ایک فارسی شعر برسوں سے ذہن میں گونجتا تھا۔ پاکستان کے ابتدائی برسوں میں ہمارے عظیم والد حکیم صوفی شیر محمد بھی اپنی تقریروں میں پڑھا کرتے تھے۔
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
( دریا کے منجدھار میں مجھے تختے پر باندھ کر چھوڑ دیا ہے۔ پھر یہ بھی کہتے ہو کہ خبردار ہوشیار دامن تر نہ کرنا)
ان دنوں یہ شعر عملی جامہ پہن کر میرے سامنے ہے۔ کبھی راجدھانی کے قریب پس دیوار زنداں۔ کبھی دارُالحکومت کے چوراہوں میں۔
میرے پاس بھی کہانیاں بہت ہیں۔ میں بھی آپ کو ڈرامائی انداز میں قصّے سناکر خوب مدہوش رکھ سکتا ہوں۔ لیکن مجھے اپنے آئندہ کی تشویش رہتی ہے۔ میری نصف صدی سے کوشش رہتی ہے کہ جو کچھ میرے بزرگوں کو میری گنہ گار آنکھوں کو جھنگ لاہور، کوئٹہ، کراچی، ملتان، ڈھاکہ، چٹاگانگ، دبئی، کھٹمنڈو میں دیکھنے کو ملا ہے۔ میرے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں دامادوں کو اسکا سامنا نہ کرنا پڑے۔ چند گروہ ہیں جو ہمیں مسلسل اضطراب میں رکھتے ہیں۔ اپنی راحتیں برقرار رکھتے ہیں۔ وہ اقلیت میں ہیں۔ پھر بھی اکثریت کی نیندیں اڑاتے رہتے ہیں۔ دنیا بھر کے مصلحین، فلسفیوں، دانشوروں نے صدیوں کی عرق ریزی کے بعد انتخابات کا طریق کار۔ مسلمہ طور پر اکثریت کی رائے کیلئے طے کیا کہ ایک فرد ایک ووٹ کے ذریعے کروڑوں ووٹر کسی ایک پارٹی کو مینڈیٹ (حق حکمرانی) دے کر ملک کو استحکام اور خوشحالی کی راہ پر لے جاتے ہیں۔یہ پارٹی اپنے ماہرین کے ذریعے ایک انتخابی منشور (روڈ میپ) قوم کے سامنے پیش کرتی ہے۔ ہمارے ہاں اس طریق کار کو بھی 1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے انعقاد کے ذریعے ختم کردیا گیا۔ اسکے بعد باریاں لگیں۔ عوام کو اپنی مرضی کے نمائندے منتخب کرنے کی آزادی نہیں ملی ہے۔
اس پس منظر سے ہمارے با شعور، عوام اچھی طرح واقف ہیں،اس وقت دریا میں طغیانی بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ڈی ایم کی اپوزیشن کے بغیر پارلیمنٹ نے اپنی قانون سازی سے ملک کی سیاسی زندگی میں بھونچال برپا کیے ہوئے ہیں۔ کسی ملک کی تاسیس سے پہلے بھی اتنے چیلنج نہیں ہوتے تھے۔ جتنے چیلنج گوادر سے واہگہ تک 25 کروڑ پاکستانیوں کو آج درپیش ہیں۔ نگراں حکومتیں۔کلیدی عہدوں پر فائز حکام کو ان چیلنجوں سے نمٹنے کی ترجیح بھی نہیں ہے۔ تربیت بھی نہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام کو ریاست اور حکومت پر اعتبار نہیں رہا ہے۔ کہیں اگر کوئی پیشرفت خلوص نیت سے بھی ہورہی ہو تو خلقت کو خدشہ ہوتا ہے کہ’ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ ‘ریاست فلموں ڈراموں کی وہ ماں بن گئی ہے جو ہیرو کو اپنی مرضی سے دلہن کا انتخاب نہیں کرنے دیتی بلکہ اپنی کسی بھانجی سے شادی پر مصر ہوتی ہے۔ ورنہ ہیرو کو صاف صاف صاف کہہ دیتی ہے کہ اگر اس نے اسکی پسند کی شادی نہ کی تو وہ اپنی ماں کا مرا ہوا منہ دیکھے گا۔پاکستان کے عوام اپنی ماں سے حد درجہ محبت کرتے ہیں۔ وہ ایک بار 1971ء میں یہ سانحہ دیکھ چکے ہیں۔ اس لیے اب وہ یہ المیہ نہیں دیکھنا چاہتے۔
آج ہمیں دوٹوک باتیں کرنا ہیں۔ ریاست اور 38 سال سے حکومت کرتی قومی سیاسی جماعتیں۔ آج کی بد حالی اور اضطراب کی ذمہ دار ہیں۔ اسلئے ہم عطار کے لونڈے سے دوا کیوں لیں، جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔ اور جو کسی مخلص اور خیر خواہ کو میدان میں اترنے ہی نہیں دینا چاہئے۔
پاکستان کے عوام کو ریاست اور میڈیا نے چند سو نا اہل اور غیر مخلص افراد کا یرغمال بنادیا ہے۔ ہم ان حکمران طبقوں سے وفا کی امید کرتے ہیں جو نہیں جانتے وفا کیا ہے۔ اور جن کے خمیر میں سفاکی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ جبکہ ملک میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ماہرین موجود ہیں۔ جو دن رات ملک کو درپیش اقتصادی، علمی، سماجی، زرعی، صنعتی مسائل پر تحقیق کرتے رہتے ہیں۔ جو قوموں کے عروج و زوال پرنظر رکھتے ہیں۔ جنہوں نے بہت قریب سے یہ تفہیم کی ہے کہ قوموں نے اپنے بحرانوں کا کیسے مقابلہ کیا۔اس لیے ان سب ماہرین کو، تحقیقاتی اداروں کو، یونیورسٹیوں کو،میڈیا گھروں کو آگے آنا چاہئے۔ خیال رہے کہ ان مسائل سے قومی سیاسی جماعتوںکےسربراہ اور عہدیداروں کو اتنی مشکلات نہیں ہیں جتنی اکثریت کو ہے۔ اس لیے وہ ان کے حل کیلئے، انتخابی منشور کی اشاعت کیلئے بے تاب بھی نہیں ہیں۔ آج انتخابات میں 41 دن رہ گئے ہیں۔ کسی پارٹی نے انتخابی شیڈول نہیں دیا ہے۔ اس کے اپنے اسباب ہیں۔ ان جماعتوں کے سربراہ بخوبی جانتے ہیں کہ مقامی اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ کیا چاہتی ہے۔ انہیں اپنے مفادات عزیز ہیں۔ ملکی مفادات نہیں۔ بین الاقوامی اقتصادی ماہرین، معیشت کا حقیقی اور معروضی جائزہ لینے والی مستند ایجنسیاں کہہ رہی ہیں:پاکستان کی سرکاری، پرائیویٹ اور کارپوریٹ کی اقتصادی بنیادیں کمزور ہیں۔ پاکستان کے سیاسی افق پر غالب سیاسی پارٹیوں کی یہ تاریخ ہے کہ وہ آئی ایم ایف سے اتفاق کردہ اصلاحات پر عملدرآمد میں ہمیشہ ناکام رہی ہیں۔ امکان تو ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے معاملات بتدریج درست ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب پاکستان کی ماضی کی نسبت مالی مدد کرنے والے بھی کم رہ گئے ہیں۔ اسلئے آئی ایم ایف کے آئندہ پروگرام کا یہ تقاضا ہوگا کہ مضبوط طاقت ور مفاد پرست طبقوں کے برخلاف وسیع پیمانے پر اداراتی اصلاحات کو اختیار کیا جائے۔ ‘‘ یہ خدشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ انتخابات کے نتائج زیر عمل اصلاحات کوخطرے میں ڈال دیں اور نئے سیاسی طوفانوں کا آغاز کردیں۔ سیاسی اظہار خیال کی آزادی مئی 2023ءکے احتجاج کے بعد سمٹ کر رہ گئی ہے۔
ان حالات میں میری آپ سے درخواست یہی ہے کہ یہ مسائل چونکہ سب سے زیادہ آپ کو پریشان کررہے ہیں۔ آپکے خاندانوں کو زیادہ کرب کا سامنا ہے۔ آئندہ بھی آپکی اولادوں کو ہی یہ سفاکی اور بد زبانی برداشت کرنا ہوگی۔ اس لیے آپ کا قومی فرض ہے کہ آپ اپنی قریبی یونیورسٹی کے ارباب اختیار سے ملیں۔ کوئی تحقیقی ادارہ آپ کے نزدیک ہے۔ ماہرین آپ کے حلقۂ احباب میں ہیں۔ ان سے کہیں کہ وہ اپنی دانش، تحقیق کے مطابق آئندہ دس پندرہ سال کا روڈ میپ دیں۔ میڈیا ہاؤسز ،غیر سرکاری میڈیا کو اپنے اس قومی فرض کی ادائیگی کیلئے آگے آنا چاہئے۔
ایک طرف غربت کی لکیر سے نیچے کروڑوں کی سسکیاں سنیں، دوسری طرف بین الاقوامی اقتصادی جائزہ اداروں کی خبر داریاں۔ اسلئے پاکستانیوں کو، سب کو مل کر اس تاریک سرنگ سے باہر نکلنا ہے۔ محاذ آرائی زیر زمیں بارودی سرنگوں کی طرح ہے۔ سب ادارے سب جماعتیں ماہرین مل کر بحران کا مقابلہ کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ