کلیدی عہدوں کی تقسیم کا فارمولا : تحریر محمود شام


اب تو الیکشن کمیشن نے بھی کہہ دیا ہے کہ الیکشن کمیشن چند دن میں ڈی آر او۔ آراو۔ اسسٹنٹ افسران کا نوٹیفکیشن جاری کرنے جارہا ہے۔ چند روز میں الیکشن شیڈول دیا جائے گا اور پولنگ 8 فروری 2024 کو ہی ہوگی۔

انتہائی خوش آئند۔ آج 8فروری، یوم انتخاب، یوم احتساب،یوم حق رائے دہی،یوم اظہار اکثریت میں صرف 59 دن رہ گئے ہیں۔ بڑی پارٹیوں کے پارلیمانی بورڈوں کے اجلاس بھی ہورہے ہیں۔ 8 فروری 2024 ۔ یقینا ًفیصلہ کن موڑ ہوسکتا ہے۔ عوام کا سیاسی، سماجی، علمی اور تاریخی شعور اس وقت اپنے عروج پر ہے اور خاص طور پر ان 7 کروڑ نوجوان ووٹرز کا۔ جو تازہ تازہ صاحب الرائے ہوئے ہیں۔ وہ چاہے ہمارے مسلم ہم وطن ہوں یا غیر مسلم ہم وطن۔ اس عظیم مملکت کے زندہ دل، بیدار ضمیر شہری ہیں۔ اپنے طور پر وہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ ہمیں 38 سال سے حکمرانی کرنے والے لالچی حاکموں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ اپنی قیادت خود کرنی ہے۔ لاہور سے خیبر تک۔ ادھر دالبندین سے شہر قائد تک، پشتو، ہندکو، پوٹھوہاری، پنجابی، سرائیکی، سندھی، بلوچی، براہوی بولنے والے سب اپنی تقدیر کو تقدیر یزداں بنانے والے ہیں۔ اُردو تو ہماری وفاقی ہماری سرپرست زبان ہے۔ مختلف زبانیں سمجھنے والے بھی اپنا رابطہ اسی وفاقی زبان میں کرتے ہیں۔ میں جب اپنی ان قومی زبانوں کا ذکر محبت سے کرتا ہوں تو مجھے پورے وفاق سے پیار بھرے سندیسے ملتے ہیں۔

کراچی میں ہمارے ایک غیر مسلم ہم وطن ہیں۔ اعظم معراج۔ کئی کتابوں کے مصنّف بھی ہیں۔ بہت متحرک، فعال۔ مسیحی بھائیوں کے حقوق اور مسائل کیلئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے برقی پیغام بھیجا۔ ’’بہت شاندار کالم ہے۔ان تہذیبوں کے اندر ہی مختلف مذاہب کے لوگ اپنی اپنی مذہبی شناختوں کے ساتھ ہی ان تہذیبوں کے بھی وارث ہیں ۔کراچی کا آغا خانی، پارسی حتیٰ کہ یہودی جہاں بھی چلا جائے۔ اس ساحلی شہر(کراچی) کو یاد کرکے آہیںبھرتا ہے۔ ایسے ہی پنجاب کا مسیحی سندھ کے پانیوں سے چناب کی مٹی میں گندھا ہوا ہے۔ سندھ کا ہندو، لال شہباز قلندر اور شاہ لطیف سے اتنی ہی عقیدت رکھتا ہے جتنا کوئی کلمہ گو۔ بلوچستان، کے پی کے کے سکھوں کو ہم نے پشتون کلچر میں رچا بسا دیکھا۔ بہائی، بدھسٹ جہاں ہیں اس دھرتی کے گن گاتے ہیں۔ اس کالم کے اندر آپ یہ پہلو بھی اُجاگر کردیتے تو نشہ دو بالا ہوجاتا۔اعظم معراج بجا فرمارہے ہیں۔ ہمیں اپنے غیر مسلم ہم وطنوں کا ذکر بھی اسی جذبے کے ساتھ کرنا چاہئے۔ جیسے ہم مسلم ہم وطنوں کا کرتے ہیں۔ ان کے اندر بھی اتنی ہی تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ جو ہم کلمہ گوؤں کے اندر ہیں۔ وہ اپنی اس ماں دھرتی سے اتنی ہی لگن رکھتے ہیں جتنی ہم۔ انہیں اقلیتی برادری کہہ کر انہیں الگ تھلگ نہ کریں ۔یہ بھی اس وطن کی فیصلہ سازی میں شریک ہونے چاہئیں۔ ان کے خیالات بھی اپنے جان سے پیارے وطن کیلئے بہت بلند ہیں۔ اعظم معراج۔پاکستانی معاشرے میں مسیحی برادری کی خدمات۔ پاکستانی افواج میں مسیحی جانبازوں سے اپنی کتابوں میں متعارف کرواتے رہتے ہیں۔ان کو اقلیت کہہ کر اپنے آپ کو اکثریت سمجھ کر ہمارے مسئلے تو حل نہیں ہوئے۔ کیونکہ حقیقت تو یہ ہے کہ 1985کے بعد سے اکثریت کی تو یہاں نہیں چل رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ ہزار خاندانوں کی اقلیت ہے۔ جو اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کررہی ہے۔ یہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ جو دنیا میں اقلیت میں ہے۔ وہ بھی ہمارے ان ایک ڈیڑھ ہزار خاندانوں کی اقلیت کے ذریعے اپنا کلچر،اپنی زبان، اپنا رہن سہن ہم پر نافذ کررہی ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوؤں اور دامادوں کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھانے۔ آپس میں کھل کر باتیں کرنے کا دن اور میری تو گزارش یہ ہوتی ہے کہ جب سورج ڈھل رہا ہو دونوں وقت مل رہے ہوں تو آپ اپنے محلے والوں سے بھی ملیں۔ معاشی بد حالی، تاریخی مہنگائی، بلدیاتی نظام کی بے اختیاری میں ایک علاقے میں رہتے ہوئے بھی اگر انسان آپس میں نہیںملتے۔ اپنے مسائل پر بات نہیں کرتے۔ یہی سوچتے ہیں کہ کوئی مسیحا آئے گا۔ اعلان کرے گا تو سارا سسٹم از خود ٹھیک ہوجائے گا۔ تو یہ آپ کی سادہ لوحی ہے۔ آپ میں سے ہر فرد ایک طاقت ہے۔ جب آپ کی اپنی اولادیں صاف ذہن رکھتی ہیں۔ اپنے دوستوں دشمنوں کو پہچانتی ہیں اور ان کے ذریعے ہی آپ اپنے محلے، اپنی یونین کونسل یا بلدیاتی وحدت میں بھی آپس میں مل جل کر ایک طاقت وریکجہتی قائم کرلیتے ہیں تو آپ کی آواز میں ایسی قوت آجاتی ہے کہ طاقت ور حکمران طبقے اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ وہ آپ میں مختلف مذاہب، مختلف فرقوں، مختلف برادریوں اور مختلف زبانوں سے وابستگی کی بنا پر نفرت پیدا نہیں کرسکتے۔ دور دور رہتے ہوئے آپ اپنے ہم وطنوں کے دل میں کھلتی ہوئی کلیوں کے رنگ دیکھ سکتے ہیں، نہ ان کی آرزوئیں جان سکتے ہیں۔ وہ انہی دریاؤں کا پانی پیتے ہیں۔ اسی مٹی کی خوشبو سے وارفتہ ہوتے ہیں تو آپ ایک دوسرے سے بے گانہ کیوں ہوسکتے ہیں۔ہم اس وقت جمعیت الفلاح کراچی کے ہال میں بیٹھے ہیں۔ تین باذوق خواتین اور بڑی تعداد میں میری نسل کے بزرگ شاعروں میں داد دینے پر انفرادیت حاصل کرنے والی ہستی انٹرنیشنل سامع جہانگیر خان کو داد دینےکیلئے جمع ہوئے ہیں۔ کُرتے پاجامے اور سر پر کسی نہ کسی رنگ کی ٹوپی رکھے جہانگیر خان کو چھوٹے بڑے مشاعروں میں کھل کر داد دیتے نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے۔

شاعر کو مست کرتی ہے تعریف شعر امیرؔ

سو بوتلوں کا نشہ ہے اس واہ واہ میں

امیر مینائی کا یہ شعر ایک آفاقی سچائی بن گیا ہے۔ فریئر روڈ پر واقع جمعیت الفلاح کسی زمانے میں دائیں بازو کے فعال نوجوانوں کا مرکز ہوتا تھا۔ فریئر روڈ پر ہی فریڈرک کیفے ٹیریا تھا۔ جہاں کافی چائے کے ساتھ پینے والی دیگر چیزیں بھی ملتی تھیں۔ کچھ ہی دور نائٹ کلب روماشبانہ تھا۔ کیفے جارج تھا۔ جسکی پیٹز دور دور سے بھوکے پیاسوں کو یہاں کھینچ لاتی تھی۔ احساس زیاں نہ ہونے کے دنوں میں کسی ادارے کی طرف سے کسی ہم وطن کی خدمت کا اعتراف خوش آئند ہے۔ ریاست کو بھی چاہئے کہ جہانگیر خان کے اس ذوق کا اعتراف کرتے ہوئے تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازے۔

ایک واقف حال کا کہنا ہے کہ کلیدی عہدوں کی تفویض اس میرٹ پر ہے کہ اس افسر کو کونسی پارٹی اپنا سمجھتی ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو اعلیٰ وفاقی اور صوبائی عہدوں کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ سندھ میں پی پی پی کو۔ کے پی کے میں جمعیت علمائے اسلام کو بلوچستان میں آپشن کھلا رکھا گیا ہے۔ شاید 2024 کے الیکشن نتائج میں بھی یہی تقسیم جلوہ گر ہو۔ ذہین نوجوان سرکاری ملازمت سے اسی لیے گریز کرنے لگے ہیں۔ وہ کہتے ہیں سرکاری نوکری۔ کچرا ٹوکری۔

بشکریہ روزنامہ جنگ