سپریم کورٹ کے ایک سینئر جج جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سپریم کورٹ میں دو مقدمات کے بنچز کی تشکیل پر اپنے اعتراضات کے حوالے سے ایک خط لکھا ہے۔ میں جسٹس مظاہر علی نقوی کی درخواستوں اور سویلین کے ملٹری کورٹ میں ٹرائل کے حوالے سے بنچز کی تشکیل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
کچھ دوستوں کی رائے ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں جناب جسٹس اعجاز الاحسن کی رائے یہ تھی کہ چیف جسٹس کو بنچ بنانے کے لیے نہ تو کسی سے مشاورت اور نہ ہی اس ضمن میں کوئی کمیٹی بنانے کی ضرورت ہے تو کیا وہ اب اعتراض کر کے اپنی رائے سے ہی انحراف نہیں کر رہے۔
لیکن میں یہ رائے نہیں مانتا ۔بے شک جناب جسٹس اعجاز الاحسن بنچز کی تشکیل کے لیے پریکٹس اینڈ پروسیجر بل میں دیے گئے طریقہ کار کے حق میں نہیں تھے لیکن اب جب وہ طریقہ کار قانون بن گیاہے تو یہ قانون سب کے لیے ہے چاہے وہ اس کے حق میں تھا یا خلاف۔ ان کی رائے قانون بننے تک اہم تھی اب قانون بن گیا ہے تو سب اس کے تابع ہیں۔ اس لیے دوستوں کی یہ دلیل درست نہیں ہے۔ وہ اب قانون کی عمل داری مانگ سکتے ہیں۔
دوسری طرف چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی اخلاقی پوزیشن اس لیے بہت مضبوط ہے کہ وہ چاہتے تو پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر حکم امتناعی قائم رکھتے اور بنچ بنانے کے تمام اختیارات اپنے پاس ہی رکھتے۔ انھوں نے وہ تمام اختیارات جو اکیلے چیف جسٹس کے پاس تھے۔ خود ایک کمیٹی کو دینے کی حمایت کی۔
ان کا دامن صاف ہے وہ کبھی بنچ فکسنگ کے حق میں نہیں تھے۔اسی لیے انھوں نے بنچ بنانے کا اختیار ایک تین رکنی کمیٹی کو دینے کے لیے راہ ہموار کی۔ اب سپریم کورٹ میں تمام بنچ ایک تین رکنی کمیٹی بناتی ہے۔ جس میں چیف جسٹس ان کے ساتھ دو سینیئر ترین جج شامل ہیں۔ اس وقت جسٹس سردار طارق مسعود سپریم کورٹ میں سینیئر ترین جج ہیں جب کہ اعجاز الاحسن ان کے بعد سینئر ترین جج ہیں۔ بہر حال بنچ بنانے والی کمیٹی کے یہ تینوں ممبر ہیں۔
کمیٹی نے اکثریتی رائے سے بنچ بنانے ہیں متفقہ طور پر بنچ نہیں بنانے۔ اس لیے اگر جسٹس سردار طارق مسعود اور چیف جسٹس کوئی بنچ بنانے پر متفق ہیں تو بینچ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔
اگر جسٹس اعجاز الاحسن کے ساتھ جسٹس سردار طارق مسعود بھی بنچز کی تشکیل پر اعتراض کرتے تو اعتراض میں قانونی جان پڑتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بھی اس خط کا جواب دیا ہے۔ دونوں خط پڑھنے کے بعد مجھے علامہ اقبال کا شکوہ اور جواب شکوہ یاد آگیا ہے۔ جب تک شکوہ پڑھیں تواس کا اپنی تاثیرو اثر ہے اور جواب شکوہ پڑھیں تو اس کی اپنی تاثیر ہے ۔دونوں جواب پڑھنے کے بعد ساری صورتحال سامنے آجاتی ہے کمیٹی کی میٹنگ کب ہوئی۔ کس کے کہنے پر ملتوی ہوئی کون موجود تھا۔ کون موجود نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن ہمارے ملک کے اگلے چیف جسٹس ہیں۔ جب وہ چیف جسٹس بنیں گے تو انھیں بھی ایسی ہی کمیٹی کے ساتھ چلنا ہے۔ اب ہم خیال بنچ کا دور ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے میری رائے میں فل کورٹ کی براہ راست ٹیلی کاسٹ کے بعد سپریم کورٹ کی کچھ ساکھ بحال ہوئی ہے۔ لوگوں کو اعتماد ہوا ہے۔اس اعتماد اور ساکھ کو قائم رہنا چاہیے۔ یہی سب کے لیے اور ملک کے نظام انصاف کے لیے بہتر ہے۔
جہاں تک چیف جسٹس پاکستان کے خط میں چھ دن کام کرنے کی بات ہے تو اس میں بہت وزن ہے۔ جب تک مکمل کام نہیں ہو گا عدلیہ پر سے مقدمات کا بوجھ کیسے کم ہوگا۔ ساڑھے چار دن کام کرنے سے تو مقدمات کا بوجھ کم نہیں ہوگا۔
اگر سپریم کورٹ کے ججز ہی ساڑھے چار دن کام کریں گے تو نیچے کیا حال ہوگا۔ اس لیے سب ججز کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کو چھٹی کرنے کے لیے کسی کی منظوری یا اجازت کی ضرورت نہیں۔ وہ چاہے تو کام کرے چاہے تو کام نہ کرے۔ بطور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ وہ ججز کو چھ دن کام کرنے پر مجبور کر سکیں۔ ججز کی مرضی وہ کب اور کتنا کام کریں۔ اس حوالے سے بھی سپریم کورٹ کو خود ہی قواعد بنانے چاہیے۔کل کو پارلیمنٹ بنائے گی تو پھر نئی بحث شروع ہو جائے گی۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عدلیہ میں چھٹیوں کے معاملات کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔میں سمجھتا ہوں ججز کوئی اسکول کالج کے طالب علم نہیں ہیں کہ انھیں گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی ضرورت ہے۔ کس سرکاری ملازم کو گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں ملتی ہیں۔ عدلیہ میں گرمیوں اور سردیوں کی چھٹیاں کا رواج انگریز ڈال گیا ہے اور اب تک قائم ہے۔ پاکستان میں اس کی سمجھ نہیں آتی ہے۔
یہاں ہزاروں مقدمات زیر التوا ہیں اور ججز پہلے گرمیوں میں چھٹی پر چلے جاتے ہیں پھر سردیوں میں چھٹی پر چلے جاتے ہیں۔
یہ چھٹیاں ختم ہونی چاہیے۔ ملک میں انصاف کی جو صورتحال ہے ۔ مقدمات جس تعداد میں زیر التوا ہیں ایسے میں چھٹیوں کا کیاجواز ہے عدلیہ کو تو جب تک زیر التوا مقدمات ایک خاص حد سے نیچے نہیں آجاتے دن رات کام کرنا چاہیے۔ عوام انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور ججز چھٹیاں کر رہے ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں سب ججز کو ہفتے کے چھ دن پورے آٹھ گھنٹے کام کرنا چاہیے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس