گائے ذبیحہ پر مسلم بستیاں نذرِ آتش : تحریر الطاف حسن قریشی


پیرپور رِپورٹ کے مرتبین لکھتے ہیں کہ ہم حیران ہیں کہ اسکولوں کے بچوں کے معصوم ذہنوں پر بندے ماترم کا نقش کیوں بٹھایا جا رہا ہے۔ سات صوبوں میں حکمران کانگریسیوں اور اِن کے ہوا خوروں نے یہ گیت سرکاری اجتماعات اور دُوسری تقاریب میں گانا شروع کر دیا ہے جن میں دوسرے مذاہب کے لوگ جبراً شامل کیے جاتے ہیں۔

یہ معلوم ہوا ہے کہ اسکولوں کے اساتذہ نے نئے آقاؤں کی خوشنودی کے لیے بندے ماترم ازخود اسکول کے نصاب میں شامل کر دیا ہے۔ پٹنہ کے مسلم طلبہ نے یہ گیت گانے سے انکار کرتے ہوئے ہڑتال کر ڈالی جس کے باعث ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مسلم بچوں کو تعلیم کی بربادی سے بچانے کے لیے مسلمانوں کو اَپنا الگ اسکول کھولنا پڑا۔ سی پی کے بلدیاتی اسکولوں میں بھی مسلمان طلبہ کو یہی شکایت پیدا ہوئی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ واردھا کے نارمل اسکول میں مسلمان طلبہ کو اسکول میس میں کھانے کو ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں۔

جب سے کانگریس سات صوبوں میں برسرِ اقتدار آئی ہے، سرکاری عمارتوں پر ترنگے جھنڈے لہرانا، دونوں فرقوں کے درمیان بہت بڑا وَجہ تنازع بن گیا ہے۔ ایسی ٘مثالیں موجود ہیں جہاں مجاز افسر کی اجازت کے بغیر یہ جھنڈا لہرایا گیا۔ ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ قومی ترانے کی طرح یہ قومی جھنڈا بھی زبردستی لوگوں پر تھوپا نہیں جا سکتا۔

مسلمانوں کیلئے مخلوط انتخابات کے باعث صوبوں کی قانون ساز مجالس اور مجالسِ مصالحت قرضہ میں راہ پانا تقریباً محال ہو گیا ہے، چنانچہ صوبہ بہار میں اُنہیں قانون ساز مجالس کا اُس وقت تک بائیکاٹ کرنا پڑا جب تک اُن کی شکایات دور نہیں کی گئیں۔ سی پی اور بہار میں جہاں مسلمان چھوٹی اقلیت میں ہیں، وہ مقامی مجالس سے نکال دیے گئے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ کانگریس کی نسبت ’انڈی پینڈنٹ پارٹی‘ کا مسلمانوں سے سلوک قدرے بہتر ہے۔ کانگریسی حکومت سے پہلے ہر مجلسِ مصالحت قرضہ میں کم از کم ایک مسلمان ضرور ہوتا تھا، لیکن اب کئی ایسی مجالس ہیں جہاں ایک بھی مسلم رکن موجود نہیں۔ اِس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ اِس صوبے میں مزدوروں اور مزارعوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے جو ساہوکاروں کے قرضوں تلے دبے ہوئے ہیں۔ اُن کے معاملات خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔ ہم یہ بھی بیان کیے دیتے ہیں کہ فلاحی اسکیموں پر بھی اِس طرح عمل کیا جاتا ہے کہ اقلیتی گروہ بالخصوص مسلمان اُن کے فوائد سے محروم رہیں۔

ہندوستان میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان بہت بڑا تنازع گائے کی قربانی ہے۔ جب سے کانگریس نے ہندوستان کے سات صوبوں میں اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی ہے، گاؤ رکھشا کا مسئلہ بےحد سنگین ہو گیا ہے۔ بےشمار اَیسی مثالیں سامنے آئی ہیں جن میں مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے اور اُس کا گوشت کھانے سے باز رکھنے کے لیے ڈرایا اور دھمکایا گیا ہے۔ گائے فروخت کرنے کے خلاف باقاعدہ پکٹنگ کی جاتی ہے۔ یو پی کے ضلع بلیّہ (Ballia) میں دادری (Dadri) میلے کے موقع پر مسلمان قصابوں پر بزدلانہ حملوں اور طاقت کے سفاکانہ استعمال کے بہت سارے واقعات رونما ہوئے ہیں۔

فرقہ وارانہ فسادات کے ستم رسیدہ مسلمانوں کی نظریں ہری پورہ کانگریس پر لگی ہوئی تھیں کہ شاید وہ اِس کشیدگی میں کمی لانے کی کوشش کرے گی، لیکن گائے کی نمائش کے افتتاح پر بڑےبڑے ممتاز کانگریسیوں کی تقریریں اطمینان غارت کرنے والی تھیں۔ گاؤ رکھشا کی اہمیت کے بارے میں مہاتما گاندھی نے کہا:’’تاریخی اور معاشی اعتبار سے گاؤ رکھشا ضرور ہونی چاہیے۔ ہم نے گاؤ رکھشا پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا۔ قدیم زمانے میں راجے ’گاؤ پال‘ یعنی گائے کے محافظ کا خطاب حاصل کرتے تھے۔ آج کل گاؤ رکھشا کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گائیں معاشی طور پر بوجھ ثابت ہو رہی ہیں۔‘‘

مہاتما گاندھی زیادہ سے زیادہ گائے کا دودھ پینے کی اپیل کرتے ہیں۔ اگر قوم گائے کا دودھ پینا شروع کر دے، تو گائیوں کا تحفظ کیا جا سکے گا۔ وہ چرخہ اور گاؤ رکھشا کو رواج دینے میں پیش پیش ہیں۔ اُن کی مسلسل کوششوں سے اکثریتی فرقے کے لوگ گاؤ پال کے خطابات حاصل کرنے کی آرزو کرنے لگے ہیں۔ بدقسمتی سے جھوٹے پروپیگنڈے سے دیہات اور قصبوں کی آبادی دو حصّوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک وہ جو گائے کا دودھ پیتے ہیں اور دُوسرے وہ جو اِسے مخصوص مقامات پر ذبح کرتے ہیں۔ اِس فضا میں سی پی میں کئی میونسپلیٹیوں میں گائے ذبح کرنے کے لائسنس روک لیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات اُن علاقوں میں کیے جا رہے ہیں جہاں مسلمان تعداد میں کمزور یا غیرمنظم ہیں۔

بدقسمتی سے کانگریس کے زیرِاقتدار صوبوں میں فرقہ وارانہ فسادات کثرت سے ہونے لگے ہیں۔ وزیرِاعظم بہار نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ سولہ مقامات پر محرم الحرام، عید الفطر اور ہولی کے تہواروں پر تشدد رَوکنے کے لیے مسلمانوں کے خلاف احکام جاری کیے گئے۔ بعض مقررین نے حکومت کے اِن احکام کا دفاع کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ عدم تشدد کانگریس کا ایک مسلمّہ عقیدہ ہے جس کے مطابق دفعہ 144 کے احکام جاری کیے جاتے ہیں۔ عدم تشدد کا ہتھیار جو کبھی برطانوی حکومت کے خلاف استعمال کیا جاتا تھا، اب وہی ہتھیار اَقلیتوں کے خلاف اُنہیں شہری حقوق سے محروم رکھنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ کہ زاہد آباد ضلع گورکھ پور میں جہاں مسلمانوں نے گائے ذبح کرنے کے حق میں پہلے ہی سول عدالت سے ڈگری حاصل کر رکھی تھی، وہاں بھی یو پی کے وزیرِاعظم نے دفعہ 144 نافذ کرنے کے احکام جاری کر دیے تھے۔(جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ جنگ