9مئی کی منصوبہ بند غارت گری پر مسلح افواج کا ردّعمل قطعی، غیرمبہم اور دوٹوک تھا۔ کہاگیا’’یہ قومی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ سیاست کا لبادہ اوڑھے اقتدار پرستوں نے وہ کچھ کرڈالا جو پچھتر سالوں میں ہمارا دشمن بھی نہ کرسکا۔ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف بغاوت (Rebellion) کی آگ بھڑکانے والوں کو قانون کے شکنجے میں کسا جائے گا۔ فسادیوں کے بدنما چہرے انسانی حقوق کے پرفریب پردوں میں چھپنے نہیں دیں گے۔ 9 مئی کو بھلائیں گے نہ معاف کریں گے۔ یہ پاکستان کے خلاف بہت بڑی سازش (Conspiracy) ہے۔ منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک نہ پہنچایاگیا تو کل کوئی اور سیاسی گروہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے یہی کچھ کرے گا۔‘‘ یہ بیانیہ تواتر سے دہرایا جاتا رہا۔
بلاشبہ9مئی سیاق وسباق سے آزاد یکایک رونما ہوجانے والا ہنگامی حادثہ نہ تھا۔ واقعاتی شہادتوں (Circumstantial Evidence) پر نظر ڈالی جائے تو ایک مربوط کہانی سامنے آتی ہے۔ اس زنجیر کی پہلی کڑی 16 جون 2019کا دہکتا ہوا دن تھا جب ملکی تاریخ میں بطور آئی۔ایس۔آئی سربراہ، سب سے مختصروقت، صرف آٹھ ماہ بعد جنرل عاصم منیر کو فوری طورپر عہدے سے ہٹادیاگیا۔ قصور یہ بتایاجاتا ہے کہ مصلحت ناشناس جرنیل نے ٹھوس شواہد کے ساتھ اپنے وزیراعظم کو آگاہ کیا تھا کہ سنگین قسم کی کرپشن نے اُن کے گھر میں راہ بنالی ہے۔ تُند خو وزیراعظم نے اُسی شام اپنی زرخیز کِشتِ انتقام میں، جنرل عاصم کے حوالے سے تُخم عناد کاشت کیا۔ فوراً بعد عاصم منیر کی مسند سنبھالنے والے جنرل فیض حمید بڑی محنت اور لگن سے اس میں کھاد ڈالتے اور پانی لگاتے رہے۔ بطور ڈی۔جی (سی) وہ نواز شریف کا بھاری پتھر راستے سے ہٹانے اور 2018 کے انتخابات سے عمران خان کی کامرانی کشید کرنے کا کارِعظیم سرانجام دے کر خان صاحب کے مخصوص گوشۂِ دِل میں جگہ بناچکے تھے۔ تعلقات کی گرم جوشی سے سازش کی دوسری کڑی نے جنم لیا۔ ’’سنیارٹی لسٹ پہ پہلے جرنیل، عاصم منیر کو آرمی چیف نہیں بننے دینا۔‘‘ اسی کے ساتھ جُڑی تیسری کڑی یہ تھی کہ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر لمبی ہم سفری کی منصوبہ بندی شروع ہوگئی۔
اپریل2022میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی نے اس منصوبہ بندی پر پانی پھیر دیا۔ خان صاحب تو گھر چلے گئے لیکن فیض حمید زیادہ سرگرم ہوگئے۔ انہی دنوں نادرا سے جنرل عاصم کے اہل خانہ کی سفری تفصیلات چرائی گئیں۔ پھر مسلک کے نام پر ایک دوست اسلامی ملک کو بھڑکانے کی ناکام کوشش کی گئی۔ کڑیاں جُڑتی رہیں، کہانی آگے بڑھتی رہی۔ عاصم منیر کا راستہ روکنے کے مشن میں جنرل باجوہ کو بھی شریک کرلیاگیا۔ خان صاحب انگاروں پہ لوٹتے اور آرمی چیف کی تقرری کے حساس موضوع کو چوکوں چوپالوں میں اچھالتے رہے۔ ’’ہم سفروں‘‘ کے باہمی رابطوں نے نئے چیف کی تقرری سے قبل، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ایک بڑا طوفان بپا کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس کے لئے 26 نومبر کی تاریخ طے پائی۔ خان صاحب زخمی ٹانگ کے باوجود نکلے لیکن عوام نے ساتھ نہ دیا۔ سمندر تو کیا وہ لاہور سے نیم جاں راوی بھی ہمراہ نہ لاسکے۔ ساری دنیا کے معتبر میڈیا نے عاصم منیر ہی کو اس لانگ مارچ کا ہدف قرار دیا۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم سردار تنویر الیاس کی گواہی ریکارڈ پر ہے۔ ’’میں نے عمران خان سے کہا کہ ہمارے بلدیاتی انتخابات کے باعث لانگ مارچ دو دِن آگے کر دیا جائے تو خان صاحب بولے۔ ’’ ہمیں عاصم منیر کو آرمی چیف بننے سے روکنا ہے۔ وہ آگیا تو کیا فائدہ مارچ کا۔‘‘
اور وہ آگیا۔ ساری تدبیریں دھری رہ گئیں۔ دِل شکستہ فیض حمید بھی گھر چلے گئے لیکن ’’بُغضِ منیر‘‘ کی آگ دونوں ہمسفروں کے دلوں میں بھڑکتی رہی۔
اکتوبر2022میں معروف صحافی ارشد شریف کے قتل اور نومبر2022میں عمران خان پر قاتلانہ حملے کی تمام ترتفصیلات ابھی تک سامنے نہیں آسکیں لیکن دونوں کا فائدہ ’’ہمسفروں‘‘ نے اٹھایا اور وارداتوں کا رُخ فوجی قیادت کی طرف موڑ دیا۔ خان صاحب نام لے لے کر کوسنے دینے لگے۔ بات نہ بنی تو آخری چارہ کار کے طورپر، فیصلہ کن یلغار کا منصوبہ بنایاگیا۔ یہ تین درجاتی سازش تھی۔ فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملے، فوج کو مشتعل کرنا، پی۔ٹی۔آئی کارکنوں سے تصادم، خونریزی اور لاشیں پہلا مرحلہ تھا۔ دوسرامرحلہ اس صورت حال کی بنیاد پر فوج کے اندر ارتعاش اور اشتعال پیدا کرنا اور حتمی طورپر جسٹس بندیال کے ذریعے آرمی چیف کو معزول کراکے کسی اور کو مسند پر بٹھانا تھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ ایسا ہوجاتا تو ملک وقوم پر کیا گزرتی؟ عمران خان کے تیروں کا رُخ اس کے بعد بھی جنرل عاصم منیر ہی کی طرف رہا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے کمرے میں بیٹھے ہوئے بی۔بی۔سی کو بتایا ۔ ’’میرے خلاف جو کچھ ہورہا ہے وہ ایجنسیاں نہیں صرف آرمی چیف عاصم منیر کررہا ہے۔ اُسے ڈر ہے کہ اگر میں اقتدار میں آگیا تو اُسے عہدے سے ہٹادوں گا۔‘‘
جنرل عاصم منیر کی آئی۔ایس۔آئی سے فراغت اور بی۔بی۔سی کو انٹرویو تک، چار سالوں پر محیط واقعاتی شہادتیں ایک ایسی مربوط کہانی بناتی ہیں جس میں کوئی جھول نہیں۔ مسئلہ یہ ہوا کہ اس ’’بغاوت‘‘، ’’سازش‘‘ اور ’’سرکشی‘‘ کے بارے میں فوج کی آتشیں حسّاسیّت، میڈیا، عوام اور دوسرے اداروں تک نہیں پہنچائی جاسکی۔ سمندرپار والوں کو بھی نہیں بتایاجاسکا کہ جن لوگوں کے حقوق کی تم دہائی دے رہے ہو، انہوں نے برطانیہ کے 6 اگست 2011اور امریکہ کے 6 جنوری 2021سے کہیں زیادہ بھیانک جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ اب تک متعیّن افراد پر متعیّن مقدمات کا دفتر بھی نہیں کھُلا، کسی فوجی یا غیرفوجی عدالت میں ’’9 مئی بنام ۔۔۔ ‘‘ کی پکار بھی نہیں پڑی۔
اس تغافل کی ذمہ داری جس پر بھی ہے، اس کا فائدہ، تحریک انصاف کو پہنچ رہا ہے۔ 9 مئی کو سرمایہ افتخار سمجھنے اور منصوبہ ساز قیادت سے وفا کا دم بھرنے والے، عمومی سیاست کے بے داغ اور سادہ ومعصوم کردار بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ فوج کے واضح عزم کے باوجود ’’بدنماچہرے‘‘، انسانی حقوق کے ’’ پُر فریب پردے‘‘ میں چھُپ رہے ہیں۔ فوج جس شخص کو 9مئی کا مرکزی کردار اور منصوبہ ساز سمجھتی ہے، عدالت اسے معصوم قرار دے کر اس کے پیروکاروں کو اجازت دیتی ہے کہ وہ جائیں اور اسی کردار سے ٹکٹوں کی تقسیم اور انتخابی حکمتِ عملی پر مشاورت کریں۔ عدلیہ اور فوج کی سوچ کا یہ تضاد تشویشناک منطقے میں داخل ہورہا ہے۔
اگر فوج کے بقول9مئی ’’ناقابل فراموش اور ناقابل معافی‘‘ ہے تو بلاتاخیر تمام شواہد کے ساتھ ’’بغاوت اور سازش‘‘ کی جزئیات کو سامنے لایا جائے تاکہ میڈیا، عوام اور عدلیہ تک واضح پیغام جاسکے کہ ان کا سابقہ کن لوگوں سے پڑا ہے۔ معاملات اس لئے الجھ رہے ہیں کہ 9مئی کی سنگینی ابھی تک پوری طرح آشکارنہیں کی جاسکی۔ طویل خاموشی کے باعث دُھند گہری ہورہی ہے۔ صفر تک محدود ہوتی حدِّ نگاہ کسی بھی حادثے کا سبب بن سکتی ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ