پولیس مارا ماری۔ نظام عدل کی ناکامی : تحریر محمود شام


اسلامی جمہوریہ پاکستان کی راجدھانی کے نزدیک جب پولیس باقاعدہ کلف لگی وردیوں میں ایک 67سالہ مخدوم کو۔ سفید بالوں والے بلند قامت قریشی کو دھکے مکے مار رہی تھی۔ جب تاریخ کے آنسو بہہ رہے تھے۔ جب جغرافیہ تڑپ رہا تھا۔ جب تدبر کے اعصاب بکھر رہے تھے۔ جب فراست حواس باختہ ہورہی تھی۔ جب مورخ کا قلم لرز رہا تھا۔ تو میں نے علم کے سر چشموں سے رجوع کیا۔ دانش گاہوں کے در پر دستک دی تو اہل مغرب نے کہا کہ پولیس بہیمانہ تشدد دراصل ایک ریاست کے نظام عدل کی ناکامی ہوتی ہے۔ پولیس کی بربریت در حقیقت ریاست کا دیوالیہ پن ہوتا ہے۔ ایک ریاست کے دماغ جب بنجر ہوجاتے ہیں۔ بصیرت جب سیکرٹریٹوں سے رخصت ہوجاتی ہے۔ جب اشرافیہ عوام کے شعور سے کانپتی ہے۔ جب درباریوں کا گلی کوچوں میں نکلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب سرکاری افسروں کا کتاب سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب سفارشی تقرریاں ہوتی ہیں۔ جب اعلی افسر ریاست اور حکومت کی بجائے سرمایہ داروں۔ جاگیرداروں اور ٹھیکیداروں کی خوشنودی کیلئے دوڑتے بھاگتے ہیں۔ جب نوکری کا تحفظ شائستگی ۔ خوف خدا۔ خیال ہم نفساں پر غالب آجاتا ہے۔

یہ کڑوی اور زہریلی فصل ہم سب 38 سال سے بوتے آرہے ہیں۔ اب فصل کاٹنے کا وقت آگیا ہے۔ انتخابات میں صرف 38دن رہ گئے ہیں۔ انتخابات کو بے معنی۔ بے مقصد قرار دینے کیلئے کوشش زوروں پر ہے۔ کچھ دیدہ دانستہ ایسا کررہے ہیں۔ کچھ بلا سوچے سمجھے۔ پس دیوار دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے محسوس کررہے ہیں کہ اسی خرابی سے تعمیر کی صورت نکلے گی۔ اسی گرد و غبار میں سے ایک شہ سوار برآمد ہوگا۔

خاکساران جہاں را بحقارت منگر

توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

(دنیا کے خاک نشینوں کو حقارت سے نہ دیکھ۔ تجھے کیا خبر کہ اس گرد میں کوئی سوار موجود ہو)

زمانہ بھول گیا ہے کہ جب کسی شہ سوار کی آمد ہوتی تھی تو میدانوں میں گرد و غبار اڑتا تھا۔ مگر جاننے والے اب بھی آہٹیں محسوس کررہے ہیں۔ اس لیے کاغذات چھینے جارہے ہیں۔ ہر گزرتا دن یہ فیصلہ دے کر جاتا ہے کہ اس مملکت میں کوئی سسٹم نہیں ہے۔ واہگہ سے گوادر تک کروڑوں ہم وطن شدت سے محسوس کررہے ہیں کہ اس مملکت خداداد کو ایک سسٹم کی ضرورت ہے۔ قانون کی حکمرانی ناگزیر ہے۔

…………………….

آج اتوار ہے ۔ بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں۔ بہوؤں دامادوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا دن۔ میں اور میرے ہم عصر اب گزشتہ ہوتے جارہے ہیں۔ آئندہ ہماری اولادیںہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کی خواہش اور عملی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہمارے آئندہ کو بتدریج ایسا ماحول مل سکے جہاں میرٹ کا سکہ چلتاہو۔ ان ملکوں کا معاشرہ جہاں جانے کیلئے ہمارے نوجوان ویزے کیلئے قطاروں میں کھڑے ہیں اور جو ہماری نسل امریکہ۔ برطانیہ یورپ میں پڑھ رہی ہے۔ وہ اپنے وطن واپس آنے کی بجائے وہیں ملازمت کیلئے آن لائن عرضیاں ڈال رہی ہیں۔ پاکستان پھر 70سال سے اوپر کے بوڑھے بوڑھیوں کا ملک بن کر رہ جائے گا۔ جاپان۔ فرانس۔ بیلجیم وغیرہ میں تو بوڑھے بوڑھیاں گزارہ کرلیتے ہیں کہ وہاں ٹرانسپورٹ آرام دہ۔ وقت پر چلنے والی موجود ہے۔ دکاندار چیزیں مقررہ قیمتوں پر فروخت کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کی بجائے وہاں ایک دوسرے کی مشکل میں ساتھ دیا جاتا ہے اظہار خیال پر سادہ لباس والے اٹھانے نہیں آجاتے۔ دروازے نہیں توڑے جاتے۔ ہمارے ہاں نوجوان اسی طرح روزگار۔ عزت۔ وقار کی تلاش میں ملک چھوڑتے رہے تو یہاں ایک طبقہ ایسا رہ جائے گا جسے پولیس کبھی چھیڑتی نہیں اور دوسری طرف ایسے طبقے جنہیں پولیس کبھی چھوڑتی نہیں۔ قوموں پر ایسا وقت آتا رہا ہے۔ وہ اس کامقابلہ کرتی ہیں۔ جب مزاحمت کیلئے صف بندی ہوتی ہے تو نوجوان ہی اس کا ہر اول دستہ ہوتے ہیں۔ ہمیں بہرحال اس بحران کو شکست دینا ہے۔ ہمیں ان شہدا کی روحوں کو مطمئن کرنا ہے۔ جو ہماری حفاظت کرتے ہوئے سرحدوں پر۔ اندرون ملک دہشت گردوں کو ناکام بنانے کیلئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔ وہ اپنی نوکری اور وردی کی شان برقرار رکھ رہے ہیں۔ ہمیں بد زبانی۔ بدتہذیبی۔ دھکوں اور مکوں کو خیر باد کہنا ہے۔ پولیس کو شداد نہیں محافظ بنانا ہے۔آج 2023کا آخری دن ہے۔ بہت قہر۔ بہت زہر بھرا سال۔ ایک اک دن گن گن کر گزرا۔ کم ہی خوش نصیب ہوں گے جن کی صبحیں خوشگوار رہی ہوں۔ جنہیں شامیں سہانی ملی ہوں۔ روزگار چھینے گئے۔ کتنے لاکھوں غربت کی لکیر سے نیچے جاتے رہے۔ مایوسی۔ بیزاری۔ جھلاہٹ ۔ برہمی۔ امید۔ کیف۔ تسکین اور راحت کی جگہ لیتی رہیں۔ آج اس شقی القلب سال کا آخری سورج غروب ہونے والا ہے۔ آنے والے سال 2024 کو ورثے میں ناانصافیاں۔ بربریت اور سفاکی منتقل ہوگی۔ لیکن ہم سب کی یہ آرزو نہیں ہے۔ چند حکمران طبقوں کو چھوڑ کر اکثریت کی دعا اور تمنا یہ ہے کہ نیا سال اس مملکت خداداد کیلئے عدل۔ میرٹ کی قبولیت اور قانون کی حکمرانی لے کر آئے۔ کالا کیمرہ کالا کوٹ کسی حد تک تبدیلی کی نوید دے رہے ہیں۔ پاکستان اس وقت جن سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ اس میں سب سے خطرناک یہ ہے کہ اکثریت کو ریاست اور حکومت پر اعتماد نہیں رہا ہے۔ سب سے ضروری تو یہ ہے کہ اس اعتماد کو بحال کرنے کیلئے ریاست اور حکومت عملی اقدامات کریں۔ اس سے جو ذوق یقیں پیدا ہوگا اس سے مایوسی کی زنجیریں کٹ جائیں گی۔ یہ سر زمین ہماری ہے۔ سب ادارے ہمارے ہیں۔ آپس میں نفرتیں مفاد پرست طبقے نے سامراجیوں کے کہنے پر پیدا کی ہیں۔ وہ اس عظیم وسائل والی مملکت میں بے یقینی برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کو حقارت سے دیکھنے۔ ان کے خلاف فرامین جاری کرنے یا سوشل میڈیا پر اپنے اداروں اورلوگوں کے خلاف وڈیوز۔ آڈیوز۔ اور پوسٹیں جاری کرنے سے ملک بحرانوں سے نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔

سب کو سوچنا ہے ۔ جمہوریوں کو ۔ انتخابیوں کو ۔ خود کو عقل کل سمجھنے والوں کو ۔ کسی کو ہمیشہ زندہ نہیں رہنا ہے۔ 76سال میں کتنے سفاک آئے۔ جن کے منہ سے نکلا ہوا لفظ ہی قانون اور آئین ہوتا تھا۔ انہیں تاریخ کی کچرا کنڈی میں کوئی نہیں ڈھونڈتا۔ جو ظلم اور نا انصافی کا شکار ہوئے۔ ان کی قبروں پر شہر کے شہر کھنچے آتے رہے ہیں۔ ان کے نام دلوں پر نقش ہیں۔

ہماری یونیورسٹیوں۔ تحقیقی اداروں ۔ د ا نشوروں ماہرین کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آج کی بد تہذیبی۔ بد زبانی۔ سفاکی اور پولیس کے تشدد کے اسباب ڈھونڈیں۔ پاکستانی معاشرہ اس موڑ تک کیسے پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ ذمہ داری ملک کی سب سے بڑی درسگاہ کراچی یونیورسٹی کی ہے۔ علمی تحریکیں یونیورسٹیوں سے ہی چلتی ہیں۔ ایک دوسرے کیخلاف نفرت کی بجائے۔ نفرت ان نظاموں۔ پالیسیوں۔ نا انصافیوں سے جو معا شر ے میں میرٹ کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی نہیں ہونے دے رہے ۔

بشکریہ روزنامہ جنگ