غیریقینی کیفیات میں یقینی انتخابات : تحریر الطاف حسن قریشی


22 ؍جنوری کو جناب مجیب الرحمٰن شامی نے اپنے گھر پر پنجاب کے نگران وزیرِاعلیٰ محسن نقوی کو مدعو کیا جن کے اقتدار کا اُسی روز ایک سال مکمل ہوا تھا۔ اُنہوں نے مجھے بھی مدعو کیا، چنانچہ مَیں اپنے بیٹے کامران اور پوتوں افنان اور اِیقان کے ہمراہ نو بجے اُن کے ہاں پہنچ گیا۔ وہاں اُن کا حلقۂ احباب جمع تھا جن میں حفیظ اللّٰہ نیازی بہت نمایاں تھے۔ ہم اپنے ساتھ ایک پینٹنگ کا تحفہ لے گئے تھے جسے میری پوتی زخرف نے قرآن پاک کی سورۃ الکوثر سے آراستہ کیا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد محسن نقوی آ گئے جو کوئی پینتالیس کے پیٹے میں ہیں۔ اُنہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز صحافت سے کیا، اِس لیے اُن سے پرانی شناسائی تھی۔ حاضرین نے اُن کا والہانہ خیرمقدم کیا کیونکہ اُنہوں نے ایک سال کے قلیل عرصے میں بڑےبڑے کارنامے سرانجام دیے ہیں اور بڑی خوبصورتی سے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا سکّہ جمایا ہے۔ شامی صاحب نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا سب سے بڑا کارنامہ کیا ہے۔ کہنے لگے کہ پنجاب 600؍ارب روپے کا مقروض تھا، ہم نے ایک سال میں سارا قرض ادا کر دیا ہے۔

حاضرین میں ہمارے مایہ ناز مصنّف اور کہنہ مشق کالم نگار جناب سہیل وڑائچ بھی موجود تھے۔ وزیرِاعلیٰ کے چلے جانے کے بعد اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کو اِن دنوں حالاتِ حاضرہ پر کالم لکھنے چاہئیں۔ مَیں نے کہا یہ کام تو آپ اور جناب حفیظ اللّٰہ نیازی بڑی خوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ اِدارتی صفحات کے انچارج ہیں اور بات انتہائی شگفتہ لہجے میں کرتے ہیں، اِس لیے مَیں نے اُن کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے چند ہفتوں کیلئے حالاتِ حاضرہ پر کالم لکھنے کی ہامی بھر لی، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ایک سعیٔ لاحاصل ہے۔ اب سیاست اور صحافت میں اِس قدر اَفراتفری اور ہماہمی ہے کہ مجھے اپنا ہی شعر اکثر یاد آتا ہےاندھوں نے مل کے شور مچایا ہے کُو بہ کُو تا سُن سکے نہ کوئی کسی دیدہ وَر کی بات۔

اب کوئی کسی کی بات سنتا ہے نہ اصلاحِ احوال کیلئے تیار ہے۔ جذبات کی لہروں پر بڑےبڑے فیصلے کیے جا رہے ہیں اور اَب زبان کیساتھ دہن بھی بگڑ چکا ہے۔ شخصیت پرستی انتہا کو پہنچ کر بت پرستی کے زمرے میں داخل ہو چکی ہے۔ اب کسی کی عزت محفوظ ہے نہ کوئی ادارہ بےجا تنقید سے بچا ہوا ہے۔ مَیں جو برِصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ پر کالم لکھ رہا تھا، اِس کا اوّلین مقصد ہی یہ تھا کہ نئی نسل کو اِس حقیقت سے باربار آگاہ کیا جائے کہ قائدِاعظم کی بےلوث اور اَعلیٰ ترین قیادت اور اُن کے رفقا اور مسلم زعما کی کاوشوں اور مسلمانوں کی بےشمار قربانیوں سے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں پاکستان جیسی بیش بہا نعمت سے سرفراز کیا جس کی ہمیں ہر لمحہ قدر کرتے رہنا اور خالقِ عظیم کا شکر بجا لانا چاہئے۔

جب ہم عام انتخابات کے گرد پھیلی ہوئی بےیقینی کا جائزہ لیتے ہیں، تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ آج انتخابات کے انعقاد میں بمشکل دو ہفتے رہ گئے ہیں، مگر ایک تذبذب کا عالم طاری ہے۔ معلوم نہیں کہ اِس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے کہ مختلف ٹی وی چینلز پر نجومیوں کی مجلس آرائی کا اہتمام کیا جا رہا ہے جو ابہام میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ مَیں شامی صاحب کے پُرلطف عشائیے کے بعد گھر لَوٹا، تو اپنا آئی پیڈ کھولا۔ ایک پہنچے ہوئے نجومی فرما رہے تھے کہ انتخابات کا سال 2024ء نہیں، بلکہ 2025ء ہے۔ اِس پر میرا دِل بری طرح دھک دھک کرنے لگا۔ شاعرِ مشرق نے تو فرمایا تھا کہ ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں۔

نجومیوں کی خلفشار پیدا کرنے والی پیشین گوئیوں کے علاوہ ہمارے بعض سیاست دان بھی عجب عجب مخمصوں میں گرفتار ہیں۔ سینیٹ میں انتخابات ملتوی کرانے کیلئے دو قراردادیں پیش ہوئی ہیں۔ اِسی طرح مولانا فضل الرحمٰن بھی اندیشہ ہائے دوردراز کا گاہےگاہے تذکرہ فرماتے رہتے ہیں۔ اصل ضرورت یکسوئی اور عزمِ صمیم پیدا کرنے کی ہے۔ صدر فاروق لغاری نے 1997ء میں عام انتخابات فروری کے اوائل میں کرائے تھے اور اِیران نے عراق۔ایران جنگ کے دوران دو مرتبہ عام انتخابات کا خطرہ مول لیا تھا۔ جب قومی سطح پر ایک فیصلہ مشاورت سے ہو چکا ہے، تو اِس کا احترام واجب ہے اور ہر سیاسی جماعت کی ذمےداری ہے کہ وہ سازگار ماحول کے فروغ میں انتہائی مثبت کردار اَدا کرے۔ بےیقینی قوموں کے حق میں زہرِ قاتل سے کم نہیں کہ وہ ہمتوں کو توڑ دیتی اور نااُمیدی کے اندھیرے مسلط کر دیتی ہے۔ پختہ ارادے کے ساتھ آگے بڑھنے ہی سے مسائل حل ہوتے اور اِمکانات کے نئے راستے کھلتے ہیں۔

اب تک انتخابی مہم کے جو اطوار سامنے آئے ہیں، وہ خاصے حوصلہ شکن ہیں۔ زیادہ تر وقت ایک دوسرے کی کردارکشی پر صَرف ہو رہا ہے اور یہ تاثر پھیلایا جا رہا ہے کہ کپتان عمران خان اور اُن کی جماعت کو اِنتخابی میدان سے باہر کر دینے کے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اِس منفی تاثر کا ازالہ ازبس ضروری ہے، ورنہ انتخابی عمل کی ساکھ اور اِعتبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ مکافاتِ عمل ایک اٹل حقیقت ہے، مگر اِس کے منفی نتائج پر ایک عمدہ حکمتِ عملی اور اِنصاف کے تقاضوں کو بروئےکار لا کر قابو پایا جا سکتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ ضد یا طاقت کے بجائے سیاسی مفاہمت کے ذریعے ہی پُل صراط سے گزرا جا سکے گا۔ سیاسی مفاہمت کا حقیقی شعور پورے سیاسی عمل میں نظر آنا چاہیے جسے بعض عناصر بغل میں چھری کی طرح بروئےکار لا رہے ہیں۔

اطمینان بخش امر یہ ہے کہ پاکستان کے چیف جسٹس، فوج کے سپہ سالار اَور چیف الیکشن کمشنر انتخابات کے انعقاد میں پوری طرح یکسو ہیں اور کشتی کو بھنور سے نکالنے کی اپنی سی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بھاری اکثریت بھی سیاسی استحکام کیلئے عوام کے تازہ مینڈیٹ کو بڑی اہمیت دے رہی ہے۔ عمران خان نے بلّے کے انتخابی نشان سے محروم ہونے کے باوجود تا حال اِنتخابات کا بائیکاٹ نہیں کیا۔ امید کی جانی چاہیے کہ عوام سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے اور اَندھے جذبات میں بہہ جانے کے بجائے نمائندوں کے انتخاب میں پوری احتیاط سے کام لیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ