آصف علی زرداری نے عندیہ دیا ہے کہ آئندہ الیکشن کے نتیجے میں قومی حکومت بنے گی مگر وہ ایسی قومی حکومت کا مجوزہ نقشہ پیش کر رہے ہیں جس میں مائنس عمران خان ہوگا مگر پی ٹی آئی کے منحرف دھڑے جہانگیر ترین اور پرویز خٹک کی قیادت میں حصہ بقدرِ جثہ حصہ پائیں گے مگر اقتدار کی اس بندر بانٹ کے کھیل میں قائم ہونے والی حکومت کو ملک کا باشعور اور تعلیم یافتہ فہمیدہ طبقہ کیسے قومی حکومت تسلیم کر ے گا اسکا اندازہ بلاول بھٹو کو تو بخوبی ہو چکا ہے مگر شاید آصف زرداری، نواز شریف، شہباز شریف اور فضل الرحمن جیسے اسٹیبلشمنٹ کی کٹھ پتلیوں کو نہیں ہے کہ آج کے پاکستان کا نوجوان غلامانہ ذہنیت اور مخصوص سوچ و فکر کا اسیر نہیں رہا ہے اور وہ سوشل میڈیا پر اپنے آزادانہ خیالات کا کھل کر اظہار کرتا ہے اگر اسے آپ الیکٹرانک میڈیا پر جنسی تلذز کی قصہ کہانیاں عمران کی سنائیں گے تو وہ گوگل پر سرچ کر کے غلام محمد سے لے کر یحییٰ خان، مشرف، بھٹو اور شریف خاندان کے مردوزن کے وہ وہ قصے کہانیاں سنا دے گا کہ نام نہاد شرفا کو منہ چھپانے کی جگہ نہیں ملے گی آگر کسی انسان کا آپ نے سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنا ہے تو اسے لیول پلینگ فیلڈ دیں اور انتخابی میدان میں عوام کو فیصلہ کرنے دیں کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ شیطان کو سونپنا چاہتے ہیں یا فرشتے کو ______اگر 16 ماہ ملک کا بھٹہ بٹھانے والی سیاسی جماعتوں کا چوں چوں کا مربہ ذاتی کردار کے اعلی نمونہ ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت اور سکت رکھتا ہے اور بزرجمہروں کو ایسا ہی لگتا ہے تو الیکشن کا ڈھکوسلا اور کسی انسان کے بیڈروم میں گھسنے کی کیا ضرورت ہے کیا عمران خان کو راسپوٹین ثابت کرنے سے ملک کو درپیش مسائل حل ہو جائیں گے تو ملک کے صالحین کی مجلس شوریٰ قائم کرکے بغیر الیکشن یا بی ڈی ممبرز کی طرز پر تاحیات نواز شریف کو وزیر اعظم اور آصف زرداری کو صدر بنا کر ملک میں مرضی کی قومی حکومت قائم کر کے موج میلہ کر لیں
مگر کون محب وطن اور سنجیدہ تعلیم یافتہ پاکستانی اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتا ہے کہ آج جو ملک کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں ان کا مقابلہ کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ یا ادارہ نہیں کر سکتا ہے اس کے لیے اندرونی، علاقائی، اور عالمی سطح پر تمام سیاسی جماعتوں، فوجی قوتوں اور سلامتی کے تمام مراکز کے درمیان ایک وسیع البنیاد سوشل کنٹریکٹ کے ذریعے مندرجہ ذیل مسائل کو حل کرنے پر اتفاق رائے قائم کر نا بے حد ضروری ہے جو میری ادنیٰ سوچ کے مطابق کچھ یوں ہیں
اول _ہمارا سب سے سنگین مسئلہ معیشت کی دگرگوں صورتحال ہے ہمارے پاس قرضوں پر سود ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں _عالمی بنک کے گلوبل ڈائریکٹر فلپ لو پیز کلوا کے مطابق پاکستان غربت کے خاتمے اور انسانی سرمائے میں بہتری کے حوالے سے افریقی خطے سے بھی نیچے چلا گیا ہے غربت کی شرح 41 فیصد تک جا پہنچی ہے معاشی ترقی اور تقسیم دولت کے میکانزم کو بہتر بنائے بغیر غربت اور معاشی، سماجی عدم مساوات میں کمی لانا ناممکن ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ مالیاتی اور ادارہ جاتی حکومتی ڈھانچے میں تبدیلی لائی جائے تاکہ کے معاشی خوشحالی کے کچھ اثرات نچلے طبقے تک ٹریکل ڈاؤن ہوں اور عام لوگوں کی معاشی ضروریات کچھ نہ کچھ پوری ہوں ایسی ہی بات وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے بھی کی ہے کہ پاکستان کا غیر ملکی قرضہ غیر پائیدار سطح پر پہنچ گیا ہے ہم عالمی مالیاتی اداروں کے 44 ٪ جی ممالک کے 35٪اور کمرشل اداروں کے 14 ٪مقروض ہیں کمرشل اداروں کے شارٹ رن قرضے انتہائی تشویش ناک ہیں جس سے ہمارے لیے غیر ملکی امداد کا حصول دن بدن مشکل سے مشکل ہوتا جارہا ہے اس لیے ضروری ہے کہ پائیدار طویل المدتی ڈھانچہ جاتی اصلاحات کیں جائیں میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکسوں کا نظام پروگریسو بنا یا جائے آگر امراء کی آمدنی بڑھتی ہے تو وہ زیادہ شرح سے ٹیکس دیں اور اگر متوسط طبقے کی آمدنی کم ہو رہی ہے تو ان پر کم شرح سے ٹیکس لگے براہ راست ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہونا چاہئے جیسا کہ تمام مہذب معاشروں میں ہوتا ہے مگر ہمارے ہاں دن بدن بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عام آدمی کی معاشی مشکلات بڑھ جاتی ہیں اور امراء کو اس سے ریلیف ملتا ہے
_کیا 8 فروری کے بعد قائم ہونے والی حکومت امراء سے زیادہ ٹیکس لے کر غریبوں کی فلاح وبہہود پر خرچ کر ے گی کیا وی آئی پی کلچر اور اشرافیہ کی تنخواہوں اور مراعات میں کوئی کمی لائے جائیگی عدلیہ، انتظامیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے آخراجات کم ہونگے اور ان کے لائف سٹائل میں سادگی دکھائی دے گی اگر کوئی ایسا ایجنڈا ہے تو نواز شریف، زرداری فضل الرحمن اس پر بات کریں مگر وہ کیوں سرکار ی موج میلوں کو چھوڑیں گے
دوم _کیا آنے والی نئی حکومت اپنے دور میں قانون کی حکمرانی قائم کر پائے گی لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہو جائے گا کیا سیاسی وابستگی کی بنا پر مقدمات قائم کرنے ختم ہو جائیں گے کیا سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہو بہو عمل درآمد ہو گا آگر اس مقصد کے لیے قومی حکومت قائم ہوتی ہے کہ امیر اور غریب کے لیے انصاف کا پیمانہ ایک ہو گا اور سیاسی مخالفین کو ڈرائی کلین نہیں کروایا جائے گا اور لوٹوں اور کرپٹ افراد کو معاف نہیں کیا جا ئے تو دیکھتے ہیں کہ طے شدہ قومی حکومت اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے قانون اور آئین کی حکمرانی ممکن بناتی ہے یا نہیں مگر پی ڈی ایم نے تو سپریم کورٹ کے الیکشن کے فیصلے کو جوتی کی نوک پر رکھا الیکشن کمیشن نے اس کی پرواہ نہ کی کسی کو توہین عدالت پر نوٹس نہیں ہوا تو کیسے کوئی مستقبل میں آئین اور قانون کی حکمرانی کیسے قائم کرے گا
سوم _بے لاگ، منصفانہ اور بے رحم احتساب جو ہمارے ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے وہ قائم ہو گا یا نیب کو سیاسی انتقام کے لیے مہرہ بنائے رکھا جائے گا مگر ایسا وہی کر سکتا ہے جس کے اپنے ہاتھ صاف ہوں پاکستان میں قومی سطح پر کرپشن جرم رہا ہی نہیں ہے جب چاہیں آپ کو این آر او مل جائے اور جب چاہیں آپ کو صادق آمین کا سرٹیفکیٹ مل جائے اور پھر راندہ درگاہ ہو جائیں
ع جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
لہذا پاکستان کے ان مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے اجتماعی بصیرت کو بروئے کار لانا بے حد ضروری ہے اور اگر قومی حکومت آصف علی زرداری کی خواہش پر بنا نی ہے تو زرداری صاحب اس کے لیے کچھ بنیادی شرائط بھی پیش کر دیتے
اول سیاسی معاشی اور قومی سلامتی کو جن خطرات کا سامنا ہے اسکو تمام سیاسی فریقین اور اسٹیبلشمنٹ تسلیم کرے اور ماضی کی غلطیوں کو فراموش کر کے اس کا واضح لائحہ عمل قوم کے سامنے رکھا جائے ٹروتھ کمیشن قائم کیا جائے اور ٹیسٹ ٹیوب سیاسی جماعتوں کی نرسری بند کی جائے دوم سیاسی جماعتوں کو جبرو تشدد سے کٹ ٹو سائزکی پالیسی ختم ہو
سوم تمام سیاسی اور طاقت ور کردار اپنے گروہی اور ذاتی مفادات کو بالاتر رکھنے ہوئے ملک اور عوام کے مفاد میں ملک کو درپیش مسائل سے چھٹکارا دلانے کا روڈ میپ واضح کریں
چہارم تمام طرح کی سیاسی کنفیوژن اور بے یقینی کو ختم کیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈز الیکشن سے پہلے درپیش مسائل کے حل کے لیے مطلوبہ خطوط پر بنیادی اتفاق رائے قائم کریں
اگر مذکورہ بالا شرائط کی تکمیل کے بغیر الیکشن ہوئے قومی حکومت کے نام پر پی ڈی ایم کی جھولی میں اقتدار ڈال دیا گیا تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ شدید داخلی تضادات اور طاقتور شخصیات کے باہمی تصادم کی وجہ سے ملکی حالات الیکشن کے چند ماہ بعد ہی بگڑ جائیں گے اور عوام کے تعلیم یافتہ اور باشعور عوام کی مایوسی بڑھ جائے گی اور قومی اداروں کی محترم شخصیات کے خلاف خوامخواہ طوفان بدتمیزی سوشل میڈیا پر برپا رہے گا جو ملک و قوم کے لیے اچھا نہیں ہوگا