قرضوں کے عمل میں آنا میاں صاحب کا : تحریر کشور ناہید


قانون ہمیں یہ بتاتاہے کہ نگراں حکومت عارضی ہوتی ہے۔ الیکشن تک صرف روزمرہ کے قوانین پر عملدرآمد اسکی ذمہ داری ہے، مگر میں کئی دن سے اخباروں میں چوتھائی صفحے کے اشتہار دیکھ رہی ہوں جس میں PTCLاپنے ریجنل دفاتر فروخت کرنے کیلئے تیار ہے۔ اسی طرح ایئرپورٹس کے علاوہ پی آئی اے اور اسٹیل مل کو فروخت کرنے کے مراحل طے کئے جارہے ہیں۔ پہلے سرکاری دفاترکی ، کرایوں کی زیادتی کے باعث اپنی بلڈنگیں بنائی گئیں جنہیں فروخت کیا۔اس طرح اشتہار دیئے جارہے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کو N.G.Oکو دینے کو حکومت تیار ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اساتذہ کثیر تعداد میں اس اقدام کی مخالفت کررہے ہیں۔ صوبائی سطح پر کبھی کسی صوبے کا گورنر یا چیف منسٹر دوسرے ملکوں کی ترقی کا مطالعہ کرنے جارہے ہیں۔ فصلوں کی خریداری کیلئے بھی صوبے خود اختیاری کے تحت نئے منصوبے اور جاری منصوبوں پر عملدرآمد کررہے ہیں۔ عدالتیں چیف جسٹس کے آنے کے بعد ذرا محتاط ہوئی تھیں۔ اب تو جو ’’جرم‘‘ کہلایا جارہا ہو اسے بھی فوری ضمانت مل رہی ہے۔ پاکستان میں مفت تعلیم کا لازمی قانون ہے مگر نجی اسکولوں کی تعداد اور فیسیں روزبروز مہنگائی کی آڑ میں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں۔ مفت تعلیم صرف مذاق ہے نگراں حکومت کا۔

فوری یا عارضی ضمانت کے بعد ہم نے دیکھا کہ 21؍اکتوبر کو مریم بی بی نے باپ کی محبت میں مینار پاکستان میں انسانوں کے پہاڑ کھڑے کردیئے مگر تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتےہیں۔ اول تو افتخار عار ف کا شعر موقع محل کے مطابق، عرفان صدیقی نے میاں صاحب کی تقریر میں جڑ دیا۔ ہمارے عوام یا تعلیمی ادارے بس ایک شعر پڑھ دو، تالیا ں ہی تالیاں ہوتی ہیں۔ پھر بیانیے میں قیامت تک رہنے والے وعدے وعید، ہمسایہ ملکوں سے تعلقات کی بات گریبان میں جھانکو تو سوائے چین کے، باقی سب طرف دھند ہی دھند ہے۔ معیشت کا اپنا سائیکل ہوتا ہے۔ پاکستان میں 1951میں جب ایلس نے فیض صاحب کو جیل میں خط میں لکھا’’کیا مصیبت ہے گندم 16روپے من ہوگئی ہے‘‘ پھر 1961میں محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں حبیب جالب نے نظم پڑھی ’’بیس روپے من آٹا صدر ایوب زندہ باد‘‘ پھر یوں ہوا کہ ہر حکومت کے ساتھ قیمتیں عالمی منڈی کی طرز پر ایسی اڑان بھرتی رہیں کہ وہی ڈالر جو ایوب خان کے زمانے میں 4روپے کا تھا، وہ عمران خان کے زمانے میں انکی باولنگ کی طرح سونے کے بھاؤ ملنے لگا۔ بادام یا چلغوزے کے بات مت کیجئے۔ لہسن اور ادرک ہنڈیا میں ڈالنے کیلئے میسر تھا اب دو طبقے ہوگئے، غریب اورغریب تر، رہا اشرافیہ کا معاملہ تو وہ چاہے نجی جہاز میں آئیں جائیں، دبئی سے لندن تک ’’ البتہ قوم پوچھ رہی ہے یہ دولت کہاں سے آئی۔‘‘

ورلڈ بینک بھی عجیب ہے پہلے کہا پاکستان میں غربت بہت بڑھ گئی ہے۔ پھر کہا حکومت کو چاہئے غریبوں پر بھی ٹیکس لگائے۔ جہاں تک یہ اعلان کہ کشکول توڑ دیا جائیگا۔ یہ سنا سنایا اور بے وقت کی راگنی لگا۔ ہمارے اکنامکس کے سربراہ 1960میں ہمیں مالتھیویس تھیوری میں یہ بتاتے تھے کہ غربت میں بچے زیادہ ہوتے ہیں اور معیشت تباہ کن ہوجاتی ہے۔ میں نیلم ویلی گئی وہاں تقریباً ہر گھر میں 14بچے تھے۔ روٹی نہیں تھی ۔ یہی ہمارے دیہات کا حال ہےکہ میں خود ہر صوبے کے دیہات میں گئی ہوں۔ روٹی سوکھی ہے مگر بچے! کیا کمال عورتیں ہیں 14بچے پیدا کرکے بھی ہنستی ہوئی کہتی ہیں ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ معیشت ٹھیک کرنے والے ہر روزٹی وی پرنئے سے نئے فلسفے جھاڑ رہے ہوتے ہیں بالکل اس طرح جیسے ایک زمانے میں سڑک پر آواز آتی تھی ’’منجی پیڑھی ٹھیک کرالو۔‘‘

شکر ہے مینار پاکستان کے جلسے میں کسی نے مذہب کا حوالہ نہیں دیا سوائے اس کے کہ میاں صاحب نے کہا کہ تسبیح تو میں بھی پڑھتا ہوں۔ لوگوں کو دکھانے کیلئے نہیں۔ مجھے یاد آیا کہ اب تو وہ چھوٹی انگلی والی انگوٹھی بھی نظر نہیں آتی۔ وہ جنوں کو کھانے کیلئے گوشت کے پارچے اب کہاں ڈالے جارہے ہونگے۔ شاید جیل کے ملازمین کو ذائقہ مل رہا ہو۔ مثالیں دینے کیلئے سہروردی صاحب کہ فیض صاحب کہ خان صاحب ان سب نے کبھی ایسی فرمائشیں نہیں کیں۔ اب دی گئی سہولتیں شاید اگلوں کے کام آئیں گی۔ الیکشن کی تاریخ کا اعلان، شاید فال نکالی جائیگی کہ ہر سیاست دان کی بات الیکشن پر آکے رک جاتی ہے۔ خلقت یہ کہہ رہی ہے کہ اب تک 13لاکھ ووٹرز ایسے ہیں جو رجسٹر نہیں ہوئے۔ ویسے بھی نوجوانوںسے 21؍اکتوبر کا تاثر پوچھا تو ناک بھوں چڑھاتے ہوئے آگے کو بڑھ گئے۔ میں سوچنے لگی یہ تو ہیں کل آبادی کا 45فیصد، تو پھر نتیجہ کیا ہوا۔ وہی ڈھاک کے تین پات۔ ابھی تو پارٹیوں کے کھانے کھلیں گے۔ ان میں سے بہت سے چلہ کاٹ کے آئے ہیں اور ’’حمیت نام تھا جسکا، گئی تیمور کے گھر سے‘‘ الیکشن کی ٹکٹوں کے بستے کھلیں گے تو پھر پتہ چلے گا کہ ’’چٹ بھی میراپٹ بھی میرا‘‘ شاید اسی بہانے روپے کی قدر، جیبوں میں جانے سے بڑھے اور غریب سالن کھا سکے۔ابھی تو خود میاں صاحب کو 4نومبر سے طلسم ہوشربا دیکھنا ہوگا، میاں صاحب کاکہنا کہ اپنے اپنوں، خاندانوں کے علاوہ ہم زلفوں اور جیل کاٹ کے آنے والے پرانے افسروں کی بات نہیں چلے گی تو پھر فرشتے کہاں سے آئیں گے۔

گزشتہ ساری حکومتوں میں رہنے والوں نے اپنی عاقبت کا سامان خوب کیا ہوا ہے ویسے بھی پارٹی کو دھچکا ہی لگے تو اگلے دن دبئی توکہیں نہیں گیا۔ یہ کھیل بھی سب نے کھیلے ہوئے ہیں۔ اب یہ پیسہ کہاں سے آئے گا۔ میاں صاحب کے ساتھ آنے والوں میں ہماری وہ دوست نظر نہیں آئی جو تصویروں میں انکے گھر میں ہنستی ہوئی دیکھی گئی، مگر ان دونوں میاں بیوی کے اپنے ہی پتے ہیں۔ حکم کا یکہ کس کے پاس ہے، چند دنوں میں پتہ چل جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ