پڑھے لکھے لوگوں کے خیال میں یہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مجھ جیسے جاہل کو تو یہ ایک جیسی ہی نظر آتی ہیں۔
مجھے کسی کا غرور سے بولنا یا کسی کے غرور میں کسی کو نہ دیکھ پانا بھی دھند ہی نظر آتا ہے۔
کل 25 دسمبر تھا میں لاہور والے گھر سے پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ چیک اپ کرانے کیلئے نکلا۔ کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ میں اللہ سے معافی مانگ رہا تھا ۔ میری نظر کو کیا ہوگیا مجھ سے غلطی ہوگئی معاف کردیں۔ ڈی ایچ اے چوک میں لگا مینار پاکستان اپنی جگہ سے غائب تھا۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے باہر لکھا آئی لو یو پاکستان بھی غائب تھا۔ آگے گیا تو پاکستان کڈنی لیور انسٹیٹیوٹ کا گیٹ نمبر 1 بھی غائب تھا اب سمجھ نہیں آرہا تھا ہسپتال کے اندر کہاں سے جائیں۔ پھر دیکھا تو پورا ہسپتال بھی غائب تھا۔
میں خاموش تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ سب معاملہ کیا ہے۔ بول نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ 18 دسمبر 2023 سے آواز تقریبا سائلنٹ پر ہے میں بولتا ہوں پر میری آواز کسی کو نہیں جاتی۔ کافی دفعہ اللہ باری تعالیٰ سے معافی بھی مانگی کیونکہ کچھ دفعہ میرے منہ سے جاہلانہ الفاظ ادا ہوئے کہ میری آواز اسلام آباد میں سب سے بلند ہے اور پچھلے آٹھ دن سے رب باری تعالیٰ نے مجھے احساس دلایا کہ تمھاری آواز دنیا میں سب سے کم ہے۔
ایک نئے خوشگوار احساس نے جنم لیا جو آواز کا آہستہ پن ہے نا یہ تو محبت کی آواز ہے۔ جس سے بھی بات کرو وہ یہی سمجھتا ہے کہ بات شفقت اور محبت سے کی جارہی ہے۔ میں نے آواز اور نگاہ کے اندر پیسٹل کلرز اور واٹر کلر دیکھے۔ دھند میں رھنا اور دیکھنا مجھے وہ وقت یاد دلاتا ہے جب ہم نے سوفٹ فلٹر یا گلو فلٹر خریدے تھے اور جو رزلٹ آتا تھا اب ویسی دنیا نظر آتی ہے۔ سنا ہے آجکل حالات بہت دشوار ہیں تو رب باری تعالیٰ نے دھند اور سموگ کے ذریعے انکو سوفٹ کردیا ہے تاکہ لوگوں کی مجبوریاں اور دشواریاں کسی دنیادار کمینے کو نظر نہ ائیں۔
ذہنوں پر چھائی سموگ نکل کر بار آگئی ہے اب کسی کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ صبح سوچاایک ویلاگ ریکارڈ کروں اور دکھاؤں دنیا کو کہ دھند اور سموگ کیا ہے تو میں بے بس ہوکر رہ گیا نہ آواز تھی نہ کوئی ویژیول تھا۔ اس لیے ویلاگ کٹ نہیں کھولی۔
مجھے اس غزل کے اشعار سنائی دینے لگے
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
میں سجدے میں پڑ کر معافی کا طلب گار ہوگیا۔ مجھے احساس ہوا کہ کہ نعوذباللہ کتنے لوگ اس دھند میں جب کچھ دکھائی نہیں دیتا تو اپنے آپ کو نعوذباللہ خدا سمجھنا شروع کر دیتے ہوں گے۔ کہ اب صرف میں ہی ہوں۔
لاہور بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے پر بدقسمتی سے سموگ نے اس ساری ترقی کو چھپا لیا ہے۔ نہ تو غریب کی غربت نظر آرہی ہے اور نہ ہی انڈر پاسز ۔
نگران حکومت بہت تیزی سے ترقیاتی کام کروارہی ہے۔ پر شاید انکو اندازہ نہیں کہ انڈر پاسز بنوانے کے علاؤہ جو باقی کے کام ہوتے ہیں انکو بھی ترقیاتی کام ہی کہتے ہیں۔ سستے داموں اناج کی فراہمی ، علاج معالجے کی سہولیات ، اچھے روزگار اور جینے کی بنیادی سہولیات ۔
انڈر پاس کے اندر سے ہوا بہت تیزی سے گزرتی ہے ورنہ حکومت کو مشورے دیتا وہاں آرام گاہیں بنادیں کہ جو سردی سے ویسے بچ گئے ہیں ایسے ہلاک ہوجائیں۔
سب صاحب اختیار سے درخواست ہے پہلے غربت اور بے بسی کا کوئی علاج کرلیں ورنہ سب اس کا شکار ہوجائیں گے اور آپ کو تو نظر کچھ نہیں آئے گا کیونکہ لاہور سموگ کا شکار ہیں۔ دعاؤں کی درخواست ہے میرے جیسے ذہنی اور جسمانی بیماروں کیلئے ۔ جو پاکستان اور انسان سے پیار کرتے ہیں۔ بلوچستان سے پیار کرتے ہیں ۔ معاف کردئیو ہن تے دھیاں پہناں تے ماواں وی سڑکاں تے اگیاں نے۔
یا باری تعالیٰ کوئی ایسی بارش ہو جائے۔ جس سے ذہنوں کی سموگ چھٹ جائے ۔ پاکستان امن کا گہوارہ بن جائے۔