انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔ امیدواران نے کاغذات نامزدگی وصول کرنے شروع کر دیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے بھی امیدواران کو کاغذات جمع کروانے کی ہدایت کر دی ہے۔
تحریک انصاف نے شور مچانا شروع کیا ہے کہ ان کے امیدواران سے پولیس کاغذ چھین کر فرار ہو جاتی ہے۔ لیکن ملک بھر سے وہ صرف تین مثالیں ہی سامنے لا سکے ہیں۔
یہ بھی ایک سوال ہے صرف تین امیدواران سے کاغذ چھین کر ریاست کو کیا حاصل ہو جائے گا۔ اگر ایسی کوئی حکمت عملی ہوتی تو ملک بھر کے لیے ہوتی۔ لہذا مجھے یہ بھی ایک سیاسی اسٹنٹ ہی لگتا ہے۔ لیکن ایک طرف امیدوار کاغذ جمع کروا رہے ہیں دوسری طرف ابھی تک الیکشن پر چند قوتوں کے خدشات برقرار ہیں۔
یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تمام خدشات دور کر دیے ہیں۔ لیکن خدشات کے بادل ہیں کہ چھٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ آپ اندازہ لگائیں جو امیدوار کاغذات نامزدگی حاصل کر رہے ہیں، انھیں جمع کروانے کی تیاری کر رہے ہیں وہ بھی اپنے بااثر دوستوں کوجن کو وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں خبر ہوتی ہے رات کو پوچھتے ہیں کہ بتا دیں انتخابات ہونے ہیں کہ نہیں۔ ہم ایسے ہی اتنے پیسے نہ لگا دیں۔ان کے خدشات ختم نہیں ہو رہے۔
ویسے اب تو آرمی چیف نے بھی کہہ دیا ہے کہ مارچ سے پہلے ملک میں عام انتخابات ہو جائیں گے لیکن لوگ پھر بھی خدشات کا شکار ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انھیں خدشات میں انتخابات بھی ہو جائیں گے اور ہمارے یہ دوست بعد میں بھی یہی پوچھتے رہیں گے کہ اچھا یہ انتخابات کیسے ہو گئے۔ انھیں ہونا تو نہیں چاہیے تھا۔
تحریک انصاف نے نو مئی کے حوالے سے جیلوں میں قید اپنے رہنماؤں اور کارکنوں کو انتخابی ٹکٹ دینے کا اعلان کیا ہے۔ ویسے تو نو مئی کے ملزم مفرور اور اشتہاری ہیں۔ اس لیے مفروروں اور اشتہاریوں کے لیے تو انتخابات میں حصہ لینا ممکن نہیں۔ اگر قانون کے مطابق انھیں مفرور اور اشتہاری قرار دیا گیا ہے تو پھر ان کے کاغذات نامزدگی تب تک منظور نہیں ہو سکتے جب تک وہ خود کو قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کر دیتے۔
اس ضمن میں تحریک انصاف کے اٹھارہ رہنماؤں کے شناختی کارڈ بھی بلاک کر دیے گئے ہیں اور 52 سے زائد رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے ہیں، یہ لوگ بھی انتخابات میں حصہ لے سکیں گے، پہلے گرفتاری دیں گے تو انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ اگر انھوں نے گرفتاری دینی ہوتی تو آج تک مفرور اور اشتہاری نہ ہوتے۔ اس لیے ان کا انتخابات لڑنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ سب بھی تحریک انصاف کے لیے ایک دھچکا ہے۔ ان سب کے کاغذ اگر جمع بھی کروائے جاتے ہیں تو مسترد ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں۔
بانی تحریک انصاف نے بھی ملک بھر سے تین حلقوں سے کاغذات جمع کروانے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے میانوالی ، پشاور اور اسلام آباد سے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب بانی تحریک انصاف کو علم ہے کہ وہ نا اہل ہو چکے ہیں تو پھر کاغذات کیوں جمع کروا رہے ہیں۔ کیا وہ نظام کو مزید کمزور کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں ان کے کاغذات جب نا منظور کیے جائیں گے تو پھر ان کو اور ان کی جماعت کو ایک اور بیانیہ بنانے کا موقع ملے گا۔ ان کے ووٹر کو غصہ آئے گا۔ اس لیے انھیں کاغذات جمع کروانے چاہیے۔ اس دوران اگر اسلام آباد ہائی کورٹ سے نا اہلی معطلی کا حکم بھی مل گیا تو پھر انتخابات لڑنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ لیکن شاید انھیں بھی اندازہ ہے تب تک سائفر میں سزا ہو جائے گی، تا ہم پھر بھی وہ کاغذات جمع کروا رہے ہیں۔
یہ سب اتنا اہم نہیں ہے، یہ سب قانون کے دائرے میں ہے اور قانون کہیں نہ کہیں اپنا راستہ بنا لے گا۔ اس لیے کھیل قانون کے دائرے میں ہی ہے۔ لیکن جہاں تک نو مئی کے ملزمان کے انتخابات میں حصہ لینے کی بات ہے یہ ریاست پاکستان کے لیے ایک خطرناک بات ہے۔ اگر قانون کے تحت دیکھا جائے تو جب تک انھیں سزا نہیں ہوتی وہ انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
ہر شہری جب تک سزا نہ ہو جائے قانون کی نظر میں معصوم ہے۔ اس لیے نو مئی کے ملزمان بھی قانون کی نظر میں سزا نہ ہونے تک معصوم ہیں چاہے ان کے بارے میں ثبوت کس قدر مضبوط ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسے تو جن ملزمان کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل جاری ہیں وہ بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں اور ان کے انتخابات میں حصہ لینے میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔لیکن بات صرف قانون کی ہی نہیں ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ ہمارے نظام انصاف نے نو مئی کے سانحہ کو ایک سانحہ نہیں سمجھا۔ اس کو ریاست پر حملہ نہیں سمجھا گیا۔ اس لیے اس کے ملزمان کے ٹرائل ابھی تک تاخیر کا شکار ہیں۔ ٹرائل شروع کرنا تو دور کی بات ہے ان کی ضمانتیں بھی ہو رہی ہیں۔ اسی وجہ سے ریاست کو ان ملزمان کو بار بار دیگر مقدمات میں گرفتار کرنے کی ضرور ت پیش آئی۔ اب ریاست کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ نو مئی کے ملزمان آسانی سے رہا ہو کر سڑکوںپر نظر آئیں۔ اور دوسری طرف نظام انصاف کا رویہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔
اس لیے نومئی کے ملزمان پر نظام انصاف اور ریاست کے درمیان ایک تناؤ بھی نظر آیا۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نظام انصاف نو مئی کے ملزمان کو رہا کرنا چاہتا ہے جب کہ ریاست انھیں گرفتار رکھنا چاہتی ہے۔ یہ کشمکش کافی دن سے جاری ہے اور ہم اس کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اگر نو مئی کے ملزمان کے فوری ٹرائل کا کوئی راستہ بن جاتا تو ہمیں یہ کشمکش نظر نہ آتی۔ بہر حال ٹرائل تو عدلیہ نے ہی کرنا ہے صرف جلد کرنے کا ہی سوال تھا۔
دوسری طرف اب اگر نو مئی کے ملزمان کے انتخاب میں حصہ لینے کا معاملہ ہے تو یہ بھی کوئی اچھی صورتحال نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ فوجی نتصیبات پر حملہ کرنے والے الیکشن میں بھی حصہ لیں ۔ کور کمانڈر کے گھر کو آگ لگانے والوں اور ملک میں انتشار پھیلانے والوں کو کھلم کھلا انتخاب میں حصہ لینے کی بھی اجازت ہو۔پاک وطن کی حفاظت کے لیے جان نثار کرنے والے شہدا کی یاد گاروں کو توڑ ڈالیں انھیں بھی الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے۔ اس لیے یہ ایک خطرناک صورتحال ہے۔ یہ تحریک انصاف کے لیے بھی ٹھیک نہیں۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر تحریک انصاف انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی خواہاں ہے تو اسے خود کو نو مئی کے واقعات سے الگ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر وہ نو مئی کے ملزمان کو فخر سے ٹکٹ جاری کرے گی تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ نو مئی کی ذمے داری قبول کر رہی ہے۔ پھر کیا ہوگا؟ یہ بھی ایک سوال ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس