رہی ہے۔ اس پر تبادلۂ خیال۔ اتوار کی سہ پہر عصر کی نماز کے بعد میں تو یہ گزارش بھی کرتا ہوں کہ ہم محلے والوں سے بھی آپس میں ملیں۔ اپنے مستقبل کی تعمیر کریں۔ ماضی کی غلطیوں کی اصلاح کریں۔

خطائیں کسی کی بھی ہوں۔ افراد کی، فیصلہ سازوں کی، حکمرانوں کی۔ سیاسی قیادت کی، فوجی قیادت کی۔ ان کی سزا ایک ریاست کے سارے انسانوں، ساری وحدتوں، سارے انتخابی حلقوں کو بھگتنا پڑتی ہے۔ ریاست کی غلطیوں پر تبادلۂ خیال سے ہی مستقبل کی طرف پیشقدمی ہوتی ہے۔ ماضی قریب ہو یا ماضی بعید۔ اس کی تطہیر سے ہی روشن مستقبل جنم لیتا ہے۔ ہم تو اپنے مستقبل کو پھانسیاں بھی دیتے آئے ہیں۔ ہمارا مستقبل۔ ہمارے نوجوان 1971-1965کی باقاعدہ جنگوں میں، سرحدی جھڑپوں میں، دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ہم سے بچھڑتے رہے۔ انہوں نے اپنی چمکتی جوانیاں اس لیے اس دھرتی پر قربان نہیں کی تھیں کہ ہم اپنے بوسیدہ گزشتہ کو ہی اپنی منزل سمجھتے رہیں۔

اب 8فروری پھر ایک تابندہ مستقبل کے امکانات لے کر آرہی ہے۔ آج صرف ڈیڑھ ہفتہ رہ گیا ہے ۔ واہگہ سے گوادر تک کروڑوں بالغ افراد کو مستقبل کی چابی ہاتھ میں ملنے والی ہے۔ اندھیرے پھر اس کوشش میں ہیں کہ اجالوں کو اس مملکت میں اترنے نہ دیں۔ عدل، سلامتی، انتظام، انصرام، جہانبانی کے ایوانوں پر لرزہ طاری ہے۔ 5سال سے خوف آرہا ہے۔ صبح آزادیٔ کامل جس کیلئے ہمارے بزرگ ترستے رہے۔ اس کا راستہ پھر روکنے کی مساعی جاری ہے۔آنے والا وقت چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ آرزوئیں، تمنّائیں،امنگیں،آشائیں قتل نہیں کی جاسکتیں۔ وہ زخم زخم تو ہوجاتی ہیں لیکن دم نہیں توڑتیں۔

سندھو ندی کے دونوں کناروں پر آباد گلگت سے کیماڑی تک یہ حسین وادی۔ جسے ہم پاکستان کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے باہمت جفاکش 25 کروڑ انسان دیئے ہیں۔ اس کے پہاڑوں میں سونا ہے۔ تانبا ہے۔ قیمتی پتھر ہیں۔ اس کی مٹی میں آئندہ برسوں کا اناج ہے۔ اس کے دریاؤں میں میٹھے پانی کی صدیاں ہیں۔ اس کے سمندر کی تہوں میں قیمتی معدنیات ہیں۔ اس کی 60فی صد آبادی نوجوان ہے۔ ہمارے پاس کروڑوں توانا دست و بازو ہیں۔ قدرت کی یہ بے حساب نعمتیں چند گھرانوں کے قبضے میں نہیں رہنی چاہئیں۔

اب زندہ شعور اور ادراک کو نئی ٹیکنالوجی نے اور زیادہ متحرک کردیا ہے۔ ہمارے محنت کش پیداواری وسائل کو نئے نئے ٹیکنیکل آلات سے استعمال کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ہماری تہذیب ماضی میں بھی مستقبل کی بنیاد رکھتی رہی ہے۔ ہمارے میلوں میل پھیلے ہوئے وسیع رقبے ہماری بھوک مٹاتے آرہے ہیں۔ ہم ان زمینوں میں بھی مستقبل اگانے کی بجائے۔ گئے دنوں کی کاشت کرنا چاہتے ہیں۔ بوڑھے درختوں کو دوسرے شہروں ملکوں سے اٹھاکر دارُالحکومتوں میں نصب کرنا چاہتے ہیں۔ زمین انہیں قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔ دنیا مصنوعی ذہانت مستقبل کیلئے ایجاد کرتی ہے۔ ہم اپنی اصل ذہانت سے ماضی کو واپس لاتے ہیں۔اکیسویں صدی معلوم کا زمانہ ہے۔ نامعلوم کی گنجائش نہیں ہے۔ اب ملکوں کو پتہ چاہئے۔ لاپتہ نہیں۔ درمیان میں خلا آ جائے تو مستقبل یا کمپیوٹر آگے بڑھنے سے انکار کر دیتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی۔ پورے وطن سے یکجہتی ڈھونڈنے آئی تھی۔ آئیں 8فروری کو پاکستان کو یکجہتی میں ڈھال دیں۔

8فروری 2024 ۔ یقیناً ایک فیصلہ کن دن ہو گا۔ گزشتہ چند ماہ میں بہت نا انصافیاں ہوئی ہیں۔ بہت مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ انتشار، افراتفری کا دور دورہ ہے۔ اس بحرانی اور طوفانی حالات سے 8فروری ہمیں اسی صورت میں نکال سکتی ہے کہ بلوچستان ہو یا سندھ۔ پنجاب ہو یا کے پی کے۔ بیلٹ بکس میں ووٹ ڈالتے وقت ہر ووٹر اپنے ضمیر کی آواز سنے۔ کسی دباؤ میں یا لالچ میں نہ آئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ