تاریخ میں پہلی بار الیکشن کی تاریخ کے اتنا قریب آ کر انتخابات کا ماحول بنا ہے۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ ہر بندہ دوسرے سے پوچھ رہا ہو کہ الیکشن ہونگے یا نہیں۔ ویسے تو ملک ایک مدت سے طاقتوروں کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے لیکن جو تماشا 2018 کے بعد ہوا اسکی نوعیت ہی مختلف ہے۔ یخ بستہ موسم میں انتخابی ماحول ٹھنڈا ٹھار کیوں رہا۔ یہ جاننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو عناصر اسکے ذمہ دار ہیں وہ اگلی حکومت کے متعلق کیا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں۔پہلے تو یہ جان لیں کہ نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے پرتشدد واقعات اور آرمی چیف کو الٹانے کی کوشش نہ بھی ہوتی تب بھی پی ٹی آئی کی اقتدار میں واپسی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی ہی اس لیے گئی تھی کہ ان کی حکومت نہ صرف معاشی بلکہ سفارتی محاذ پر بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکی تھی۔ عالمی طور پر تنہا پاکستان دیوالیہ ہونے کی دہلیز پر کھڑا تھا لیکن پی ٹی آئی کی قیادت کی غیر سنجیدگی کسی طور کم ہونے میں نہیں آرہی تھی۔ پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں کو حکومت لینی چاہیے تھی یا نئے انتخابات کی طرف جانا چاہیے تھا اس بحث کو پیچھے چھوڑ کریہ دیکھنا چاہیے کہ آٹھ فروری کو عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کی جانب سے اس فیصلے کو پتھر پر لکیر قرار دئیے جانے کے بعد بھی انتخابی سرگرمیاں کیوں شروع نہ ہو سکیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی پچھلے سال 21 اکتوبر کو وطن واپسی اور مینار پاکستان پر بڑے اور بھرپور جلسے کے بعد یہ توقع کی جارہی تھی اب وہ نہ صرف پارٹی کو متحرک انداز میں لیڈ کریں گے بلکہ ملک گیر دورے کر کے انتخابی مہم بھی چلائیں گے۔ چند روز تک کچھ سرگرمیاں اور ملاقاتیں ہوئیں بھی مگر تجزئیے درست ثابت نہ ہوئے۔ نواز شریف جاتی عمرہ اور ماڈل ٹاؤن کے درمیان آمد و رفت تک محدود ہوکر رہ گئے۔ نواز شریف کو باجوہ کی سربراہی میں اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار سے محروم کیا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کی نئی قیادت کے آنے پر بھی انہوں نے وطن واپسی کا چانس نہیں لیا۔ ثاقب نثار گینگ کے چیف جسٹس بندیال کی رخصتی کے بعد لوٹ آئے۔ یقینا کچھ باتیں پہلے سے طے کی گئی ہوں گی۔ نواز شریف کی واپسی کے بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کی یہی خواہش تھی نگران سیٹ اپ ابھی مزید کچھ عرصے تک چلتا رہے۔ لگتا یہی ہے کہ جب مسلم لیگ ن کو اس صورتحال کا ادراک ہوا انہوں نے جان بوجھ کر ایسی پالیسی اختیار کی کہ صورتحال واضح ہونے تک توانائیاں اور وسائل ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی قربت کے دعویدار میڈیائی بھونپو شور مچاتے رہے کہ عام انتخابات کرانا ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ نگران حکومت بہت اچھی جارہی ہے۔ نگران حکومت سے منسوب اچھے اقدامات کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ مقتدر حلقوں کو کاروباری کارٹلز کے حوالے سے جو چند اقدامات بہت پہلے کرنا چاہئیں تھے وہ نگران دور میں کیے گئے جس کا ایک نتیجہ بظاہر ایک ٹھہراؤ کی صورت میں نظر آرہا ہے لیکن یہ خام خیالی ہے کہ اس طرح کے سیٹ اپ کو زیادہ دیر تک قائم رکھ کر ملک اور عوام کو خوشحالی کی راہ پر ڈالا جاسکتا ہے۔ یہی کشمکش تھی جس کے سبب مسلم لیگ ن نے سیاسی سرگرمیوں کو محدود کیے رکھا۔ اس تمام عرصے میں پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے سیاسی اور انتخابی ماحول بنانے کی کوشش جاری رکھی۔ اگرچہ ایک موقع پر پی پی کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں تناؤ آیا مگر آصف زرداری نے بروقت بھانپ کر اپنی پالیسی تبدیل کرلی اور یہاں تک کہہ دیا کہ عام انتخابات کی تاریخ آگے چلی جائے تو کوئی ہرج نہیں۔ بلاول بھٹو نے اس تمام عرصے میں جلسوں اور عوامی رابطوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ قطع نظر کہ وہ اس دوران خصوصا ن لیگ کی قیادت کے حوالے سے کیسی زبان استعمال کرتے رہے یہ ماننا ہوگا کہ سیاسی گہما گہمی جاری رکھنے میں بنیادی کردار پیپلز پارٹی کا ہی رہا۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت کے دوران سڑکوں سے لے کر جلسوں تک پوری طرح متحرک رہنے والی جے یو آئی کی قیادت کو شک ہوا کہ اسے انتخابات میں کارنر کرنے کی کوشش کی جائے گی، مقتدر حلقے کے پی کے کو پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کے حوالے کرنے کا ذہن بنائے ہوئے تھے۔ ہو سکتا ہے یہ سوچا جا رہا ہو کہ افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہو جانے کے بعد کے پی کے میں کسی ایسی پارٹی کی حکومت نہیں آنی چاہیے جو ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہو۔ اسی دوران جے یو آئی پر دہشت گردوں کے حملے بھی شروع ہو گئے۔ ان حالات میں مولانا نے یہی بہتر جانا کہ الیکشن وقت پر ہونے کے بجائے آگے چلے جائیں تو ممکن ہے ان کے لیے حالات سازگار ہو جائیں۔ شہری سندھ خصوصا کراچی میں ایم کیو ایم تذبذب میں مبتلا تھی۔ تمام گروپوں کا اتحاد ہو جانے کے بعد بھی سرگرمیاں ماند پڑی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی گرین سگنل ملا بڑا جلسہ منعقد کرکے انتخابی سیاست میں پھر سے ان ہو گئی۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور بڑی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی نہ ہونے کے سبب انتخابات کا ماحول ہی نہیں بن پا رہا تھا۔ موجودہ عدلیہ بھی بندیال کورٹ جیسی ہوتی تو نگران حکومت یا الیکشن کمیشن نے درخواست یا ریفرنس دائر کر کے انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھوا لینا تھی۔ ایک اندازے کے مطابق ایسا ہوتا تو اکتوبر 2024 تک وقت لے لیا جاتا اور اسکے بعد کیا ہوتا اسکا کسی کو علم نہیں تھا، تاریخ گواہ ہے کہ ایسے فیصلے ہونے پر سیاسی جماعتیں ایک آدھ مرتبہ تو آرام سے بیٹھ سکتی ہیں، بار بار ایسا ہونے پر ایسے اتحاد بننا شروع ہو جاتے ہیں جو سسٹم کو چیلنج کرنے پر اتر آتے ہیں۔ جہاں ایک طرف یہ نظر آ رہا ہے کہ انتخابی ماحول تاخیر سے بننے کی ذمہ دار اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں وہیں یہ کریڈٹ سپریم کورٹ کو دینا ہوگا کہ کسی کو اتنی گنجائش ہی نہیں ملی کہ وہ الیکشن کی تاریخ کو آگے لے جانے کے لیے عدالت رجوع کرتا۔ ان انتخابات میں پی ٹی آئی نے غیر متعلقہ ہونا ہی ہونا تھا ۔جو عناصر اس کے حق میں شور مچانے کی ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں وہ اپنے اپنے ایجنڈے پر ہیں جو منتخب سیاسی حکومت کی موجودگی میں آسانی سے پورے نہیں ہو سکتے۔ یہ سب انتخابات کے بعد بھی سازشوں پر لگے رہیں گے۔ فی الحال تو وہ کلین بولڈ ہو چکے ہیں۔ پورے ملک میں انتخابی سرگرمیوں کاتاخیر سے شروع ہونا بھی ان سب کے لیے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ اگلی منتخب حکومت کا دورانیہ کم مدت کا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ حاوی رہے گی لیکن مخصوص معاملات میں حکومتی اختیارات کو ایک حد تک ہی محدود کرسکے گی۔ حکومت کی کوشش ہوگی کہ اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کرنے والا کوئی قدم نہ اٹھایا جائے۔ باجوہ، عمران، بندیال وغیرہ نے ملک اور نظام کوجتنا نقصان پہنچا دیا اسکے بعد اداروں کے درمیان محاذ آرائی کے امکانات بہت کم ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے بعد اگلے چیف جسٹس منصور علی شاہ ہوں گے۔ اس لیے عدلیہ کو استعمال کرنا آگے بھی ممکن نہیں ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات