بے نظیر’قیادت سے شہادت‘ تک : تحریر مظہر عباس


ابھی بھٹو جیل میں تھا، اکتوبر1977کے الیکشن اس خوف سے ملتوی کر دیئے گئے تھے کہ وہ انتخابات جیت رہا تھا۔انتخابی نشان ’’تلوار‘‘بھی لے گیا مگر پھر بھی مقبولیت میں کمی نہ آئی تو راستے سے ہی ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا اور پھانسی بھی دے دی گئی تو اسکےچاہنے والوں کا ہی نہیں بہت سے دوسروں کا ووٹ بھی اس کے نام پر ہی پڑنا شروع ہو گیا۔ 1979ءاور 1983ءکے بلدیاتی الیکشن ہوئے تو لوگوں نے’ عوام دوست ‘ امیدواروں کو ووٹ دیئے کیونکہ انہیں پتا تھا یہ پی پی پی والے ہیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ جب بھٹو کے دور میں 1977ءکے الیکشن ہوئے تو اس وقت کی اپوزیشن نے دھاندلی کا الزام لگایا اوربڑی تحریک چلائی، ابھی سیاستدان معاملات طے ہی کر رہے تھے اور مذاکرات کامیاب ہونے والے تھے کہ جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا اور 90 روز میں الیکشن کا کہا، اب اسے کیا پتا تھا کہ زمینی حقائق کچھ اور ہی تھے، یوں بھٹو کو مار کر بھی وہ ہار گیا اور بھٹو جان کی بازی ہار کر بھی جیت گیا۔

ابھی پھانسی نہیں ہوئی تھی بھٹو نے جیل سے بابائے سوشلزم شیخ رشید (گیٹ نمبر4والےنہیں)کو پیغام دیا کہ سینئر وائس چیرمین کی حیثیت سے آپ قائم مقام چیئرمین ہونگے مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ’’آپکی پارٹی کے جاگیردار مجھے قبول نہیں کرینگے بہتر ہے بیگم صاحبہ (نصرت بھٹو) کو قائم مقام بنا دیں‘‘۔ بیگم صاحبہ کا ستمبر 1977کا ایک جلسہ میں نے نشتر پارک میں دیکھا تھا جسکے بعد ہم دوستوں کو شک تھا کہ الیکشن اب نہیں ہونگے اور پھر ایسا ہی ہوا۔ بیگم بھٹو کی گرفتاری سے پہلے غیر سیاسی خاتون تھیں مگر پھر وہ اپنی بیٹی بینظیر بھٹو کے ساتھ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم پہنچ گئیں پاکستان کا میچ دیکھنے ،لوگوں نےانکو دیکھ کر ’’جئے بھٹو‘‘ کے نعرہ لگانا شروع کر دیئے، پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا جس میں ماں کو گہرا زخم آیا بیٹی کو معمولی ۔ یہ ابتدا تھی بی بی کی عملی سیاست میں آنے کی۔ جن لوگوں نے مارشل لا کا وہ وقت دیکھا ہے انہیں اندازہ ہے ۔فوجی عدالتوں سےسزائیں دھڑا دھڑ دی جا رہی تھیں ،تحریک چلانا آسان نہ تھا ۔ بے نظیر بھٹو اس زمانے میں 70کلفٹن میں رہتی تھیں۔ انکو طلبہ یونین کا کچھ تجربہ تھا ،وہ آکسفورڈ یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی صدر رہ چکی تھیں لہٰذا وہ کبھی کبھار ’’بلیک بورڈ‘‘ پر پی پی پی اور پی ایس ایف کے کارکنوں کو نعرہ اور چاکنگ کی تربیت بھی دیتی تھیں۔ کارکنوں نے شکایت کی کہ ہم مظاہرہ کرتے ہیں مگر مقامی لیڈر اور مرکزی لیڈرنہیں۔

ایک روز بی بی نے ان سب کو پیغام بھیجا کہ فلاں لیڈر کی بیٹی کی سالگرہ ہے غالباً فیڈرل بی ایریا میں، سب وہاں پہنچیں میں بھی آ رہی ہوں۔ سب پہنچ گئے تو انہوں نے سب سے کہا ’’آپ لوگ سالگرہ میں آ سکتے ہیں کیونکہ میں وہاں ہوں مظاہروں میں کیوں نہیں جاتے کیا صرف کارکن مار کھانے کیلئے ہیں۔ تمہارا لیڈر جیل میں ہے اور تم گھروں میں‘‘۔

یہ بی بی کی سیاست کے ابتدائی دن تھے وہ عملی جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں مگر مسلح جدوجہد کے خلاف تھیں جبکہ بیگم صاحبہ اس کو ردعمل کی سیاست کہتی تھیں۔ بی بی کو اسی وقت اندازہ ہو گیا تھا کہ کون سا پارٹی لیڈر بھٹو کو بچانا چاہتا ہے او رکون پھانسی کا منتظر ہے۔ بی بی کے پاس بھٹو کے بہت سے نوٹس جو وہ لکھوایا کرتے تھے موجود تھے۔ وہ ملاقات کو جاتیں تو قلم اور پیپر ساتھ ہوتے تھے۔ پھر بھٹو کو پھانسی ہو گئی کارکنوں نے بچانے کی خاطر خود سوزی بھی کی۔بی بی نے سکھر جیل میں سخت وقت گزارا اور گھر میں نظر بندی بھی جھیلی، پھر انہیں فوجی عدالت نے کمیونسٹ رہنما جام ساقی اور دیگر کے کیس میں بیان دینے کو بلایا ،وہاں جا کر انہوں نے بغاوت کیس میں ان رہنماؤں کا دفاع کیا۔ اسکے بعد بیگم بھٹو اور بینظیرکوملک سے باہر بھیجنے کا فیصلہ ہوا مگر اس سے پہلے انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ تحریک بحالی جمہوریت ایم آر ڈی کی بنیاد رکھ دی تھی جو ملک کی تاریخ کا سب سے نظریاتی اتحاد ثابت ہوا۔ یہ آسان نہ تھا خاص طور پر بیگم صاحبہ کیلئےسابقہ پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد کے لوگوں کو 70کلفٹن بلانا۔ یہی اصل سیاسی لچک ہوتی ہے، جس طرح 2006 ء میں نواز شریف سے تمام تر مخالفت کے باوجود میثاق جمہوریت کیا، باقی لچک نہیں سیاسی غلطیاں تھیں مثلاً 1988میں مشروط حکومت لینا، جنرل اسلم بیگ کو تمغہ جمہوریت دینا اور آخری سیاسی غلطی جنرل مشرف سے این آر او جس کا سیاسی طور پر بی بی کو نقصان ہوا۔

وہ 10اپریل 1986ءکو جلا وطنی ختم کر کے واپس لاہور پہنچیں تو لاکھوں لوگ ایئر پورٹ سے مینار پاکستان تک موجود تھے وہ بلاشبہ ’’بے نظیر استقبال‘‘ تھا، جس نے ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کو پریشان کر دیا اور یہ ابتدا تھی ’’مائنس بینظیر فارمولے‘‘ کی جو27دسمبر 2007ءکو عملی شکل میں سامنے آئی مگر اس سےپہلے کیا کیا ہوا یا یوں کہیں کہ کیا نہیں ہوا۔ جنرل ضیاء نے کئی بار پارٹی توڑی کبھی ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ استعمال ہوئے تو کبھی غلام مصطفیٰ جتوئی۔ یہ سب ہوا مگر بی بی نے مقابلہ کیا واپس آ کر۔ بینظیر مشروط اقتدار نہیں لینا چاہتی تھیں مگر بیشتر مرکزی رہنماؤں نے ان سے کہا کہ اگر اب ہم نے حکومت نہ بنائی تو کارکنوں کو مزید کئی سال جیل میں رہنا پڑئیگا تو بی بی نے مسکرا کر ان سے کہا ’’میں ہوں نا جیل جانے کیلئے‘‘۔ وہ ایک سیاسی غلطی تھی جسے انہوں نے میرے ساتھ گفتگو میں مانا بھی۔ دوسری غلطی ایم آر ڈی کے ساتھ حکومت بنانا اور ریاستی دباؤ میں غلام اسحاق خان کو نوا بزادہ نصر اللہ کے مقابلے میں صدارتی الیکشن میں ووٹ دینا۔ پھر جب وہ 6اگست 1990ءکو برطرف ہوئیں تو انہوں نے کراچی میں پریس کانفرنس میں نام لے کر ملٹری انٹیلی جنس پر الزام لگایا اپنی حکومت کی برطرفی کا۔ آنیوالے وقتوں میں اصغر خان کیس میں خاص حد تک یہ ثابت بھی ہوا۔وہ بہت بہادر خاتون اور لیڈر تھی ۔ لاٹھیاں پڑیں اور گولی بھی لگی مگر وہ عوام کے درمیان موجود رہیں۔ لیاری ہو یا لیاقت باغ آنسو گیس ہو یا بم دھماکے کارکن لیڈر کو ساتھ دیکھتے تھے ۔

27 ؍دسمبر کی صبح اور 26؍دسمبر کی شام ان کو ڈی جی ISI سے لیکر افغان صدر تک نے کہا ’’آپ کی جان کو شدید خطرہ ہے لیاقت باغ نہ جائیں‘‘۔ مگر انہوں نے جواب دیا ’’اب نہیں گئی تو کبھی نہیں جا سکوں گی‘‘۔ سو وہ گئیں اور پھر دنیا سے ہی چلی گئیں۔

وہ جو کہتے تھے کوئی نہیں جاں سے گزرتا

لو جاں سے گزر کر اسے جھٹلا تو گئے ہم

بشکریہ روزنامہ جنگ