چھوٹے شہروں سے ظاہر ہوتے مسیحا… تحریر : کشور ناہید


اسپتال ویسے تو سی ڈی اے کا ہے مگر یہاں سارے ملک کے گوشے گوشے سے ہر عمر کے ڈاکٹر اور میل ،فی میل نرسیں کام کرتی ہیں۔ کچھ رنگ پاکستان کے۔ پہلے دن، را ت کو اسپتال کے کک نے مجھ سے پوچھا آپ کے لئے روز کھانا آتا ہے، مگر واپس چلاجاتا ہے۔ اپنی پسند بتائیں۔ میں اپنے ہاتھ سے بناؤنگا۔ مجھے خاموش دیکھ کر زمین پہ بیٹھ گیا، مجھے دیکھتے ہوئے بولا میں اپنی ماں کو چوری بناکر کھلانا چاہتا تھا۔ مجھے نوکری سے چھٹی نہیں ملی۔ میں آپ کیلئے چوری بنالاؤں۔

شام کی ڈیوٹی پر ایک نوجوان آیا ۔بولا میں جیکب آباد کے گاؤں کا ہوں ۔ میل نرس ہوں۔ دونوکریاں کررہا ہوں۔ دوبھائیوں کو پڑھا رہا ہوں۔ ابھی20برس کا ہوں۔ شادی ہوگئی ہے۔ وہ گاؤں میں ہے۔ میری چار بہنوں کو وڈیرے نے اپنی حویلی میں بلایا واپس نہیں آئیں، اماں کو روتا دیکھ کر،گھر چھوڑ کر آپکو انجکشن لگارہا ہوں۔آپ رونا نہیں ۔ورنہ آپ کو بھی چھوڑ کر چلا جاؤنگا مگر کہاں؟

شام کو ہنس کے ایمرجنسی ڈاکٹر کو بتارہی تھی میرا بلڈ پریشر200ہوگیا ہے۔ کمرے کے باہر کسی بابے نے جلدی سے میرے منہ میں لہسن کا جوا ڈالا چیخ کرکہا۔ چبالے ڈاکٹر اسکو حیرانی سے دیکھ رہے تھے اور میں ہنس رہی تھی۔سانگھڑ سے شمشادنرسنگ کرکے آئی تھی۔ وہ گھر کی پہلی بیٹی ہے۔ سانگھڑ میں میڈیکل سینٹر میں چار سال کا کورس کرکے اسپتال میں ملازم تھی۔ اس نے بیٹھ کر خاندان کی رام کہانی سنائی۔ سب رشتے داروں نے ملنا چھوڑ دیا، چھ ماہ ہوئے اسکی شادی ہوئی ۔ شوہر چین میں باٹنی میں ماسٹر کررہا ہے۔راولا کوٹ سے ڈاکٹری کرکے مریم آئی تھی۔ ہاؤس جاب کررہی تھی۔ بہت کچھ سنانا چاہتی تھی۔ میں رات کی گولی کھاکر سوگئی تھی۔ بٹ گرام سے ڈاکٹر رینا آئی تھی۔ ہاؤس جاب کررہی ہے بہت اعتماد کے ساتھ میرا چیک اپ کرتی۔ موبائل میں میری شکل دیکھ کر ہنس پڑی آپ تو وہی ہیں۔دیامیر سے معاذ میل نرس ہے۔ خوبصورتی اور پھرتی توا سکی رگ رگ میں بسی ہے۔دھیر کوٹ سے ڈاکٹر نادیہ ہاؤس جاب کیلئے آئی ہے،وہ ساری رات ڈیوٹی دیکر صبح نیبولائز کرنے آئی، چکوال سے میل نرس احسن ہے۔ اسکا ایک بھائی عراق گیا ہواہے ،ایک بھائی دوسرے ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتا ہے۔ چکوال چھوڑ کے اسلام آباد آگئے ہیں۔نار ووال سے ڈاکٹر عادل، ڈاکٹر فرحان کے ساتھ پورے اسپتال میں روبوٹ کی طرح ہر مریض کو دیکھتا بار بار تاکید کرتا ہے گرم پانی پئیں ،ہم نے بہت نیبولائز کیا بیکار ہے ،پانی کی بھاپ تین مرتبہ لیں۔ میں نے کہا مجھے تمہارا نام بھول گیا ہے فورا بولا جس ملک میں عدل نہ ہو نام کیسے یاد رہے۔ ڈاکٹر فرحان پورے اسپتال میں میڈیکل وارڈز کو دیکھتے ہیں۔ انکساری اتنی کہ ایک دن میں بیمار ہوئی تو خود چل کر میرے گھر آئے، خوش لباس اور خوش گفتار کسی مریض کی حالت خراب ہو، پریشانی ، اپنے دھیمے مزاج سے دور رکھتے ہیں۔ جس قدر ممکن ہو مریضوں کا حال ذاتی طور پر جاکے پوچھتے ہیں۔

محترمہ عارفہ جنجوعہ، ماشااللہ نرسنگ ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں۔ مریضوں کی جگہ الاٹ کرنا، انکے سکون کا خیال رکھنا۔ نرسنگ میں کام کرنیوالے لوگوں کے مسائل خود حل کرتی ہیں۔ مجھے گھر آکر انجکشن لگاتی رہی ہیں۔ڈاکٹر اشفاق ناصر، بلا کے سرجن اور بے اختیار شعر کہنے والے ۔پوچھا آپ نے کبھی آپریشن کرتے ہوئے، شعر لکھنے کا سوچا یا آمد ہوئی، اسکی بیوی ثمرہ کہتی ہے یہ شعر لکھتے ہوئے ہمیں بھول جاتے ہیں۔ڈاکٹر عمیر، عجب ادب پرست ڈاکٹر ہیں۔ میرے بہت سے شعر محفوظ رکھے ہیں کم گو ہیں مگر جس دن میں تڑپتی ہوئی اسپتال پہنچی سر راہ مجھے دیکھ لیا۔ فورا ویل چیئر منگوائی جوجگہ بھی خالی ملی مجھے لٹا کر فورا ڈرپ لگوائی ،زبان کے نیچے دوا رکھی اور انجکشن لگوائے پو،چھا آپ مجھے جانتے ہیں۔ اس نے مجھے پچھلے برس کی تصویر دکھائی جب میں یہاں داخل تھی۔ وہ روز دیکھنے آتا ہے۔

ڈاکٹر احسن بھی ہاؤس جاب کررہے ہیں، پوچھا اسکے بعد؟ پھر سڑک پر! میں نے کہا اتنے اسپتال خود اسلام آباد اور ملک بھر میں ہیں۔ سچ ہے پر سفارش کہاں سے لائیں وہ ادب پڑھتا ہے۔ ڈاکٹر جنید میرپور سے اس اسپتال میں ہاؤس جاب کررہا ہے۔ خاندان میں پہلا ڈاکٹر ہے ہمت تو کررہا ہے۔اسکے چہرے کی چمک اسکے عزم کی تصدیق کرتی ہے۔ اور وہ جو کبھی نہیں کہتا اس نے میرے جیسے متوسط طبقے کے مریضوں کی مسیحائی کیلئے سب ڈاکٹروں میں کام کی روح پھونکی جس نے انسپکٹر کی طرح چھاپے نہیں مارے اسمِ بامسمی ڈاکٹر فضلِ مولا مگر خوگرحمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے ،وی آئی پی کمروں میں بھی کال بیل نہیں ہے۔ ایمرجنسی میں مریض کو خود اٹھکر، نرس کو بلانا پڑتا ہے۔ اللہ کے فضل سے ساری وہیل چیئرز کے نٹ اسٹینڈ ٹوٹے ہوئے ہیں۔مستحق مریضوں کو باہر سے دوائی نہ منگوانے کو کہیں ۔ آپ کے پاس چیرٹی فنڈہوں تو وہ استعمال کیے جائیں۔

ویسے تو ہزاروں باتیں ہوسکتی ہیں۔ میں بیماری کے باوجود بہت اچھے موڈ میں کالم لکھ رہی ہوں کہ کھانسی رکتی ہے قلم نہیں رکتا۔طاہرہ عبداللہ فلسطین کا حال سنانے آئی۔ میں نے اسکے منہ پرہاتھ رکھا ڈاکٹروں نے شاید اسی احتیاط کیلئے کمروں میں ٹی وی نہیں لگائے اسپتال میں اخبار نہیں آنے دیتے مگر میں اسپتال میں بول نہیں سکتی ۔سن رہی ہوں وہ کچھ جو76سال سے سنا ہوا ہے۔مگر اسپتال کے عملے کو مستعدی سیکام کرتے دیکھ کر تمنا ہے کہ سرکاری اسپتال میں دیانت داری سے کام ہو ۔ ایک جائزہ میڈیکل رپورٹ میں لکھا تھا کہ تمام کولڈ ڈرنکس میں کچھ ایسے عوامل ہیں جو گردوں کو خراب کرتے ہیں شادیوں سے لیکر گاؤں میں بھی دونمبر ڈرنکس ملتی ہیں۔ فیشن جو ہوا ویسے بھی دکھاوا مگر یہ تو پورے یورپ میں فیشن ہے۔

اپنا اور میرا موڈ خراب نہ کریں ان لغویات کو پڑھ کر ۔پڑھیں اپنے مسیحاؤں کے بارے میں انکے مستقبل کی دعاکریں اور یہ بھی دعا کریں کہ اس ملک میں ایک آدھ ڈاکٹر فضل ِمولا جیسی حسنِ مسیحائی اور حسنِ سلوک مزید ارزاں ہو۔

بشکریہ روزنامہ جنگ