جھوٹ کی فراوانی اور ہتک عزت کا قانون : تحریر مزمل سہروردی


وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سپریم کورٹ کے ججز ان کے اہل خانہ اور بالخصوص چیف جسٹس پاکستان اور ان کے خاندان کے سوشل میڈیا پر چلنے والی ایک مہم کے تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔

میرے لیے یہ اہم نہیں کہ تحقیقات میں کون ملزم ہے کون ذمے دار قرار پایا گیا ہے یہ تحقیقاتی اداروں اور عدلیہ کا کام ہے کہ وہ اس کا فیصلہ کریں۔متعلقہ تحقیقاتی ادارہ اپنا چالان عدالت میں جمع کروا سکتا ہے۔

جہاں ملزمان کا ٹرائل ہو کر انھیں سزا مل سکتی ہے۔ اس کے ساتھ اعلی عدلیہ چاہے تو توہین عدلت کی کارروائی شروع کر کے بھی ان ملزمان کو سزا دے سکتی ہے۔

یہ عدلیہ کا فیصلہ ہوگا کہ وہ کیسے چاہتی ہے۔ لیکن حکومت نے تحقیقات کر کے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ میری رائے میں دونوں کام ہونے چاہیے۔ توہین عدالت پر کارروائی بھی ہونی چاہیے اور چالان بھی عدالت میں جمع ہونا چاہیے۔ جھوٹ پھیلانے پر کسی بھی قسم کی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان میں جھوٹ کی ایک بڑی فیکٹری لگ گئی ہے۔ یہاں ہر قسم کاجھوٹ بولنے اور بہتان تراشی کی کھلی آزادی ہے۔ جھوت بولنا لکھنا کوئی جرم ہی نہیں رہا۔ آپ جس پر مرضی جو مرضی الزام لگا دیں کسی کی کوئی پکڑ ہی نہیں ہے۔جھوٹا الزام لگانے والا خود کوقانون سے مبرا سمجھتا ہے۔

ایک رائے بن گئی ہے کہ الزام لگا دو بعد میں دیکھی جائے گی۔ کبھی ثابت کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ اس لیے جھوٹ بولنا آسان ہوگیا ہے۔ جب جھوٹ بولنا قابل گرفت ہی نہیں رہا تو پھرہمیں ہر طرف جھوٹ ہی نظر آتا ہے۔ سیاست میں تو جھوٹ نے اس قدر انتہا کر دی ہے کہ اب سچ ڈھونڈنا مشکل سے مشکل ہوگیا ہے۔ سچ اور جھوٹ میں فرق مشکل ہوگیا ہے۔

جھوت بولنے والے اپنا جھوٹ پکڑے جانے پر اب کوئی شرمندہ نظر نہیں آتے بلکہ ڈھٹائی سے جھوٹ پر قائم رہنے کا رواج بن گیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جھوٹ بولا بھی شان سے جاتا ہے اور اس پر قائم بھی شان سے رہا جاتا ہے۔

اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ جھوٹا الزام لگانے والا بیچارے سچے کو چیلنج کرتا نظر آتا ہے کہ اگر تم سچے ہو تو ثابت کرو کہ تم سچے ہو ۔ جھوٹے پر یہ شرط ہی ختم ہوگئی ہے کہ اس نے اپنا جھوٹ سچ ثابت کرنا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ دنیا بھر نے جھوٹ کو پھیلنے سے کیسے روکا ہے۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے اب بھی عرض کرتا ہوں کہ جھوٹ کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں کوئی خصوصی قوانین نہیں بنائے گئے۔ دنیا مانتی ہے کہ جھوٹ کو روکنے کے لیے ہتک عزت کا موثر قانون ہی کافی ہے۔

پاکستان میں تو ہتک عزت کا فوجداری قانون بھی موجود ہے لیکن دنیا نے تو جھوٹ کو ہتک عزت کے دیوانی قانون سے ہی روک لیا ہے۔ ہتک عزت کا موثر دیوانی قانون معاشرہ میں ہر قسم کے جھوٹ کو روکنے کے لیے کافی ثابت ہوا ہے۔ لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکتا ہے۔ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس کی کیا وجوہات ہیں۔

اگر ہم تقابلی جائزہ لیں تو پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین دنیا کے باقی کئی ممالک سے بہت سخت ہیں۔ ایسا انھیں ہے کہ پاکستان میں ہتک عزت کا کوئی کمزور قانون موجود ہے۔ میں نے اوپر لکھا ہے کہ پاکستان تو دنیا کے ان چند ممالک میں ہے جہاں ہتک عزت کا فوجداری قانون موجود ہے جس میں سات سال تک قید بھی دی جا سکتی ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ آج تک دی نہیں گئی ہے۔ اسی طرح دیوانی مقدمات میں بھی مثالی جرمانے ہو سکتے ہیں۔ لیکن آج تک ہوئے نہیں ہیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ عدلیہ کے سامنے مقدمات نہیں آئے ہیں۔ لوگوں نے عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ لیکن مقدمات سالہا سال سے زیرالتوا ہیں۔ یہ ماننا ہوگا کہ عدلیہ نے کبھی ہتک عزت کے مقدمات کو اس طرح سنجیدگی سے نہیں لیا جیسے لیا جانے چاہیے۔

ہتک عزت کے مقدمات کوئی عام مقدمات نہیں ہوتے۔ جس طرح قتل کے مقدمات میں ایک انسان کی جان چلی جاتی ہے اور انسانی جان کا کوئی نعم البدل نہیں اسی طرح ہتک عزت کے مقدمات بھی کسی کی عزت چلے جانے کے مقدمات ہوتے ہیں اور دیکھا جائے تو عزت کا بھی کوئی نعم البدل نہیں ہے۔

اگر کسی کی عزت چلی جائے تو اس کے لیے زندگی بیکار ہو جاتی ہے۔ اسی لیے دنیا میں ہتک عزت کے مقدمات کو نہ صرف بہت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے بلکہ مثالی جرمانے بھی کیے جاتے ہیں تا کہ آیندہ کسی کو کسی کی عزت سے کھیلنے کی جرات نہ ہو۔

اگر آپ معمولی اور عام جرمانے کریں گے تو ملزم دوبارہ بھی ایسا کرے گا کہ کوئی بات نہیں معمولی جرمانہ ہی ہوگا دے لیں گے اسی لیے جو جرمانے کیے گئے ہیں وہ جھوٹ کو نہیں روک سکے کیونکہ وہ اتنے معمولی تھے کہ کوئی ان سے ڈرتا ہی نہیں۔

پاکستان میں قانون میں لکھا ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا عدلیہ نوے دن میں فیصلہ کرنے کی پابند ہوگی۔

لیکن یہاں نوے دن کیا نو سال میں بھی فیصلے نہیں ہوتے۔ اس لیے اگر آپ کسی کو یہ کہیں بھی کہ تم نے میرے بارے میں جھوٹ لکھا ہے یا میرے بارے میں جھوٹ پھیلا رہے ہو اور میں تم پر ہتک عزت کا مقدمہ کروں گا تو وہ ہنس کر کہہ دیتا ہے کہ کر لو کونسا فیصلہ ہوجانا ہے۔ ہماری سیاست میں بھی جھوٹ کا راج اسی وجہ سے ہے کہ اس کی کوئی پکڑ نہیں۔ آجکل انتخابات کا موسم ہے لوگ کھل کر ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگائیں گے۔ کیونکہ ڈر کوئی نہیں۔

اگر سپریم کورٹ ایک حکم جاری کردے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا ہر صورت نوے دن میں فیصلہ ہوگا۔ اس میں تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی تو آپ یقین کریں ہمارا معاشرہ جنت ہو جائے۔ لوگ جھوٹاالزام لگانا بند کردیں۔ کیوں پاکستان میں ہتک عزت کے معاملات بھی لوگ برطانیہ کی عدالت میں لے کر جاتے ہیں کیونکہ انھیں یقین ہے کہ برطانیہ میں فیصلہ ہو جائے گا۔ یہاں فیصلہ ہونے کی کسی کوئی امید ہی نہیں ہوتی۔

اس لیے اب لوگ پاکستان کے بجائے برطانیہ میں کیس کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اب لوگ پاکستان میں تو جھوٹا الزام لگاتے ہیں لیکن برطانیہ میں اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ کیونکہ برطانیہ کے نظام انصاف کا خوف ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جھوٹ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اب ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ عدلیہ بھی اس کی لپیٹ میں آگئی ہے۔ ججز بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ دیگر ادارے بھی اس کی لپیٹ میں ہیں۔

یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ جھوٹ اب پاکستان کو بحیثیت ریاست بھی نقصان پہنچا رہا ہے۔ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کرتے ہیں۔ اور پاکستان بحیثیت ریاست بے بس نظر آتی ہے۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے۔

میری اور آپ کی عزت تو بالکل محفوظ نہیں ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کے فیصلے جلد نہیں ہو رہے۔ آج مقدمات کے فوری فیصلے شروع ہو جائیںتو کل ہی سے حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ حال ہی میں امریکا میں نیویارک سابق میئر جیولیانی کو صرف ہتک عزت کے مقدمہ میں 148ملین ڈالر جرمانہ ہوا ہے۔ یہ مقدمہ ایک انتخابی مہم میں ان کی جانب سے دو مخالف سیاسی کارکنوں پر جھوٹا الزام لگانے کی وجہ سے ہوا ہے۔

سیاسی کارکن جیولیانی کے مقابلے میں بہت غیر معروف ہیں۔ لیکن عدالت نے بھاری جرمانہ کیا ہے۔ جس کے بعد جولیانی نے خود کو دیوالیہ قرار دے دیا ہے۔ جھوٹ کی سزا اس سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں ججز جرمانے کرتے وقت پتہ نہیں کیوں ہاتھ ہلکا رکھتے ہیں جرمانے مثالی ہوں گے تو ڈر ہوگا اور جھوٹ رکے گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس