آٹھ دس سال پرانی بات ہے۔ بہاولنگر سے ایک نوجوان لاہور آیا، اسکی گلیوں، پارکوں میں پھرا، تعلیمی اداروں،سرکاری و نجی انجمنوں کے ہالوں میں جاری پروگراموں کا حصہ بنا، کئی مہینے بِٹ بِٹ لوگوں کو دیکھتا، چہرے پڑھتا اور آنکھوں میں جھانکتا حیران ہوتا رہا، ہر نئے دن ہر طرف تصنع کے نقابوں میں لپٹے مصنوعی ہنسی اور زندگی گزارتے لوگ اس کیلئے سوالیہ نشان بنتے گئے۔اس نے دیکھا ادیب، شاعر اور فنکار سبھی اپنی دکانداری اور ٹھیکے داری تک محدود ہیں۔ سرکاری نوکر کی طرح لگا بندھا وقت مباحثے، مشاعرے اور ڈرامے میں گزار کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ اس دھرتی کے مرض کی تشخیص اور دوا دارو کیلئے بہت کم لوگ متحرک ہیں شاید بہت سوں کو بیماری کی نوعیت کی خبر بھی نہیں۔اُس نے لفظ اور فن کے ذریعے اظہار کی بجائے جگانے والے ڈھولچی کا کردار اوڑھا اور فرداً فرداً لوگوں کے دلوں اور سوچ پر دستک دینے لگا۔ کچھ عرصہ جارحانہ رویہ اپنایا پھر مکالمے کا فیصلہ کرلیا۔ پنجابی پرچار نام کی تنظیم بنائی جس کا مقصد صرف اُس زبان کی ترویج تھی جو اپنوں کی اتنی بے مروتی اور بے اعتنائی برتنے کے باوجو دنیا کی ہزاروں زبانوں میں آٹھویں نمبر پر شان سے کھڑی تھی۔وہ فکرمند تھا ،مایوس نہیں تھا۔ اسلئے نام کیساتھ دُکھی، زخمی اور بہاولنگری لگانے کی بجائے پنجابی لکھا اور سفر آغاز کیا۔ احمد رضا پنجابی نے کئی کامیابیاں حاصل کیں مگر لاہور پلاک میں منعقدہ پہلی عالمی پنجابی کانفرنس کا انعقاد کرنااس کا بڑا کارنامہ ہے جس کی شاباش اسے جیون بھر ملتی رہے گی۔ پہلے وہ پسِ پردہ کام کر رہا تھا اب سامنے آیا ہے۔ ابھی یہ نقطہ آغاز ہے جس کو بڑے معرکے سر کرنے ہیں۔ ابھی اس نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں، نیک نیتی اور پختہ عزم کی عکاسی کی ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانے کا ہنر دکھایا ہے۔ سب نے دیکھا!اس کانفرنس کی فلیکسز پر کسی بینک، کمپنی یا گروپ کی مالی معاونت کے ثبوت کا ایک بھی لوگو موجود نہیں تھا پھر بھی تمام انتظامات مثالی تھے، صحن کے ہر کونے میں رنگ و نور کا سماں تھا۔ پنجاب کے سبھی شہروں کی نمائندگی تھی، میلے سے بڑھ کر رونق تھی، ہزاروں کی تعداد میں لوگ آتے جاتے رہے۔ لاہور میں سردی اوردھند کی آلودگی کے باوجود بچوں، طالبعلموں، بزرگوں اور عورتوں کی صبح سے شام تک موجودگی بہت امید افزا تھی۔ کسی خاص گروپ کی چھاپ نہ کارڈ میں نظر آئی نہ ہال میں۔ ایک دن وہ اکیلا تھا اب سب اسکے ساتھ تھے۔زبان وادب میڈیا، تصوف، کلچر اور سماجی و سیاسی رویوں سے متعلق موضوعات پر شہر اور صوبے کی قد آور شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ بابا نجمی، طارق جٹالہ، عامر یوسف اور انجم گِل ہمہ وقت انتظامات میں پیش پیش رہے۔ افضل ساحر کی بے تکان اور عمدہ کمپیئرنگ نے لوگوں کے ذہن کو متحرک رکھا۔ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور برطانیہ سے صرف اس کانفرنس میں شرکت کیلئے آنیوالے ادیبوں، کالم نگاروں،فلم اور موسیقی سے تعلق رکھنے والی ہستیوں اور پنجابی کارکنوں میںدلجیت سنگھ گیدھو، کلونت کور،اندرجیت سنگھ بینس،اشوک سنگھ بھورا، ڈاکٹرگرپریت دھوگا،جتندر طور، سکھ جندرجیت سنگھ باتھ، ڈاکٹر سریندر پال سنگھ، راجندر کور، رویندر سنگھ، جرنیل سنگھ، سریندر سنگھ، گیانی رویندر سنگھ،ستویس سنگھ پلی، ڈاکٹر ماریہ طاہر، ڈاکٹر امرجیت سنگھ، گورلال سنگھ، لکھویندر پال سنگھ،ترنجیت کور شامل تھے۔ جنہوں نے رانا مشہود احمد خان اور گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن سے ملاقات میں کچھ مشورے اور شکوے بھی رکھے جن میں پنجابی زبان کی ترویج کے علاؤہ واہگہ بارڈر پر ہونے والی دھماکا دار پریڈ کا خاص تذکرہ ہوا۔ بہت جنگیں کر لیں۔ دونوں ملکوں کے عوام کی فلاح اور بقا کیلئے دوستی کے سوا چارہ نہیں۔وفد کا کہنا تھا کہ کسی اور ملک میں اس طرح کی پریڈ دکھائی نہیں دیتی۔ ضروری ہے کہ دونوں طرف موجود پنجابی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اچھی ہمسائیگی کو فروغ دیں اور دیگر ممالک کی بجائے براہ راست واہگہ سے تجارت شروع کریں۔ سیاستدانوں میں ہمیشہ لوگوں کے قریب رہنے والے رانا مشہود احمد خان تینوں دن ذاتی حوالے سے پنجاب اور پنجابی زبان سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے کانفرنس کا حصہ بنے اور پارٹی کی بھی عمدہ طریقے سے نمائندگی کی۔آخری دن پیش کی جانیوالی متعدد تجاویز پر عمل در آمد کی یقین دہانی کرائی۔یہ بہت خوش آئند رویہ ہے کہ ایک پرائیویٹ تنظیم کی منعقدہ کانفرنس کے مہمانوں کو گورنر پنجاب نے گورنر ہاؤس مدعو کر کے سرکاری پذیرائی دی اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما رانا مشہود احمد خان نے وفد کے اعزاز میں پرتکلف اور پرخلوص عشائیے کا اہتمام کرکے پنجابی زبان سے برتی جانے والی بے مہری کی تلافی کا اعادہ کیا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ