ضمیر اور اصول بیچنے کا موسم : تحریر مظہر عباس


سب سے پہلے تو استادِ محترم شام صاحب کو85 برس کی عمر میں ’خود نوشت‘ لکھنے پر بہت مبارکباد۔ کل کتاب میلے میں ان کی کتاب خرید کر دستخط کرواتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ انہوں نے پاکستان بنتے اور پھر ایک اور بار تقسیم ہوتے دیکھا ہے۔ ابھی یہ کتاب پڑھنا شروع کی ہے مگر سب سے زیادہ خوشی ان پانچ روز میں ہر روز ہزاروں نوجوان لڑکے لڑکیوں اور بڑوں میں کتاب خریدنے اور پڑھنے کے رحجان کو دیکھ کر خوشی ہوئی جس سے ’پرنٹ‘ کی واپسی کی امیدیں روشن ہوئیں اس رجحان کی حوصلہ افزائی کیلئے ضروری ہے کہ یہ نگراں نہیں تو آنے والی حکومت کاغذ کے کوٹے پر ڈیوٹی ختم کرے تاکہ کورس کی کتابوں سے لیکر سب کتابیں سستی ہوں اور کتابیں لکھنے کے رحجان میں اضافہ ہو مگر یہ اب تک اسلئے نہیں ہوسکا کے ہمارے بیشتر حکمرانوں، سیاسی وغیر سیاسی لوگوں میں پڑھنے کا شوق کم ہی نظر آیا۔ یہاں تو کتابوں پر سنسر کی تیاری ہوتی رہتی ہے، ایسے قوانین بنائے جارہے ہیں کہ لوگ اس طرف کم توجہ دیں۔ جہاں ضمیر اور اصول بکتے ہوں وہاں سوچ پر پہرے لگانا ضروری ہوتا ہے سو،کئی سال سے یہ کوشش جاری ہے کہ کتابیں نہ لکھی جائیں یا اتنی مہنگی کردو کہ خریدنے کی سکت نہ رہے۔ مگر ایک بار جب میں نے یہ بات چند سال پہلے اپنے ماموں محمد مہدی مرحوم سے کی تو انکے جواب نے مجھے لاجواب کردیا کہنے لگے ’’صاحبزادے مہنگی ضرور ہیں مگر کپڑوں اور جوتوں سے سستی ہیں۔ بازار جاو تو کتاب بھی خرید لیا کرو‘‘۔

کتاب میلے میں سیاستدان کم ہی نظر آئے۔ مڈل کلاس کی سیاست ضرور ختم ہو رہی ہے مگر اس طرح کے میلوں میں انہی جماعتوں کے لوگ زیادہ نظر آئے یعنی جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور خوشگوار حیرت جے یو آئی کے دوستوں کو دیکھ کر ہوئی۔ کئی ایک کتابیں اور ناول جن میں سیاست سے لے کر کرکٹ تک شامل ہے، خریدیں میری کوشش ہو گی جلد ختم کروں کیونکہ سیاست بے ڈھنگی اور ٹاک شوز بے ربط سے ہوتے جارہے ہیں اب تو اینکرز کو کبھی کوئی سیاستدان ’سیاسی اداکار ‘ کہتا ہے کبھی شام کے دکاندار تو کبھی کسی اور لقب سے پکارا جاتا ہے۔ اب الیکشن کا موسم آ گیا ہے خبریں کم اور اشتہار زیادہ دیکھنے کو ملیں گے۔ اب ان القاب سے نوازنے والوں کو کیا کہو ں کہ واقعی روزانہ دکانیں لگتی ہیں اور روز خریدار ہی ہم پرالزام لگانے والے ہوتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ بہت سے اینکر اس شعبہ میں اداکاری سے ہی اوپر آئے ہیں اور سیاستدانوں سے ’اداکاری‘ کا مقابلہ تاحال جاری ہے کون بہتر اداکاری کرتا ہے یہ عوام اور ناظرین پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آج کی سیاست ہو یا صحافت کامیابی کا راز یہ نہیں کہ آپ کتنے قابل ہیں کتنی کتابیں پڑھی ہیں بلکہ آپ اپنے آپ کو ’ مارکیٹ‘ کیسے کرتے ہیں تاکہ اچھی ’قیمت‘ لگ جائے۔ بہت کم ایسے سیاستدان اور صحافی گزرے ہیں یا ہیں جنہوں نے ’کتابیں‘ لکھیں امید ہے اب اس طرف توجہ بڑھے گی کیونکہ پڑھنے والوں میں نوجوانوں کا اضافہ ہو رہا ہے اور اگر کاغذ پر ڈیوٹی ختم کردی جائے تو آنے والی نسل اس ڈیجیٹل دور میں بھی اس جانب راغب ہو سکتی ہے۔ پڑھنے لکھنے کے رحجان کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ ہم سوشل میڈیا کے گالم گلوچ کے کلچر سے باہر آ سکیں۔

ہماری سیاست میں نظریات، اصولوں پرکھڑے رہنے والے لوگ ناپید ہوگئے ہیں ویسے توصحافت کابھی یہیں حال ہےلہٰذا الیکشن کے موسم میں ’برساتی مینڈک‘ بہت نظر آئیں گے۔ حیرت ہے ان سیاستدانوں کو شرم تک نہیں آتی جو کل کسی اور کے ترجمان تھے اور آج کسی اور کے بن گئےہیں۔ المیہ یہ ہے کہ کل یہی لوگ جب پھر اپنا قبلہ بدلیں گے تو ان کو پھرسے قبول کرلیاجائے گا۔

ہمارے ہاں الیکشن دراصل اصول اور ضمیر بیچنے کا موسم ہوتا ہے قیمت بھی اچھی لگ جاتی ہے۔اب کس کس کا نام لوں لمبی فہرست ہے بے ضمیر لوگوں کی جوہر بار ’ اپنے ضمیر‘ کے مطابق پارٹی بدلتے ہیں، لیڈر بدلتے ہیں۔ اب یہ بیچارے بھی کیا کریں کہ ہمارے سلیکٹرز‘ بھی رنگ بدلنے میں دیر نہیں کرتے ،کبھی کہتے ہیں اس جماعت میں چلے جاو،کبھی کہتے ہیں اُس کا ساتھ دو ۔ پچھلے کئی سال سے ہماری سیاست ’گیٹ نمبر۔4‘ سے شروع ہوتی ہے اور کورٹ نمبر1‘ پرختم ہوتی ہے اور اگر ان دونوں کے درمیان یا ان کے اپنے اندر اختلاف ہوجائے تو بہت سے سیاستدانوں کی سیاست ہی ’ وڑ جاتی‘ ہے۔ اب بیچارے شیخ رشید احمد اور چوہدری پرویز الہٰی دونوں کے ساتھ اس عمر میں کیا ہوا؟ جن کے گن گاتے تھے انہی کے ہاتھوں رل گئے۔ اب شیخ صاحب کی دوسری کتاب کا انتظار رہے گا۔پرویز الہٰی صاحب لکھیں گے یا نہیں بہرحال چوہدری شجاعت نے تو اپنی سیاسی زندگی پر بہت کچھ لکھ ڈالا اپنی کتاب میں۔ ایساکم دیکھنے کو ملا کہ کسی نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہو مگر سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کا بھٹو کیس کے حوالے سے اعتراف اب اس کیس میںاہم ترین حوالہ ہے کہ دباو میں فیصلے کیسے دیے جاتے ہیں۔

سوال یہ نہیں کہ سیاستدان کس قیمت پربکتا ہے کسی جج کی کیا قیمت لگتی ہے ہماری اپنی صحافتی برادری کیسے راتوں رات رنگ بدلتی ہے مگر خود ووٹر یہ فیصلہ کیوں نہیں کرپاتا کہ ایسے لوگوں کو ووٹ نہیں دینا جو ووٹ پر سودے بازی کرتے ہیں۔ ابھی تھوڑا سا اور انتظار کریں دیکھیں اس نام نہادجوڑ توڑ میں کون جوڑتا ہے اور کون توڑا جاتا ہے کس کو کس طرف جانے کا اشارہ ملتا ہے، اب ذرا ’ پریس کانفرنس‘ کا سلسلہ تھما ہے شاید جتنا کام ہونا تھا ہوگیا مگر یقین جانیں یہ سب نیا نہیں ہے جو نیا ہورہا ہے وہ ہم محسوس ہی نہیں کر پارہے۔خدارا بلوچستان کے سیاسی اسموگ کو محسوس کریں تربت کے ہزاروں مرد و خواتین ایسے ہی اسلام آباد کی طرف مارچ نہیں کررہے۔ محسوس کریں چمن میں ہونے والے دھرنے کو اور اس چنگاری کو جو کسی بھی وقت شعلہ بن سکتی ہے۔ ان موضوعات پر کتابیں تو کیا کالم بھی نہیں لکھا جاسکتا ۔یاد رکھیں مشرقی پاکستان میں جو چنگاری50کی دہائی میں لگائی گئی وہ 71میں شعلہ بن گئی اور پھر ہم اس پر پانی بھی نہ ڈال سکےتھے۔

ہمارے سیاستدان خاص طور پر حکمران اس لیے کوئی ’حقائق کمیشن‘ نہیں بتاتے کہ کیسے اعتراف گناہ کریں۔ بہت کچھ ہے بتانے کو مگر کتابیں کم ہیں جس معاشرےمیں پڑھانے والا، سوچنے والا، لکھنے والا، غائب کردیا جائے، زباں بندی ہو وہاں یہ سب کرنے والے یا ان کے بارے میں ’کتاب‘ لکھنا اور لانا جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے مگر تاریخ آج نہیں تو کل سامنے آہی جائے گی کسی کتابی شکل میں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ