آر اوز عدلیہ سے ہوں یا انتظامیہ سے؟ : تحریر مزمل سہروردی


چیف جسٹس سپریم کورٹ کی بروقت مداخلت سے عام انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد یقینی ہو گیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی کی جانب سے انتظامی افسران کو آر اوز تعینات کرنے کا حکم نامہ معطل کرنے کے بعد پورے ملک میں 8فروری کو ہونے والے عام انتخابات ملتوی ہونے کا شور مچ گیا تھا۔ حتی کہ الیکشن کمیشن کے ذمے داران کا بھی یہی خیال تھا کہ اب ملک میں 8فروری کو انتخابات کرانا ممکن نہیں ہے۔

انتظامی افسران کی بطور آر اوز تعیناتی کا نوٹیفکیشن ہو چکا تھا ان کی ٹریننگ شروع ہو چکی تھی۔ الیکشن شیڈول جاری ہونے میں فقط ایک دن باقی تھا۔ ایسے میں لاہور ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے بعد سارا کام رک گیا۔

اسی لیے ملک میں شور مچ گیا کہ انتخابات ملتوی ہو جائیں گے اب 8فروری کو انتخابات ممکن نہیں رہے۔ لیکن سپریم کورٹ نے ایک دن میں درخواست کی سماعت کر کے انتخابات کا 8فروری کو انعقاد ممکن بنا دیا۔

اس نے نہ صرف لاہور ہائی کورٹ کا حکم معطل کر دیا بلکہ درخواست گزار مدعی کو بھی توہین عدالت کا نوٹس دے دیا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے محترم جج یہ حکم دیکر جوڈیشل مس کنڈکٹ کے مرتکب ہوئے ہیں۔

تاہم انھیں توہین عدالت کا نوٹس نہیں دیا گیا۔ سرسری اور عمومی انداز سے دیکھا جائے تو یہی کہا جائے گا کہ جس نے حکم دیا اس کو توہین عدالت کا نوٹس نہیں دیا گیا، جس نے حکم مانگا اس کو دے دیا گیا۔ لیکن قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ لاہور ہائی کورٹ کے کسی جج کو نہ تو نوکری سے نکال سکتی ہے اور نہ ہی توہین عدالت کا نوٹس دے سکتی ہے جج کو ایک خاص قسم کا تحفظ حاصل ہے۔

اس تحفظ کی وجہ سے اگر کوئی جج متنازعہ حکم بھی دیتے ہیں تو اس کے خلاف براہ راست کارروائی نہیں ہو سکتی تاہم حکم ضرور ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے وہی کیا جو وہ کر سکتی تھی۔ اب عام انتخابات کا شیڈول آگیا ہے۔

سب کام ٹھیک ہوگیا ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو ایک سیاسی بیانیہ ضرور مل گیا۔ سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کا حکم ختم تو کر دیا ہے لیکن تحریک انصاف کو ملنے والا سیاسی بیانیہ اپنی جگہ موجود ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کا حکم تو برقرار نہیں رہا لیکن تحریک انصاف کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ انھیں مل گئی ہے۔

اس وقت تحریک انصاف کا سارا سیاسی بیانیہ یہ ہے کہ اگر ملک میں عام انتخابات کے لیے انتظامی افسران کو آر اوز تعینات کیا جاتا ہے تو ملک میں شفاف انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں ہے۔اس لیے شفاف انتخابات کے لیے جوڈیشل آر اوز لگائے جائیں۔ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ انتظامی افسران ان کے خلاف انتقامی حکم جاری کرتے ہیں۔

اس لیے جن انتظامی افسران نے ان کے خلاف انتقامی حکم جاری کیے ہیں وہ شفاف انتخابات کیسے کروا سکتے ہیں۔ مثال دی جا رہی ہے کہ جن ڈپٹی کمشنرز نے تحریک انصاف کے لوگوں کو جیل بھیجا ہے وہ شفاف انتخابات کیسے کروا سکتے ہیں۔ اس لیے عدلیہ اپنے آراوز لگائے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ 2013کے انتخابات میںجو ڈیشل افسران کو آر اوز تعینات کیا گیا تھا۔ جس کے بعد تحریک انصاف نے عدلیہ کے تعینات کیے جانے والے افسران کے زیر انتظام الیکشن کو شفاف ماننے سے انکار کر دیا تھا۔

عدلیہ کے خلاف ایک مہم شروع کر دی تھی اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے عدلیہ کے خلاف مہم پر چیئرمین تحریک انصاف کو توہین عدالت کا نوٹس دیدیا تھا۔ بڑی مشکل سے معافی ملی تھی۔ پھر 129دن کا دھرنا دیا گیا۔ جوڈیشل افسران کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا گیا۔

سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے سامنے کنٹینر لگا دیا گیا۔ سپریم کورٹ کے دروازے بند کر دیے گئے۔ پارلیمنٹ پر الٹی شلواریں لگا دی گئیں۔ وزیراعظم ہاؤس اور پاکستان ٹیلی ویژن پر حملہ کر دیا گیا۔یہ سب عدالتی افسران کے زیر انتظام ہونے والے الیکشن کے رد عمل میں تحریک انصاف نے کیا تھا۔

حیرانگی کی بات ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد آج دوبارہ اسی عدلیہ سے جوڈشیل آر اوز مانگے جا رہے ہیں۔ یہ کیسے مان لیا جائے کہ تب لگائے جانے والے جوڈیشل افسران تو بددیانت تھے اور آج لگائے جانے والے جوڈیشل افسران ایماندار ہوں گے۔

سادہ سی بات ہے کہ عدلیہ سے آر اوز لگانے کا تجربہ کامیاب نہیں رہا۔ اس سے عدلیہ متنازعہ ہوتی ہے۔عدلیہ نے بعد میں انتخابات کی شفافیت پر مقدمات بھی سننے ہوتے ہیں۔ اپنے ہی جوڈیشل افسران کے کرائے ہوئے الیکشن کے خلاف وہ درخواستیں کیسے سنیں گے۔ یہی مسئلہ 2013 میں بھی تھا۔ جس کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا۔

اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ جس انتظامی افسر نے تحریک انصاف کے خلاف کوئی حکم دیا ہے وہ آر او نہیں ہو سکتا۔ تو پھر جس جج نے بھی کبھی تحریک انصاف کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہو وہ بھی آر او نہیں لگ سکتا۔

اس طرح ہمیں پورے پاکستان سے تحریک انصاف کے ہمدرد ڈھونڈ کر آر او لگانے ہونگے جنھوں نے کبھی تحریک انصاف کے کسی فرد کے خلاف نہ تو کوئی حکم دیا ہو اور نہ ہی کوئی کیس سنا ہو۔ یہ کیسے ممکن ہے۔

اگر یہی شرط باقی سیاسی جماعتوں نے بھی رکھ دی تو پھر کسی دوسرے سیارے سے ہی آر اوز منگوانے پڑیں گے۔ کیونکہ ایسی شرائط رکھنے کا اختیار صرف تحریک انصاف کو کیسے حاصل ہو سکتا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحب کے حکم سے یہ تاثر پھیلا جیسے تمام انتظامی افسران بددیانت ہیں۔ کسی ایک دو کے خلاف اعتراض تو سمجھ آتا ہے لیکن سب کے سب انتظامی افسران کسی ایک سیاسی جماعت کے حامی کیسے ہو سکتے ہیں۔

ایسے تو باقی سیاسی جماعتیں عدلیہ سے لیے گئے آر اوز کو جانبدار قرار دے کر کسی اور محکمے سے آر اوز لینے کی استدعا کر دیں گی یہ کوئی مثبت رویے نہیں ہے۔

ہمارے ملک میں یہ رویہ عام ہوگیا ہے کہ میرے سوا سب چور ہیں، سب خراب ہیں اور اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا تو پھر ہم کیا کریں گے۔ باہر سے لوگ آکر انتخابات کروائیں۔ کیا ہمیں انتخابات کے لیے باہر کے آر اوز چاہیے۔ کیونکہ ملک میں تو کسی کو کسی پر اب اعتبار نہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس