دُکھ سُکھ ہر گھڑی دن، مہینے اور سال کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں۔ دن اور رات کی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔ مگر دسمبر کے ساتھ جڑی تلخ یادیں مستقل طور پر ہماری ذات اور اجتماعی احساس میں سرایت کرکے درد کا روپ دھار چکی ہیں۔یوں یہ متوالی رُتوں والا مہینہ ہمارے لئے ملال اور کرب کی علامت بن چکا ہے۔ سبزہ زندگی ہے، خوشی ہے، بہار ہے، امید ہے۔سبزہ بے داغ ہی ہوتا ہے، داغدار ہونے کے بعد وہ سبزہ نہیں رہتا کہ کثافت میں اٹ کر ا س کی وہ دلکشی، طراوت اور افادیت باقی نہیں رہتی جو اس کی پہچان ہے۔ یہی حال فرد کا ہے۔ اس کی شخصیت کا سبزہ اس کی سوچ ہے جس پر نفرت، تعصب اور بدلے کا جنون طاری ہو تو شکوک کے ملگجے اندھیرے میں ایثار اور روادار ی کی جگہ انتقام اور عیاری لے لیتے ہیں۔ نفرت کا ناگ خیر کی قدروں پر مسلط ہو جائے تو پھر انسان اس کے اشارے پر روبوٹ کی طرح چلنے لگتا ہے۔ رستے کے انتخاب کا اختیار رکھنے والا خیر کی بجائے شر والے خانے میں ٹک کر دے تو پھر اسی سمت آگے بڑھتا رہتا ہے۔جب تک رک کر اپنا باطنی نظام ری سیٹ نہ کرے۔
قدیم مہذب معاشروں میں دو نظامِ اخلاق رائج ہوتے تھے۔ ایک اُمرا، یعنی خاص لوگوں کا اور دوسرا عوام یعنی اکثریت کا۔اُس وقت یہ خاص لوگ صرف دولت کے حوالے سے نہیں پہچانے جاتے تھے بلکہ فلسفے، دانش اور اعلیٰ نظریات رکھنے کے باعث معتبر سمجھے جاتے تھے۔ یہ خاص لوگ اگرچہ بہت کم ہوتے تھے لیکن ان کا وجود اخلاقی معیار کا عکاس اور نمونہ ہوتا تھا، ان کی سوچ اُجلی اور ظرف وسیع ہوتا تھا۔ سوچ کا وسیع دائرہ ان کی شخصیت کو منفی عوامل سے بچائے رکھتا تھا۔ایثار، عالی ظرفی اور رواداری ان کی شخصیت کا خاصہ تھی، وہ مادیت کی بجائے روحانیت اور مذہب و نسل کی بجائے انسانیت اور صداقت کے پیروکار تھے۔مکاری، دھوکہ اور انتقام سے ماورا تھے۔ انھیں کسی قانون کی ضرورت نہ تھی ۔لیکن عام فرد کی سوچ ڈگمگانے کا خدشہ رہتا ہے۔ طاقت اور بے بسی کے درمیان لڑائی جاری رہتی ہے۔جس کو قابو میں رکھنے کے لئے ان معتبر ہستیوں کے نظریات، تجربے اور اعمال کی روشنی میں عوام کے لیے اخلاقی قدروں پر مشتمل ضابطے بنائے اور لاگو کئے گئے۔ آج دنیا بھر میں قوانین کی بھرمار ہے مگر عمل میں کوئی فضیلت اور برکت نظر نہیں آتی۔اسلئے کہ وہ خاص لوگ جو قوموں کی تربیت کرتے تھے اپنی ذات کے حجروں میں مقید ہو چکے ہیں ۔ دنیا کی اکثریت پر اوسط ذہن لوگوں کی حکمرانی ہے جن کے پاس کوئی نظریاتی یوٹوپیا نہیں۔ صرف جھوٹے بیانیے، شخصیات کا سحر اور مفروضے ہیں۔مخالف کو زیر کرنے کیلئے جو ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں وہ پورے اخلاقی نظام کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔کوئی نہیں سوچتا کہ وقتی جیت نسلوں کی شکست بنتی جا رہی ہے۔کوئی نہیں سوچ رہا کہ اخلاقی انحطاط معاشی زوال سے زیادہ خطرناک ہو گا۔کچھ سیاسی رہنما اپنے پیروکاروں کو استدلال اور شرافت کی عظمت سمجھانے کی بجائے حملہ آور بنانے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں اور باقی دفاع میں یہی سب کرتے ہوئے منفی اور غیر اخلاقی رویوں کو پروان چڑھانے پر مائل ہیں۔خود کو سب سے بہتر سمجھنے کی بیماری اتنی پھیل چکی ہے کہ دوسروں کا وجود ہی گوارا نہیں۔ یہی سوچ بے انصافی اور آمریت کی بنیاد ہے۔ یوں اندر اور باہر پھیلی غلاظت سے ہماری فضائیں تعفن زدہ ہو چکی ہیں۔ہم کرم کی برسات کے طلبگار ہیں جو سوچ پر لگے ہوئے جالے اور نظر پر پڑے ہوئے پردے بہا لے جائے، تاکہ ہم ہر شے کااُجلا پن دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ کثافت کو ختم نہیں کیا جاسکتا لیکن لطافت کو اجاگر کرکے اسے محدود ضرور کیا جاسکتا ہے۔بھلے وقتوں میں دشمنی کے بھی آداب ہوا کرتے تھے۔دشمن کی بہن بیٹی کا بھی احترام کیا جاتا تھا۔ اختلاف کا دلیل سے دفاع کیا جاتا تھا، کم پڑھے لکھے لوگ کتنے دانشمند تھے۔ ہم نے ڈگریوں کی گٹھڑی سر پر رکھ کر گالی دینا، دوسروں کو ہرانا،جتانا اور ذلیل کرنا سیکھا۔خود کو بڑا ثابت کرنے کیلئے سب کو چھوٹا کہا۔ اپنے اثبات کیلئے دوسروں کی نفی کی۔ دوسروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنے کی بجائے ان کا ٹھٹھا اڑایا۔
ہر پلیٹ فارم پر پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن سے جھڑنے والی گندگی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ منہ سے پھول جھڑنے اور باتوں سے خوشبو آنے کا موسم ہمارے صحنوں سے ہجرت کر چکا۔گالی ہمارا افتخار اور ہتھیار بن چکی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری جنگ میں جیت اور پسپائی میں یہی حربہ آزمایا جا رہا ہے۔فیض نے کہا تھا
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
جو جا چکا وہ واپس نہیں آسکتا مگر آئندہ کیلئے احتیاط تو لازم ہے۔ ہمارے ارد گرد وہ ہاتھ اور ذہن موجود ہیں جو خون کی نئی ہولی کھیل کر سبزے کو اجاڑ سکتے ہیں۔ آئیے ان سے نجات کا طریقہ ڈھونڈیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ