موجودہ سیاسی رہنماؤں میں شاید میاں محمد نواز شریف سب سے زیادہ تجربہ کار سیاستدان ہیں ۔ تین مرتبہ وزیراعظم بنے اور تینوں مرتبہ نکالے گئے ۔ ایک لمبے عرصے تک اپوزیشن کی سیاست بھی کی اور دو مرتبہ جلاوطنی بھی کاٹی ۔ وہ پہلے صوبائی وزیر رہے ، پھر وزیراعلیٰ بنے اور اسکے بعد وزیراعظم۔ یوں باری باری اقتدار کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ تدریجی عمل سے بھی گزرے۔ اس لحاظ سے بھی عمران خان یا کوئی اور ان کا ہم پلہ نہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی ہمرکاب بیٹی مریم نواز شریف کا شمار بہادر سیاستدانوں میں یوں بھی ہوتا ہے کہ وہ موت کا رسک لے سکتے ہیں ۔ بارہ اکتوبر 1999ءکو جب چار جرنیل ان کے پاس گئے اور بندوق کی نوک پر ان سے استعفیٰ لینا چاہا تو اس انکار کا مطلب یہ تھا کہ وہ موت کا رسک لے رہے ہیں۔ وہ ضدی بھی ہیں، بعض مواقع پر ڈٹ بھی جاتے ہیں اور بڑے وقار کے ساتھ جیل بھی کاٹ لیتے ہیں ۔ وہ سعودی عرب میں جلاوطن تھے تو ان کے والد انتقال کرگئے جن کے جنازہ میں وہ شرکت نہ کرسکے ۔ اب کے بار ان کی اہلیہ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھیں اور انہیں بستر مرگ پر چھوڑ کر وہ مریم نواز شریف کے ساتھ گرفتاری دینے کیلئے پاکستان چلے آئے ۔ یہ شاید زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ زندگی بھر اس کو بھلا سکیں گے ۔ یقیناً اپنی بیوی کو موت وحیات کی کشمکش میں چھوڑ کر گرفتار ہونے کیلئےپاکستان آنے کا فیصلہ ایک غیرمعمولی انسان ہی کرسکتا ہے ۔ یہی معاملہ مریم نواز شریف کا ہے ۔ انہوں نے بھی بڑی بہادری سے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مشترکہ مظالم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ باوقار طریقے سے جیلیں کاٹیں۔اور پھر انہوں نے بھی اپنی ماں کو اس حالت میں چھوڑ کر گرفتاری کیلئے پاکستان آنے کا جو فیصلہ کیا اس کیلئےبڑا جگرا چاہئے۔
لیکن اور یہ ایک بڑا ’’لیکن ‘‘ہے کہ جب ان کا اقتدار آتا ہے تو ان کا رویہ بالکل بدل کر بادشاہوں والا بن جاتا ہے لیکن اب کی بار باقاعدہ اقتدار میں آنے سے قبل باپ بیٹی کا رویہ بادشاہوں والا ہوگیاہے۔ وطن واپسی پر میاں نواز شریف کو چاہئے تھا کہ وہ پارٹی تنظیم پر توجہ دیتے اور ملک بھر کے عوام سے رابطہ استوار کرکے موبلائز کرتےلیکن وطن واپسی کے بعد میاں صاحب بادشاہوں کی طرح رائے ونڈ کے محل میں بیٹھ گئے اور پارٹی رہنماوں کو رعایا سمجھ کر باری باری وہاں بلارہے ہیں ۔ میاں صاحب نہ بھرپور سیاست کررہے ہیں اور نہ ہی ابھی تک سیاسی بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوئے ہیں۔اس وقت مسلم لیگ رتی بھر سیاست نہیں کررہی ۔ پاکستان واپس آکر میاں صاحب بادشاہوں کی طرح بیٹھ گئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ کے کیسز بھی ان کیلئے کسی اور نے ختم کرنے ہیں ۔ سیاسی بیانیہ بھی ان کیلئے کسی اور نے تشکیل دینا ہے اور پی ٹی آئی کوبھی کسی اور نے سنبھالنا ہے ۔میاں صاحب سمجھتے ہیں کہ کسی اور نے ان کیلئے یہ سب کچھ کرکے اقتدار ان کے جھولی میں ڈالنا ہے ۔
پہلے مسلم لیگی ووٹر یہ سمجھ رہا تھا کہ میاں صاحب واپس آئیں گے تو سیاسی میدان سجائیں گے لیکن واپس آکر وہ بادشاہ بن گے ۔ وہ موسم انجوائے کرنے کیلئے مری تو جاتے ہیں لیکن آج تک پختونخوا کا دورہ نہیں کیا۔ اگر جلسوں کی نوبت نہیں آئی یا بوجوہ جلسے نہیں کرسکتے تو بار رومز اور دیگر طبقات سے ان ڈور خطابات میں کیا چیز مانع ہے ۔ میاں صاحب ان دنوں ٹکٹوں کی تقسیم میں لگےہوئے ہیں لیکن اس کیلئے بھی امیدواروں کو لاہور بلارہے ہیں ۔ میاں صاحب کم ازکم یہ تو کرسکتے تھے کہ پختونخوا کی ٹکٹوں کی تقسیم کیلئے سب کو اپنے دولت کدے پر حاضر کروانے کے بجائے خود پشاور جاکر کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں بیٹھ کر یہ کام کرتے ۔ یہ کام وہ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے بھی کرتے تو امیدواروں کو یہ تاثر نہ ملتا کہ وہ غلام ہیں ۔ میاں صاحب وزیراعظم بننا چاہتے ہیں لیکن انکی سوچ پنجاب سے شروع ہوتی اور پنجاب پر ختم ہوتی ہے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج تک وہ موثر سیاسی بیانیہ نہ دے سکے اور عوام کے پاس جانے کیلئے ان کے پاس کچھ نہیں ۔ ان کی پارٹی کی میڈیا پالیسی بھی نہایت ناکام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی کو پختونخوا اور اب پنجاب میں نیا جنم مل رہا ہے اور اگر یہی بادشاہانہ رویہ برقراررہا تو انتخابی مہم گرم ہونے پر وہ عوام کے سامنے جانے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ماضی کی طرح ایک بار پھر میاں صاحب کو خوشامدیوں اور بالخصوص ان چار خوشامدیوں نے اپنے نرغے میں لے لیا ہےجو ماضی میں بھی انہیں ڈبونے کا موجب تھے ۔ میاں صاحب ان چار کے ٹولے کے قبضے میں رہے اور ان کا بادشاہانہ رویہ برقرار رہا تو ان کاچوتھی بار وزیراعظم کا خواب مشکل سے ہی شرمندہ تعبیر ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ