تحریک ازادی کےمربی،استاد ،مصنف اور دانشور جناب غلام محمد میر جو مسلح تحریک میں شمس الحق کے نام سے جانے گئے۔1993میں آج 16 دسمبر ہی کے روز اپنے ہی آبائی ضلع بڈگام کے کھاگ علاقے میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔اج ان کا 30واں یوم شہادت ہے۔
شہید شمس الحق گفتار اور کردار کے غازی تھے۔جو سبق دوسروں کو پڑھایا،وقت آنے پر نہ صرف خود بھی بحیثیت مجموعی اس پر مکمل عملدر آمد کیا،بلکہ اپنے خون سے اپنے کردار کی گواہی دی ہے۔اسی کردار نے انہیں ممتاز اور منفرد مقام عطا کیا جس کے حصول کیلئے لوگ ترستے ہیں وہ کوئی عام انسان نہیں تھے
وہ معاشرے کے حساس اور باشعور انسان تب بھی سمجھے جاتے تھے جب ظلمت اور اندھیروں نے کشمیری معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔اسلام پسندوں کو بھارتی انتقام اور قید و بند کا سامنا تو تھا ہی،لیکن اپنوں کے طعنوں ،حد درجہ دشمنی ، اسلام پسندوں کی گھریلو اور خاص کر خانہ و ازدواجی زندگیوں کو چوک چوراہوں میں زیر بحث لانا ایک دل پسند مشغلہ سمجھا جاتا تھا۔
جناب شمس الحق بطور خاص اس بے حد شرمناک اور افسوسناک طرز عمل کا نشانہ بنائے گئے۔مگر نہ جانے شمس الحق کے سینے میں اللہ رب العالمین نے کون سا دل رکھا تھا،کہ وہ نہ صرف معاف اور صرف نظر کرنے کے خود قائل تھے،بلکہ دوسروں باالخصوص اسلام پسندوں کو اسی بات کی ترغیب دیتے تھے
انہیں معاشرے کی ناہمواریوں کا بے پناہ سامنا رہا ہے۔بھارت نواز نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی جڑیں چونکہ کافی گہرائی تک معاشرے میں سرایت کرچکی تھیں۔ان جڑوں کو کاٹنے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے شمس الحق اور جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر نے اپنا تن من دھن قربان کیا۔جیل کی سلاخیں جماعت اسلامی اور اسلام پسندوں کیلئے ایک معمول بن چکی تھیں۔طویل جدو جہد اور انتھک محنت و مشقت کے بعد 1989 ء میں مسلح تحریک نے کشمیری معاشرے میں پوری شدت کے ساتھ دستک دی۔
اس مسلح تحریک کی بنیاد 1987 ء میں کرائے جانے والے وہ نام نہاد انتخابات بنے،جن میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی تمام دینی اور ازادی پسند جماعتوں کی جانب سے قائم کئے گئے اسلامی متحدہ محاذ کے امیدواران کی جیتی ہوئی بازی کو شکست میں تبدیل کیا گیا تھا۔نوجوانوں نے اب یا کبھی نہیں کے اصولوں کو بنیاد بنا کر ہر صورت مسلح جدو جہد کرنے کا فیصلہ کیااور جماعت اسلامی مقبوضہ جموں و کشمیر کو رہنمائی اور قیادت کیلئے منتخب کیا گیا۔
چونکہ جماعت کے افراد نے معاشرے باالخصوص نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے ذریعے ذہن سازی کا پہلے ہی اہتمام کررکھا تھا۔جناب محمد مقبول الہی،جناب محمد اشرف ڈار،جناب شیخ عبدالوحید، جناب ناصرالاسلام ،جناب محمد احسن ڈار،جناب اعجاز ڈار،جناب اشفاق مجید وانی،جناب شیخ عبد الحمید،جناب محمد یاسین ملک اور جناب جاوید احمد میر مسلح تحریک کے اولین قافلے کے سالار بنے۔
جبکہ جناب اعجاز احمد ڈار مسلح تحریک کے پہلے شہید کہلائے،جب سرینگر میں بدنام زمانہ بھارتی پولیس آفیسر علی وٹالی پر حملہ کیا گیا،اس کاروائی میں جناب محمد مقبول الہی بازو میں گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے،مسلح تحریک کے ان سرخیلوں میں صرف شیخ عبدالوحید، محمد احسن ڈار، محمد یاسین ملک اور جاوید احمد میر ہی حیات ہیں۔جناب یاسین ملک بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں اور اب انہیں سزائے موت دلانے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ باقی تمام بھارتی افواج کے ساتھ خونریز جھڑپوں میں جام شہادت نوش کرکے اپنی نذر پوری کرچکے ہیں۔شہید شمس الحق ایک نرم مزاج اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔وہ میدان جہاد میں امیر حزب المجاہدین کے فرائض انجام دے رہے تھےکہ 1992 میں انہیں بیس کیمپ انا پڑا،ان کے ساتھ جناب میر احمد حسن بھی تھے،جو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے رکن اور بیس کیمپ میں کچھ عرصہ حزب المجاہدین کے معاملات دیکھتے رہے۔
شہید شمس الحق فطرتا مسلح مجاہد کم، دین کے داعی،مبلغ اور دانشورانہ حس زیادہ رکھتے تھے۔انہیں سینکڑوں احادیث عربی متن کے ساتھ ازبر تھیں۔انہوں نے بیس کیمپ میں فرصت کے لمحات میں ایک زخیم کتاب بھی تصنیف کی۔جس سے بعدازان پمفلٹوں کی شکل میں جماعت اسلامی ازاد کشمیر خاص کر جناب صغیر قمر نے شائع کرایا۔
جناب شمس الحق کی اپنی ایک ذاتی لیبرری تھی۔جس میں دنیائے تاریخ کے عظیم مفکر سید ابو الااعلی مودودی کی تمام تصانیف، دوسری دنیاوی اور اسلامی کتب اج بھی موجود ہیں۔ ان کے بچوں نے اپنے والد کے اس قیمتی اثاثے کی اج تک حفاظت بھی کی ہے۔جناب شمس الحق کا بڑا فرزند، بھائی ،ماموں اور بھانجا بھی مسلح تحریک میں شامل تھے۔جن میں بھائی اور ماموں شہید جبکہ فرزند اور بھانجا بھارتی عقبوت خانوں کی زینت بنے رہے۔
یاد رہے کہ شمس الحق کے ایک ہی بھائی علی محمد میر تھے،اور دونوں تحریک ازادی میں اپنا خون نچھاور کرچکے ہیں ۔جناب شمس الحق کی سرفروشانہ شہادت اپنی جگہ لیکن اہل کشمیر ایک داعی،مبلغ اور دانشور سے محروم ہوگئ۔انہیں جماعت اسلامی پاکستان نے باالعموم اور عقابی نگاہ کے مالک جناب قاضی حسین احمد کے علاوہ جنرل حمید گل نے بہت روکنا چاہا،مگر جس راستے کا درس وہ دوسروں کو دیتے رہے۔ خود اس راستے سے ترک تعلق انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔
بالاآخر 16 دسمبر 1993 میں بھارتی افواج کے ساتھ ایک خونین معرکے میں اپنی کل متاع تحریک ازادی پر قربان کی۔جناب شمس الحق پاکستان کے ساتھ بے حد محبت کرتے تھے اور سقوط مشرقی پاکستان انہیں بے حد تکلیف پہنچانے کا باعث تھا ۔بالاآخر 16 دسمبر کو ہی وہ اپنی جانی قربانی سے گزر گئے۔تحریک ازادی کے سمبل حزب المجاہدیں کے سربراہ سید صلاح الدین احمد نے شہید شمس الحق کو ان الفاظ میں عقیدت کے پھول نچھاور کئے،اگر میں مجاہدین کا سربراہ نہ ہوتا،تو میں اتنا روتا کہ میرے انسووں میں جنگل کے سارے درخت ڈوب جاتے۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔
Load/Hide Comments