کس کس کی حکومت : تحریر ڈاکٹر صغریٰ صدف


قبل مسیح میں جب یونانیوں میں او ڈیسی کی یہ بات کہاوت کا درجہ اختیار کر گئی کہ’’جس حکومت میں بہت سارے لوگ شامل ہوں وہ حکومت اچھی نہیں ہوتی‘‘ تو یقیناً اس وقت وہاں بھی نہ صرف ماتحت محکموں بلکہ امرا، علما نے جمہوری نظام کے کارندوں کو عدل، دفاع، دولت اور منطق کے شکنجے میں جکڑ کر فیصلہ سازی میں مداخلت کا شیوہ اپنایا ہوگا یعنی کسی نہ کسی شکل میں وہ سبھی کار ِحکومت میں شریک ہوتے یا روڑے اٹکاتے ہونگے۔ایتھنز کی ریاست، جو جمہوریت کی سربلندی میں سب سے زیادہ متحرک رہی، میں اس وقت ساڑھے چار لاکھ لوگ آباد تھے، جن میں ڈھائی لاکھ غلام اور 80ہزار غیر ملکی تھے۔یعنی ایتھنز کے اصل شہری ایک لاکھ بیس ہزار تھے۔ اس شہر پر حکومت کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار تھی۔یعنی ایتھنز کے شہریوں کی کل آبادی کا تیسرا حصہ کار ِ حکمرانی سرانجام دیتا تھا یعنی گھریلو عورتوں، بچوں، دیوانوں اور بیماروں کو چھوڑ کر سب ہی کسی نہ کسی شکل میں حکومت سے وابستہ تھے۔ یہ ایک اچھی روایت تھی۔ مسئلہ تب پیدا ہوا جب ایک خاص گروہ سارے اختیارات اپنے ہاتھ میں لیکر فیصلے کرنے لگا۔چونکہ چند لوگ کبھی سب کی رائے اور سوچ کا اندازہ نہیں کر سکتے چنانچہ ساتویں صدی قبل مسیح کا ابتدائی زمانہ سماجی اور سیاسی حوالے سے ایتھنز کا بدترین دور بن گیا، ایتھنز کے آمریت نواز حکمرانوں نے آزادی پسند شہریوں کی آزادی کو طاقت اور قوانین کے ذریعے سلب کرنے کی حد کر دی تواسے تسلیم نہ کرنے والوں کی للکار سے ٹکراؤ بڑھتے بڑھتے خانہ جنگی کا روپ دھار گیا۔ ایتھنز کے اہل فکر ودانش اس بے یقینی کے شورشرابے کو روکنے اور ڈکٹیٹر شپ کا بڑھتا ہوا عروج ختم کرنے کیلئے کسی ایسے نظام کی تلاش میں سرگرداں ہوئے جو لوگوں کی آزادی اور ترقی کا ضامن بھی ہو اور انہیں کار حکومت میں شریک بھی کرے ۔ انھوں نے باہمی صلاح مشورے سے اس وقت ایتھنز میں موجود بہت معزز اور تعلیم یافتہ شخص ڈراکو Draco کو ذمہ داری سونپی کہ وہ ایسے قوانین وضع کرے جو کم استطاعت رکھنے والوں اور معزز شہریوں کو بے لگام امیروں اور طاقتور حکمرانوں کے مظالم سے محفوظ رکھنے میں معاون ہوں۔ ڈراکو نے قوانین کا عمدہ کتابچہ جسے Draconian Laws کہا جاتا ہے تو تیار کرلیا مگر یہ کتابچہ اس حوالے سے بے اثر رہا کہ اس میں اُمراء اور حکمراں طبقے کے لیے قانون شکنی کی جو سخت ترین سزائیں تجویز کے گئی تھیں ان پر سمجھوتہ نہ ہو سکنے کے باعث انھیں نافذ نہ کیا جا سکا۔ تقریباً 25 سال بعد ایتھنز کا انتظام ایک دانشمند مجسٹریٹ کے حوالے کیا گیا جو ایک ایسا طرز حکومت تجویز کرنے میں کامیاب ہوا جس پر آج کی جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے۔اس مجسٹریٹ کا نام سولون تھا اسے بھی یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ لوگوں کے اندر پائی جانے والی بے یقینی اور انتشار کا سد باب کرنے کے لیے کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرے جس سے عوام کی زندگی میں سکون آئے اور معاشرہ سیاسی و سماجی حوالے سےترقی کرے۔ اس کے پاس اختیار بھی تھا یعنی اس نے جو کچھ سوچا اس پر عمل بھی کروایا۔ اُس نے پوری دیانتداری سے عام آدمی کی زندگی کو سنوارنے ،اجالنے اور غلاموں کو آزادی سے روشناس کرانے کے لیے قوانین بنائے۔ عام آدمی جسےDemo کہا جاتا تھا کو کار ِحکومت میں شامل کرنے کی جو راہ نکالی۔ اس طرز حکومت کو 612 قبل مسیح میں اس نے Democracy جمہوریت کا نام دیا۔آج تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یہی طرز حکومت دنیابھرمیں رائج اور پسندیدہ ترین ہے۔یونان فہم و فراست کے حوالے سے معروف ہے۔اپنی آزادی کا تحفظ کرنے والی قوم نے لڑ جھگڑ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی بجائے عقلی حوالے سے جو حل نکالا وہ دنیا کے لئے مشعل راہ بن گیا۔ہمارا حال تو ساتویں صدی قبل مسیح کے یونان سے بھی بُرا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے یقینی اور عدم اطمینان کا جو شور برپا ہے وہ خانہ جنگی سے کہیں زیادہ خطرناک ہے اسلئے کہ یہ جنگ دماغوں کے اندر لڑی جا رہی ہے اور دماغوں کی جنگ زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ ضروری ہے کہ لوگوں کی رائے کا احترام کیا جائے وہ جس فرد کو منتخب کریں اسے حکومت کرنے کا موقع دیا جائے،دیگر محکمے،ادارے، گروہ اور تنظیمیں معاونت کرتے ہوئے حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے کا موقع دیں تاکہ لوگ ان سے پوچھ گچھ کرکے حساب لگا سکیں۔آج یہ عالم ہے کہ کوئی بھی سیاستدان احتساب کے لیے تیار نہیں، اس لیے کہ وہ مدت پوری نہ کر پانے کے ساتھ ساتھ رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔لہٰذا ہم سب کو پتہ ہونا چاہئے کہ حکومت کس کی ہے، کون ذمہ دار ہے اور جو ذمہ دار ہے وہی جواب دہ بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اس دفعہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والے سیاستدان کو ذمہ داری نبھانے کا سو فیصد حق ملنا چاہئے۔ صرف اسی طریقے سے وہ آزادانہ طور پر ڈلیور بھی کرے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ