کوئٹہ(صباح نیوز)نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہاہے کہ پاکستان کا آئین کسی ملیشیا کے وجود کی اجازت نہیں دیتا، کچھ گروہ مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر تشدد پر اتر آتے ہیں مگر ریاست ہمیشہ آئین و قانون کے تحت چلتی ہے، 8 فروری کے الیکشن میں حصہ لینے پر کسی شہری پر کوئی پابندی نہیں۔فعال جموریت ملک میں معاشی استحکام لاتی ہے،
کوئٹہ میں بلوچستان کی یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ بات کرکے خوشی ہورہی ہے، پاکستان کا مستقبل روشن ہے، نوکریاں بیچنے کا کاروبار ہم نہیں ہونے دیں گے۔نگراں وزیراعظم نے کہا کہ معاشی لحاظ سے ملک میں ترقی کے بے شمار مواقع ہیں، ملکی آبادی کا 65 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، نوجوان ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں جو ملکی ترقی کی راہ متعین کریں گے۔انوار الحق کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ 10 سالوں میں چین اور خطے کے ملکوں میں 36 ٹریلین ڈالر کی تجارت متوقع ہے، دنیا کی ایک بڑی آبادی اس خطے میں رہائش پذیر ہے، ایک فعال جمہوریت ملک میں سیاسی استحکام لاتی ہے، ٹیکس اکٹھا کرنا اور اس کا موثر انداز میں استعمال بے حد ضروری ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں اسکولوں میں داخلے کی شرح کو بڑھانا ہے، معیاری تعلیم ہماری ترجیح ہے، تعلیم کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا، حکومت کے ساتھ ساتھ سب کو تعلیم کے فروغ میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے، تعلیمی ادارے اپنے اساتذہ کی بنیاد پر بنتے ہیں، آپ اپنی تربیت کی بنیاد پر دنیا میں پہنچانے جاتے ہیں۔نگراں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ انسانی معاشرے کی تشکیل علم کے زیور سے آراستہ کرنے میں ہے، پاکستان کا آئین کسی ملیشیا کے وجود کی اجازت نہیں دیتا، ریاست آئین و قانون کے تحت چلتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو الیکشن ہورہے ہیں، جس کے لیے تمام شہری کاغذات نامزدگی جمع کرواسکتے ہیں اور کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے، وہاں سیاسی طور پر منتخب ہوکر جائیں اور پھر اپنے مسائل پر ایک فورم پر بھرپور انداز سے آواز اٹھائیں۔انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ کسی بھی قانونی مقیم غیر ملکی کو واپس نہیں بھیجا جارہا، پاکستان 5 دہائیوں سے افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے، غیر قانونی مقیم غیر ملکیوں کا پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں، غیر قانونی غیرملکیوں کو اپنے ملکوں کو واپس جانا ہوگا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی مقیم افراد دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث ہیں، دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے لیے ریاست اپنی ذمہ داری ادا کررہی ہے، کوئی بھی ملک کسی غیر ملکی کو بغیر دستاویزات داخلے کی اجازت نہیں دیتا۔۔انہوں نے کہاکہ ہمیں ذمہ دار شہری کا کردار ادا کرتے رہنا چاہیے، ملک کے دیگر علاقوں سے بلوچستان میں مزدوری کے لیے آنے والوں کو کیوں قتل کیا گیا اس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔ایک سوال کے جواب میں انوارالحق کاکڑ نے کہاکہ ہمیں اپنے مسائل کے حوالے سے مختلف فورمز پر بات کرنی چاہیے، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہے، وہاں کسی کے جانے پر پابندی تو نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجا جا رہا، صرف غیرقانونی لوگوں کو واپس بھیج رہے ہیں، ان کا یہاں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ایک سوال کے جواب میں نگران وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ حکومت میڈیا کے اظہار رائی کی آزادی کی مخالف نہیں لیکن ہر چیز کا طریقہ کار ہوتا ہے، ہر بات کے اصول ہوتے ہیں اور حکومت نے میڈیا کی اظہار رائے کی آزادی کے قوانین بنا رکھے ہیں اور ہم سب نے قوانین کے تحت نظام کو چلانا ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت جب بھی سمجھتی ہے کہ میڈیا میں اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے قوانین کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے تو وہ ایکشن لیاجاتا ہے،انہوں نے کہاکہ تشدد کو جواز بنا کر اسے انسانی حقوق کا نام دینا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے، حکومت قوانین کے تحت کسی پر پابندی لگا سکتی اور اسے ختم کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ معاشرے میں زبان، مذہب اور نسل کے نام پر گروہ بنانے والے جواز پیش کرتے ہیں مگر جواز کوئی نہیں ہے، تشدد کو جواز بنانے اور آواز اٹھانے کیلیے آئین نے قومی و صوبائی اسمبلی کے الیکشنز لڑنے کی اجازت دی ہے۔انہوں نے کہا کہ تشدد کو جواز کی بنیاد پر تسلیم کرنا ہے یا نہیں اس کا فیصلہ ریاست کرے گی، کالعدم تنظیم کے لوگ تشدد اور قتل و غارت کرتے تھے، بی ایل اے اور بی ایل ایف بھی یہی کرتی ہے۔
نگراں وزیر اعظم نے نوجوان بالاچ قتل کا نام لیے بغیر کہا کہ ابھی ایک شخص ہلاک ہوا جس کی تحقیقات ہورہی ہیں مگر کوسٹل ہائی وے پر 15 لوگ جل گئے تھے، ان پر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ رحیم یار خان سے مزدور آئے تھے، انہیں حفاظت کیلیے تھانے میں رکھا گیا تھا، دہشت گردوں نے پولیس اور مزدوروں کو قتل کیا مگر کسی نے اس واقعے پر انسانی حقوق کی آواز نہیں اٹھائی، کیا انسانی حقوق کیلیے مخصوص ہونا ضروری نہیں ہے۔نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ حکومت کے پاس بہت ساری معلومات ہیں اور وہ قانون کے تحت میڈیا میں اظہار کی اجازت دینے یا نہ دینے کا استحقاق رکھتی ہے، میڈیا کو آزادی اظہار رائے بھی ایک قانون کے تحت ہی حاصل ہے۔انوار الحق کاکڑ نے اس موقع پر اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کیوں آکسفورڈ میں نہیں بلایا گیا؟ اسلیے کہ ہر چیز کے قوانین ہوسکتے ہیں۔نگراں وزیر اعظم نے کہا کہ قوانین کے تحت ہم کسی پر پابندی لگا سکتے اور ختم کرسکتے ہیں، نہ ہم ولن ہیں اور نہ ہی انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ہیرو ہیں۔