ایران سے کس طرح بات کی جائے؟ : تحریر سلیم صافی


2007 میں جب پہلی مرتبہ مجھے اطلاعات ملنے لگیں کہ القاعدہ کے ساتھ ایران نے روابط استوار کرلئے ہیں اور افغانستان تک عرب ممالک سے القاعدہ کے وابستگان اب ایران کا روٹ استعمال کررہے ہیں تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا لیکن دوسری طرف میرے سورسز بہت قوی تھے ۔میں نے اپنے کالموں میں اس کا ذکر شروع کیا تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہیں تھا کہ کس طرح سنی اور سلفی القاعدہ کے وابستگان ایران سے راہ و رسم رکھ سکتے ہیں لیکن وہ حقیقت اب ہر کسی پر واضح ہوئی ہے کہ ایسا ہورہا تھا۔ دو برطانوی انویسٹی گیٹو صحافیوں کیتھی سکاٹ کلارک اور ایڈرین لیوی نے دو سال قبل دی ایکسائل (The Exile)کے نام سے ایک کتاب لکھی جو بنیادی طور پر اسامہ بن لادن اور القاعدہ سے متعلق ہے ۔ انہوں نے اس کتاب کو مرتب کرنے کیلئے پاکستان، ایران ، افغانستان ، یمن اور سعودی عرب کے سفر کئے اور مختلف لوگوں سے ملے ۔ اسی طرح انہوں نے ان فائلوں تک بھی رسائی حاصل کی جو سی آئی اے نے گوانتاناموبے اور دیگر جگہوں پر القاعدہ کے گرفتار افراد سے ہونے والی تحقیقات سے بھر ی ہیں ۔اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ نائن الیون کے فورا بعد ایرانی انٹیلی جنس نے القاعدہ سے رابطے کرلئے اورمتعدد وعدوں کے بعد تین بڑوں ( اسامہ بن لادن ، ایمن الظواہری اور خالد شیخ محمد) کے سوا اس کی پوری قندھار شوری ایران منتقل ہوئی۔ اسامہ بن لادن کی ایک بیوی اور حمزہ بن لادن کو بھی انہوں نے اپنے پاس رکھا ۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ ابومصعب الزرقاوی نہ صرف پاسداران کے سربراہ قاسم سلیمان کے ساتھ خصوصی جہازوں میں سفر کرتیتھے بلکہ عراق میں انہیں لانچ بھی انہوں نے کیا ۔القاعدہ کو ایران میں رکھ کر اس نے کئی مقاصد حاصل کئے ۔ ایک تو القاعدہ سے اپنے آپ کو محفوظ کرلیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ القاعدہ نے سعودی عرب اور پاکستان میں تو کارروائیاں کیں لیکن ایران میں ایک پٹاخہ تک بھی نہیں پھوڑا۔ دوسری طرف وہ القاعدہ کے ان لوگوں کو پاس رکھ کر خود القاعدہ کی قیادت کو بلیک میل اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا رہا ۔ امریکہ القاعدہ کو پاکستان میں ڈھونڈتا رہا اور پاکستان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگتے رہے لیکن تین بڑوں کے سوا القاعدہ کے بیشتر افراد ایران میں بیٹھے رہے تاہم پورے عرصے میں اس حوالے سے کسی نے ایران پر شک کیا اور نہ اس کا نام لیا ۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس کس طرح ڈبل ٹرپل گیم کرتی ہے ۔ اب تصویر کا ایک اوررخ ملاحظہ کیجئے ۔ جب نائن الیون ہوا تو بظاہر امریکہ کا دشمن ایران نہ صرف اسکے ساتھ تعاون کررہا تھا بلکہ اس پر زور ڈالتا رہا کہ وہ جلد از جلد افغانستان پر حملہ کرے ۔ نائن الیون کے فورا بعد امریکہ کے کارل اینڈر فرتھ اور زلمے خلیل زاد وغیرہ کی جینوا میں قاسم سلیمانی سے خفیہ ملاقات ہوئی ۔ جس میں سلیمانی نے انکے ساتھ قندھار اور دیگر شہروں میں القاعدہ اور طالبان کے ٹھکانوں کے نقشے شیئر کئے اور پھر امریکیوں نے ان نقشوں کی بنیاد پر ابتدائی بمباریاں کیں ۔ دوسری طرف چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور ایران میں قیام کے بعد پاکستان میں داخل ہورہے تھے کہ امریکی ڈرون نے انہیں نشانہ بنایا۔ان دو مثالوں سے آپ ایرانی انٹیلی جنس کی چالاکیوں اور ڈبل ٹرپل کھیلوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ان چالاکیوں سے انہوں نے ایک طرف لبنان میں شیعہ حزب اللہ کو اپنا پراکسی بنا رکھا ہے تو دوسری طرف یمن کے حوثیوں کو اور اب تو سنی حماس کو بھی اپنی پراکسی میں بدل دیا۔ حماس سے اسرائیل کے اندر کارروائی کرواکے ایران نے ایک تیر سے کئی شکار کئے۔ ایک طرف عرب ممالک اور اسرائیل کے بہتر ہوتے تعلقات کا راستہ روکا اور دوسری طرف مغرب کی توجہ اپنے سے ہٹاکر حماس کی طرف مبذول کرا دی ۔ حماس سے جنگ چھیڑ دی لیکن اب فلسطینیوں کو اسرائیل کے رحم وکرم پر چھوڑ کر اپنے اس کردار سے توجہ ہٹانے کیلئے کبھی شام میں میزائل داغ رہا ہے، کبھی عراق میں تو کبھی پاکستان میں۔

یہی رویہ ایران نے پاکستان سے متعلق بھی اپنا رکھا ہے ۔ ایک طرف برادر برادر کا ورد کرتا ہے اور دوسری طرف پاکستانی مفادات کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ پاکستان ایران کی ناراضی سے بچنے کیلئے محسن عرب ممالک کے تعاون میں ایک خاص حد سے آگے نہیں جاتا (یمن جنگ میں فوج نہ بھیجنا اسکا ایک ثبوت ہے) لیکن دوسری طرف ایران، پاکستان کے ساتھ حریف جیسا سلوک روا رکھتا ہے۔ عرصہ ہوا کہ ایران نے انڈیا کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر بنایا ہوا ہے ۔ افغانستان کے اندر پاکستانی مفادات کے خلاف دونوں نے ایکا کر رکھا ہے ۔ اپنے ہاں کلبھوش یادیو جیسے کرداروں کو پالتا ہے۔ کچھ عرصہ سے ایران کی طرف سے ٹی ٹی پی کے ساتھ راہ و رسم بڑھانے کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ جبکہ بلوچ عسکریت پسندوں کیلئے تو ایران ایک عرصے سے پناہ گاہ ہے۔ افسوس کہ پاکستانی حکومت نے ہمیشہ ایران سے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اپنائے رکھا ورنہ پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کو معلوم ہے کہ کون کونسا بلوچ عسکریت پسند کب کب ایران میں رہا۔ گلزار امام شنبے نے کافی عرصہ ایرانی سیف ہاؤس میں گزارا لیکن جب وہ میڈیا کے سامنے آرہے تھے تو انہیں ہدایت کی گئی کہ وہ ایران کا نام نہ لیں۔ اسی طرح جب گزشتہ روز میں عسکریت پسندی کا راستہ ترک کرنے والے بلوچ نیشنل آرمی کے سربراہ سرفراز بنگلزئی کا انٹرویو کررہا تھا تو وہ دھڑلے سے افغانستان میں اپنے قیام کا توذکر کررہے تھے لیکن حکام کی ہدایت پر وہ ایران کا نام لینے کی بجائے پڑوسی ملک کا لفظ استعمال کررہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران نیبغیر کسی جواز کے پاکستان میں اپنی حکومت کے مخالفین کی موجودگی کا الزام لگا کر ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی اور بے گناہ بلوچ خواتین اور بچوں کو زندگی سے محروم کیا۔ بھلا ہو جنرل عاصم منیر کا کہ اب کی بار انہوں نے روایتی معذرت خواہانہ رویے سے کام نہیں لیا اور اگلے ہی روز ایران کے اندر پاکستان کے ایسے مخالفین کو نشانہ بنایا جنکے بارے میں خود ایرانی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ہمارے لوگ نہیں تھے۔ اس دندان شکن جواب کی وجہ سے ایرانی ان شااللہ آئندہ کیلئے کسی علانیہ جارحیت کی جرات نہیں کرینگے لیکن پاکستان کیخلاف درپردہ سازشوں سے وہ اب بھی باز نہیں آئیگا ۔ اس لئے اب سفارتی سطح پر بھی پاکستان کو بہادرانہ اور جارحانہ رویہ اپنا کر اپنا حساب پاک کر لینا چاہئے۔ ایران کے وزیر خارجہ پاکستان آرہے ہیں تو ان پر واضح کر دیا جائے کہ پاکستان مزید ایران میں اپنے مخالف عناصر کی موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا اور ایران کی طرف سے پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے کا سلسلہ بھی اب بند ہونا چاہئے۔ اب برادر برادر کا ورد بند ہونا چاہئے۔ ایران یا تو حقیقی معنوں میں برادر بنے یا پھر انہیں بھی اس طرح ڈیل کیا جائے جس طرح ہندوستان کو کیا جارہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ