جنگ ِجہانی دوم کے بعد برطانیہ نے یہودی مہاجرین کو دنیا کی کسی ایک ریاست میں اکٹھے آباد کرنے کا پلان بنایا۔ اس ضمن میں ان کی نگاہ افریقہ پر پڑی لیکن یہودیوں نے اس پلان کو رد کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یروشلم اور اس کے قرب وجوار میں آباد کیا جائے …..کیونکہ وہاں ہماری دیوار گریہ موجود ہے نیز اور کئی زیارات بھی موجود ہیں ۔
برطانیہ نے یہودیوں کی اس تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے ارض فلسطین پر یہودیوں کی ریاست قائم کرنے کا عندیہ دے دیا ۔فلسطینیوں نے نکتہ کے مقام پر برطانوی لشکر کا سامنا کیا۔انگریز کے پاس توپ، ٹینک اور طیارے تھے اور فلسطینی لشکر کے پاس زمانہ قدیم کی توڑے دار بندوقوں کے سواکوئی ہتھیار موجود نہ تھا ،اس جنگ میں 20240فلسطینی شہید ہوئے،36050زخمی ہوئے اور 75000افراد اجڑ گئے۔
حالیہ جنگ 7اکتوبر 2023کو شروع ہوئی اور 24نومبر کو چار دن کیلئے عارضی جنگ بندی ہوئی جنگ کے دوران فلسطینیوں پر کئی ہزار بار بمباری ہوئی نقصانات کا اندازہ درج ذیل ہے۔
شہدا کی تعداد20031،بچوںکی تعداد 7000، خواتین 4000،زخمیوں کی تعداد 36350مکمل تباہ شدہ عمارات 9240جزوی تباہ شدہ عمارات 165300، مساجد 91، ہسپتال124،شہدا ڈاکٹر اور نرسیں 210،تباہ شدہ اسکول 266، یو این کے ورکرز 102،غزہ کا حدود اربعہ لاس ویگاس جتنا ہے اور آبادی 242ملین ہے مارے جانے والے صحافیوں کی تعداد 67ہے۔
جب دوبارہ جنگ بندی ختم ہوئی تو اسرائیل نے اگلا پچھلا فرق برابر کر دیا۔انہوں نے دوماہ کے دوران میں غزہ پر 10ہزار حملے کئے اسرائیل کو روکنے والا کوئی ملک نہیں ۔امریکہ اور برطانیہ اس کے کندھے سے کندھا ملا کر، اس کے ساتھ کھڑے ہیں ۔رہی باقی دنیا تو وہ ان کی زندہ باد کے نعرے اگال رہی ہے ۔ رہی مسلم امہتو اس نے چپ سادھنے کا ریکارڈقائم کر دیا۔
حکومتوں کو تو سو مصلحتیں درپیش ہوتی ہیں جن کی بنا پر وہ بولنے سے گریز کر جاتی ہیں لیکن عوام تو جنگ بندکرو کے عنوان سے پرامن جلوس نکال سکتے تھے۔مگر وہ کرکٹ اور ڈراموں کے کھیلوں میں الجھے رہے۔ہم سے زیادہ تو اسرائیل میں آباد شہریوں نے نیتن یاہو جیسے انسانیت کش شخص کے خلاف جلسے جلوس نکالے اور اس پر جنگ بند کرنے کے لییزور دیا ،یورپ اور امریکہ میں مقیم یہودیوں نے نیتن یاہو کے خلاف انگنت جلوس نکالے ۔فلاڈلفیا میں ان کے جوان بچوں اور بچیوں نے اس شہر کے سب سے بڑے چوک پر دھرنا دے کر غزہ میں شہید ہونے والے بچوں کی فہرست بنائی۔سخت سردی میں ننگی زمین پر بیٹھ کر انہوں نے یہ کام سرانجام دیا۔ہم بھی ان سب شہروں میں آباد ہیں مگر ہم نے وہاں خاموشی اختیار کئے رکھی۔ ایک پاکستانی تبصرہ نگار نے بے بسی کے عالم میں کہا کہ جو کام ان لوگوں نے دسمبر کی شدید سردی میں کیا وہ ہمارے بس میں نہ تھا۔
نیتن یاہو یہودیوں کے صہیونی فرقے سے تعلق رکھتا ہے ،یہ انتہائی دہشت پسند فرقہ ہے یہ مسلمانوں کا ازلی دشمن گروہ ہے، یہ کوہ صہیون کی پرستش کرتا ہے، وہ باقاعدہ سے کوہ صہیون پر حاضری دیتا ہے ۔یاد رہے کوہ صہیون پر حضرت موسی جایا کرتے تھے جہان ان پر وحی نازل ہوتی تھی، صہیونیوں کا عقیدہ ہے کہ کوہ صہیون پر شاید حضرت موسی سے ان کی ملاقات ہوجائے۔
اسرائیل کے ایک صہیونی وزیر نے یہ بیان بھی دیا کہ اگر فلسطینیوں نے زیادہ مزاحمت کی تو ہم ان کے خلاف ایٹم بم استعمال کریں گے۔غزہ کے فلسطینیوں کے پاس بندوق کے سوا کوئی اسلحہ موجود نہیں ۔یاد رہے اسرائیل نے غزہ پر جتنے بم برسائے ان کا تخریبی مواد تین ایٹم بمبوں کے برابر تھا لیکن صہیونی اب بھی ایٹم بم گرانا چاہتا ہے، اگر ایسا بیان کسی ہم ایسے فلاکت زدہ ملک سے آجاتا تو امریکہ نے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دیا ہوتا۔
اس بیان سے یہ راز حقیقت کی شکل میں دنیا کے سامنے آ گیا کہ اسرائیل کے پاس نیوکلیئر اسلحہ موجود ہے نیز امریکہ کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیلی نیوکلیئر اسلحہ امریکہ کی سرپرستی میں وجود میں آیا۔تاریخ میں چنگیز خان، ہلاکو خان، اٹیلا اور اوڈلف ہٹلر کو ظالم ترین انسان سمجھا جاتا ہے ۔انہوں نے انسانیت کو تلوار کی دہار سے گزارا تھا۔ اوڈلف ہٹلر کا یہ بیان کہ میں نے 9لاکھ یہودی اس لئے چھوڑ دیئے تھے کہ دنیا کو معلوم ہو پائے کہ میں نے قتال کیوں کرایا تھا ؟لیکن ہٹلر نے بھی نومولود بچوں کی انتڑیاں نکلوا کر انہیں قتل نہیں کرایا تھا سچ پوچھے تو نیتن یاہو ہٹلر سے کہیں بڑا قاتل ہے ۔اس کے لشکر نے بچوں کی نسل کشی میں کمی نہیں چھوڑی۔اسرائیل ارض فلسطین پر دو ریاستوں کا وجود نہیں چاہتا ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ فلسطینیوں کو ختم کر دیا جائے۔دوسرا ہدف یہ ہے کہ فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے ہجرت کرنے پر مجبورکر دیا جائے اور جو بچ جائیں وہ اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہری بن کر ان کے غلام رہیں ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ